Home » قصہ » دردجیی پجاٹیی ۔۔۔ عبدالسلام کھوسہ

دردجیی پجاٹیی ۔۔۔ عبدالسلام کھوسہ

رمزو موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلا تھا۔ جب وہ ہوش میں آیا تو گھر کا ہر فرد ہوش میں آیا ۔ ورنہ سارے ہی اپنا ہوش گنوا بیٹھے تھے۔ حکیم بار بار مریض کی خبر لیتے رہے۔ دوائیں بدلتے رہے ۔ پر مریض کی طبیعت مزید خراب ہوتی گئی ۔ اس کو گردن توڑ بخار زوروں پر تھا۔ اس کے گھروالوں کو اس بخار کا کوئی علم ہی نہ تھا ۔ وہ سمجھتے تھے کہ بخار ہے اس کی گردن ٹوٹ جائے گی۔ سارے گھر میں موت سی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ امیدیں ختم کر کے اس کے موت کا انتظار کرنے لگے۔
صرف رمزو کی والد ہ ہی تھی جسکی سانس نہ اوپر تھی اور نہ ہی نیچے وہ پریشانی میں مبتلا تھی ا س کی آنکھیں بھیگی ہوئیں تھیں۔ کھانا پینا بھول گئی تھی۔ نہ کسی سے بات کررہی تھی اور نہ ہی کسی کی باتیں پسند کر رہی تھی۔ فکر صرف یہی تھی کہ رمزو کی زندگی کس طرح بچ سکتی ہے ۔ آنے جانے والوں کے مشوروں پر خیر خیراتیں بھی کیں۔ لاکھ نکلوائے پیروں درباروں پر چادر یں بھی بچھائیں۔ پر ٹھیک ہونے کا امر ہی نہیں ہورہا تھا۔ قابل حکیموں کے زیر علاج رہنے کے سبب رشتہ دار مایوس ہوگئے تھے۔ کہ اب مزید کیا ہوسکتا ہے ۔ جو اس کی زندگی کو ملک الموت کے پنجے سے نکال سکے ۔
رمزو کی والدہ کو کسی نے مشورہ دیا کہ اپنی بہو سے بخشوائیں۔ جو ہمیشہ رمزو کی زیادتیوں کا شکار رہی۔بوڑھی زارو قطار اپنی بہو بھاگل کے سامنے رو رہی تھی۔
بھا گل بیٹی رمزو کو بخش دو۔ میری سفید بالوں کو دیکھ۔ یہ سارا ہمارا ہی قصور ہے ۔ رمزو بے گناہ ہے اس نے جو کچھ بھی تیرے ساتھ کیا وہ ہماری ہی باتوں کا نتیجہ ہے ۔ وہ ناک صاف کرتی ہوئی روتی کہتی رہی۔ بیٹی آپ کو تو سب خبر ہے ۔ تو غیر تو نہیں ہے ، اپنا ہی ہے ۔ کچھ سنا ہوگا اور بہت کچھ دیکھا ہوگا۔ رمزو ہمارے دین ودنیا کا اکلوتا بیٹا ہے ۔ اللہ اس کو زندگی بخشے ۔اور جوانی نصیب ہو۔ جب پیدا ہوا تو بلکل کمزور تھا۔چھ سالوں تک تو بوتل میں دودھ پیتا رہا۔ وہ ہم سب کی آنکھ کا تا را تھا۔ ہر کوئی اُس پر ہزار جان صدقے ہوتا تھا۔
بیٹی حد سے زیادہ پیار بھی تو صحیح نہیں ہے ۔ اس لیے تو رمزو ضدی ہوگیا ۔ اس کا ہر نخرا ماننا پڑتا۔ ہم میں سے کوئی نہ کوئی اس کی طرف داری کرتا ۔دے بھی دیں ایسے جان نہیں چھوڑے گا۔
بے شک زیتون کے اوپر دودھ پی لے
حرکت نہیں چھوڑو گے شال تیری کشتی ڈوبے
سیڑھیوں پر مت چڑھو۔ بے شک لوگوں کی گردن ٹوٹیں یا پھر رمزو کے والد حیدر آباد کیوں نہیں لے کر جاتے ہو۔ چلے گا تو اپنے پیروں پر والد کہتے مجھے تو آفس کے کام ہیں۔ یہ کہاں کہاں میرے ساتھ ہوگا۔ یہ مجھے تو کام کرنے بھی نہیں دے گا۔
بہر حال جیت ہمیشہ رمزو کی ہوتی ۔ اگر ناراض ہوتا تو رشتہ داروں کے سامان وغیرہ توڑ پھینکتا۔
یہی سب تھا کہ رمزو پڑھ تو نہ سکا بلکہ وہ غلط صحبت کا شکار ہوتا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہر طرف سے اس کی شکایتیں آنے لگیں۔ رمزو رحمت کی بجائے زحمت بن گیا۔
بوڑھی ، بھاگل کو کہہ رہی تھی ۔ بس جیجل پھر تو لوگوں کو کہتے تھے ابھی بچہ ہے بڑا ہوکر ٹھیک ہوجائے گا۔ پر اُس کے کان پرجوں تک نہ رہیں گی۔
بوڑھی اب خاموش ہوگئی زیادہ باتیں کرنے کی وجہ سے سانس لینے میں بھی دشواری ہور ہی تھی۔
تھوڑی دیر رک کر پھر آہستہ کہنے لگی ۔ کون ایسے کہے گا کہ میری اولاد نکما ہو۔ آخر یہی مشورہ ملا کہ اس کا ایک ہی علاج ہے اور وہ ہے شادی۔ اس کے بعد وہ خود بخود ٹھیک ہوجائیگا ۔ یہ ساعت بھی ہو گزرا پر تم نے دیکھا کہ یہ سارا وزن بھی تجھ پر آگیا ۔ شاباش ہے بیٹی آپ کو ۔خدا تجھ جیسی بیٹیاں ہر کسی کو دے ۔تو نے کبھی اُف بھی نہیں کیا ۔
بھاگل مظلوم کا صبر بھی کوئی نہ کوئی طوفان لاتا ہے ۔ رمزو کو اس کے غلط کر توتوں کی سزا مل رہی ہے ۔ مگر میری ممتا ۔ میری ممتا ۔ یہ کیسے پسند کرے کہ دین دنیا کا ایک بیٹا اور وہ بھی بدبخت ہو ۔ بیٹی اس کو معاف کردو نہیں تو میری موت اس سے بھی زیادہ خراب ہوگی۔ میں موت سے ڈر نہیں رہی پر یہ بار اٹھانا میرے بس سے باہر ہے۔ کندھا او پر اٹھا کر کہنے لگی۔ پیری بیٹی اس نے تیرے ساتھ کیا نہیں کیا ۔ پر تم اس کی بدی کا بدلہ نیکی سے دو۔ اس کو معاف کردو۔ تم سے مجھے یہی امید ہے بھاگل ۔ جیسے تجھے اپنے بیٹے ’’سجن ‘‘ اور ’’عزیز‘‘ پیارے ہیں۔ میں بھی رمزو سے پیار کرتی ہوں۔ پاگل کیا ہوا ہے پھر بھی جگر کا ٹکڑا ہے ۔ ان معصوموں کے صدقے اس کو معاف کردو۔
بھاگل جو اس وقت تک خاموش بیٹھی تھی ۔ اس سے رمزو کے والدہ کی حالت دیکھی نہیں جاسکتی تھی۔ اس نے اپنے معصوموں کی طرف نظر اٹھایا ۔ جو بے خبر سوئے ہوئے تھے ۔ اس کو ان کے چہرے میں رمزو کا معصوم چہرہ بھی نظرآیا۔ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی ہوئی باہر نکلی ۔ بر آمد ے میں آئی ۔ جہاں پر رمزو چار پائی پر بے ہوش پڑا تھا ۔ اڑوس پڑوس کی عورتیں جو اس وقت بیٹھی ہوئی تھیں۔ بھاگل کی عجیب حالت دیکھ رہی تھیں ۔ جو کہ رمزو کی چارپائی کے پیروں کے طرف بیٹھ گئیں تھیں۔
آہستہ آہستہ بھاگل کے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھنے لگے وہ بارگاہ رب العزت میں رمزو کیلئے دعا مانگ رہی تھی ۔ آنکھوں سے آنسو اس کے دامن میں گرنے لگے ۔بوڑھی بھی اب پہنچ گئی اور رمزو کے سرہانے جاکر کھڑی ہوئی اور اس کے ہاتھ بھی آسمان کے طرف اٹھنے لگے۔ یہ حالت دوسروں سے بھی دیکھی نہیں جاسکتی تھی۔ وہ بھی رمزو کی چارپائی کے چاروں طرف آکر کھڑے ہوگئے۔ اب سب کے ہاتھ دعا کیلئے اٹھے ۔ اچانک رمزو کی والدہ کی آنکھوں سے آنسوگرنے لگے اور گلاب کا ہرپانی رمزو کے چہرے پر گرنے لگا۔
اسی وقت رمزو کو ہوش آگیا ۔ آنکھیں کھول کر دیکھیں پر اُس کو کچھ بھی سمجھ میں نہ آیا کہ یہ کیا ہورہا ہے ۔اچانک اسکی نظر بھاگل پر پڑی تو اس کی مظلوم تصویر اُس کے ذہن میں بھرنے لگا۔
آہستہ آہستہ اس کے ہاتھ بھی فضا میں اُٹھنے لگے ۔زبان چلنے لگا مگر وہ گنگ تھا۔ اپنی زندگی کی ساری تصویر ذہن پر تیر کر آئی۔ آنکھوں میں آنسو چھلکنے لگے اور تیزی کیسا تھ بہنے لگے۔
اُس کے اوپر رحمت کے بادل برسنے لگے اور نیچے سے ظلمت کے بادل چھٹنے لگے ۔اوپر سے شفا کی بارش ہورہی تھی۔ اونیچے گناہ دھل رہے تھے ۔ آنکھوں نے اس گناہ گاہ چہرہ کو دھویا ۔ عجیب حالت تھی، سب رو رہے تھے ۔ سب دعائیں مانگ رہے تھے ۔ چہرے پر آنسوؤں کی بوندیں گر رہی تھیں مگر سب خاموش خاموش بھی ۔ایسے کہ جیسے کسی قبر پر فاتحہ پڑھی جارہی ہو۔اچانک اس قبر سے ہلکی نحیف آواز نکلی بھاگل میری بھاگل مجھے معاف کردو۔
نیچے ہونے کی وجہ سے رمزو اس سے زیادہ بات نہ کرسکا۔ مگر جلد رمزو کی طبعیت سدھرنے لگی۔ اور کم ہی دنوں میں وہ تندرست اور ٹھیک ہوگیا ۔ پر اب رمزو وہ رمزو نہیں رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں اب نہ وہ وحشت تھی اور نہ ہی چنگیزیت ۔اب وہ ایک شریف انسان اور محبت کا مجسمہ تھا۔

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *