Home » ھمبوئیں سلام » عبدالسلام کھوسہ/ اورنگ زیب

عبدالسلام کھوسہ/ اورنگ زیب

محترم جناب شاہ محمد مری صاحب
السلام علیکم!۔
امید ہے کہ خیر وعافیت سے ہوں گے ماہنامہ سنگت کے دسمبر کے شمارے میں تحریر شامل کرنے پر آپکا شکر گزار ہوں کہ آپ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
اس دفعہ بھی کچھ تحریر یں ارسال کر رہا ہوں ۔ اگر قابل اشاعت سمجھیں تو جنوری کے شمارے میں نوک پلک سنوار کر شامل اشاعت کریں۔
آپ کا خیر اندیش
عبدالسلام کھوسہ

****

محترم ومکرم برادر ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب
السلام وعلیکم کے بعد عرض ہے کہ میں خیریت سے ہوں اور آپ کی خیریت نیک مطلوب ہے (نصف صدی پہلے ہمارے گھروں میں خط کے آغاز کا یہی انداز تھا۔)
آپ نے عشاق کے قافلہ کے سلسلے کی تین کتابیں مجھے تحفہ میں عطا کر کے خوشی سے مالا مال کر دیا ہے ۔ جس کے لیے میں بہت ہی شکر گزار ہوں۔ ایک عظیم ادیب کی طرف سے ایک ادنیٰ ادیب کے لیے یہ تحفہ ایک اثاثہ ہے ۔ یہ تحفہ اور یہ احسان تا حیات یاد رہے گا۔ میں نے کتابوں کا سرسری جائزہ لیا ہے اور کچھ کچھ مطالعہ بھی شروع کردیا ہے ۔ اِن کتابوں کو پڑھنے میں،مصروفیت کی بنا پر، بزرگی (عمر 68سال) کی وجہ سے اور صحت کے مسائل کی بنا پر (اگرچہ کوئی بڑی بیماری نہیں) تین ماہ لگ سکتے ہیں۔
عشاق کا قافلہ (vol.30)میں سے میں نے ڈاکٹر امیر الدین اور ڈاکٹر انوار احمد کے احوال پڑھے لیے ہیں۔ ایک دفعہ میں بی اے کے پرچوں کی مارکنگ کے لیے B.Uگیا تو مارکنگ سنٹر اس احاطہ میں تھا جہاں اردو ڈیپارٹمنٹ بھی تھا۔ میں ڈاکٹر انوار احمد کو ملنے چلا گیا۔ اور جہاں تک مجھے یاد ہے وہ روبینہ ترین(جس کا ذکر آپ نے کیا ہے ) ہی تھی جس نے اپنے ہاتھوں سے چائے تیار کر کے مجھے اور ڈاکٹر انور صاحب کو پلائی۔
’’پاکستان ٹیچرز فورمً ترقی پسند اساتذہ کی تنظیم تھی اور اداروں میں ترقی پسندی اور روشن خیالی کو پروان چڑھانے کے لیے بنائی گئی تھی۔ میں بھی اس کارکن رہا ہوں پھر آہستہ آہستہ یہ غیر فعال ہوگئی ۔ اب پیشہ وارانہ مقاصد کے تحت ، خاص طور پر PPLA۔کے انتخابات کے لیے روشن خیال لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لیے ’’اتحاد اساتذہ‘‘ نام کی تنظیم فعال ہے ۔ جس کا ایک ماہنامہ بھی لاہور سے نکلتا ہے ۔ عشاق کے قافلے کے اکثر ناموں سے واقف ہوں لیکن تفصیلی حالات کا علم آپ کی تحریروں سے ہوجائے گا۔اب میں مزدک کے حالات سے جان کاری حاصل کررہا ہوں۔ کوئی دانشور مزدک کو نظر انداز نہیں کرسکتا ۔ علامہ محمد اقبال بھی مزدک اور فکرمزدک سے خوب آگاہ تھے۔ علامہ صاحب جمہوریت ، کارل مارکس ، اور لینن کی اہمیت سے خوب واقف ہیں۔ لیکنconfusedبھی ہیں۔جمہوریت کی تعریف بھی کرتے ہیں اور نفی بھی کرتے ہیں۔ اپنے اشعار کے ذریعے کارل مارکس اور لینن کی عظمت کو تسلیم کیا ہے لیکن اُن کے فلسفے کو قبول کرتے کرتے کنی کتراکر قریب سے گزر جاتے ہیں۔ مزدک کے متعلق بھی اُن کی ایسی ہی سوچ ہے ۔ اُن کا ایک ادھورا سا مصرعہ یاد آرہاہے ۔
مزدکی سوزن سے نہ ہوگا رفو
یعنی دنیا حسن مسائل سے دوچار ہے (خاص طور پر معاشی) اُن کا علاج مزدکیت (اشتراکیت) میں نہیں ہے ۔
کچھ آپ کو پڑھ کر اور کچھ ادھر ادھر سے آپ کے متعلق پڑھ سُن کر میں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ آپ سے بڑے قوم پرست بلوچ ادیب نہیں(ترقی پسند تو آپ ہیں ہی) چند سال پہلے ’’نوائے انسان‘‘ میں آپ کے متعلق ایک مضمون پڑھا تھا جس کا عنوان تھا ۔ ’’ڈاکٹر شاہ محمد مری کا بلوچستان‘‘۔
جس میں آپ کے بارے میں اور آپ کی بلوچستان کے بارے میں لکھی گئی کتاب کی تفصیل بیان کی گئی تھی۔ ترقی پسند ہونے کے ناطے سے میں یہ بھی جانتا ہوں کہ آپ بلوچستان مسئلہ کے حل کے لیے پاکستان کی سبھی قوموں کو ساتھ لے کرچلنا چاہتے ہیں۔ آپ ہر اُس قومیت اور کمیونٹی کے ساتھ ہیں جس کا استحصال ہورہا ہے اور آپ ہراستحصال کنندہ کے خلاف ہیں۔
آپ ایک بسیارنویس ادیب ہیں لیکن معیار کوہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔ آپ کی تحریروں کی بڑی خصوصیت روانی اور fluencyہے ۔ آپ تحریر کو تکلف اورتصنع سے بوجھل نہیں ہونے دیتے۔

آپ کا خیراندیش ونیازمند
اورنگزیب۔ساہیوال

Spread the love

Check Also

صنوبر الطاف

ایڈیٹر ڈاکٹر شاہ محمد مری!!۔ میں بطور شاعراور افسانہ نگار پچھلے پانچ چھ سال سے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *