Home » پوھوزانت » طویل کہانی کا بریک اپ ۔۔۔ وحید زہیرؔ 

طویل کہانی کا بریک اپ ۔۔۔ وحید زہیرؔ 

ڈومور، نو مور، گور ہی گور۔ کچھ بھی نہیں قابلِ غور، شور ہی شور، ہر طرف گھائل روحیں، ہر سوگرز نما ٹکورہی ٹکور، پانامہ سرے محل نہ جانے چھوٹے بڑے کتنے چور، غم غلط کرنے کی محفلیں ناچے چکوری مور چکور، سچ بولو تو آئے زور ، اور ہم سے جھوٹ نہ ہو اِگنور۔
ٹی شرٹ والے بھی بھلا آستینیں چڑھاتے ہیں۔ غم پالنے والے کب خوشیاں مناتے ہیں، دوسروں کی خوشیاں چھیننے والوں کے لیے رسوائی، ذلت اور نا مرادی کی پناہ گاہیں ہیں۔ یہاں بھائی کو بھائی سے لڑانے والا طالبِ دُعا ہے۔ دین کو یک رخی پر چلانے والے کیسے کیسے سور ماہیں۔
آج سے 20 سال قبل سنگت کا جب اجراء ہوا تو دانشوروں کا انداز گفتگو یہی تھا۔ لیکن سرد جنگ کے خاتمے کے بعد حالات تیزی سے تبدیل ہوئے۔ کسی اور کو اس دوران چپ لگی ہوگی مگرسنگت اپنے غم و اندوہ اور من کے امکانات لے کر اسی طمطراق کے ساتھ چھپتا آرہا ہے۔ ابھی وہ سرمایہ دارانہ نظام کے آنے پر واویلا مچا رہا تھا کہ فکر فراد کے لیے بہت سے دیگر در،وا ہوئے۔ افغانستان پر طالبان نے چڑھائی کردی اور ایک سخت گیر قیادت سامنے آئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے نائن الیون کا واقعہ پیش آیا۔ عراق میں صدام حکومت کے خاتمے میں مصروف امریکہ اب کے ایسا بپھرا کہ اس نے نیٹو کے اتحاد یوں کو ساتھ ملا کر افغانستان پر حملہ کیا ۔ڈاکٹر نجیب جیسے رہنما کو جس بے دردی سے قتل کیا گیا، اس پر بہت سے سوالات اٹھے ۔ وہی سوالات امریکہ کے طیش میں لانے کا حصہ بنے۔ حالانکہ سرد جنگ کے زمانے میں یہ ایک دوسرے کے اتحادی تھے۔ اسامہ کا شاید یہ غصہ درست ہوگا کہ امریکہ نے اسے استعمال کرکے بالکل لاتعلقی سے کام لیا۔ اور امریکہ اپنے نئے عزائم کے ساتھ عراق پر چڑھائی کرنے کے بعد مزید اِدھر اُدھر پھیلنے کا ارادہ رکھتا ہوگا۔ جس سے کئی ممالک پریشان تھے۔ اس لیے نائن الیون کا واقعہ پیش آیا جس پر امریکہ ایسا آگ بگولہ ہوا کہ اس نے بغیر کسی مہلت اور جوابدہی کے اتحادی افواج کے ساتھ افغانستان کا رخ کیا ۔ تورہ بورہ کی اینٹ سے اینٹ بجائی۔ ابو غریب جیل کو مسمار کردیا، گوانتا نامہ جیل کو آباد کیا۔ سیاسی مبصرین امریکہ کے افغانستان میں داخلے کے لیے نائن الیون کا واقعہ خود کروانے کا الزام بھی لگاتے رہے۔کچھ نے کہا یہ ساری جنگ تیل کے سودا گروں کی پیدا کردہ ہے۔ کسی نے یہ بھی کہا کہ اسلحہ فروخت کرنے والے ممالک کا یہ شاخسانہ ہے۔
اس کے ساتھ ہی پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں پر تشدد واقعات نے جنم لیا۔ ایک جانب لا ل مسجد کا واقعہ رونما ہوا تو دوسری طرف جسٹس نواز مری قتل کے مقدمہ نے سر اٹھایا۔ اس کے بعد کے پی کے اور بلوچستان کے حالات خراب ہونا شروع ہوئے۔ لال مسجد آپریشن، کار ساز دھماکہ ، بے نظیر کاقتل، نوا ب اکبر بگٹی سے چھیڑ چھاڑ اور بعد میں ان کی شہادت ، جان سلوکی کا اغوا، غلام محمد بلوچ، لالہ منیر کا قتل، جلسے ،جلوس ، ہڑتالیں۔ پارکوں، امام بارگاہوں، درگاہوں، مساجد ، تعلیمی اداروں اور فورسز پر خودکش حملے، بڑے بوڑھے خواتین اور طالب علموں کی شہادتوں میں روز افزوں اضافہ ہوتا گیا۔ آخر کار مشرف حکومت کے خلاف ہر طرف سے آوازیں اٹھنا شروع ہوئیں انہیں حالات کی خرابی کا ذمہ دار ٹہرایا گیا ۔ جسٹس افتخار چوہدری کی اور وکلا نے ایک بھر پور تحریک کا آغاز کیا ۔ جس میں انہیں سو فیصد کامیابی حاصل ہوئی ۔آخر کار مشرف کو جانا پڑا اور 2008میں عام انتخابات ہوئے۔ پاکستان کھپے کا نعرہ لگا۔ چونکہ حالات بہت خراب ہوچکے تھے ان کو فوراً سمجھنے اور درست کرنے کے لیے مقتدرہ حلقے سر جوڑ کر بیٹھ گئے ۔ انہوں نے بلوچستان پیکیج کا اعلان کیا ۔ بے نظیر قتل پر مٹی پاؤ کا فیصلہ کیا ۔جوں کے توں رہے ۔ اس دوران 2013کے انتخابات سی پیک کے معاملات تیز ہوئے۔ مبصرین کے خیال میں گوادر پورٹ اور سی پیک جیسے منصوبوں کے لیے یہ مناسب وقت نہیں تھا۔ پہلے ملک میں امن وامان قائم کیا جاتا۔ کیونکہ عالمی سیاست بھی اس کا متحمل نہیں ہوسکتی تھی۔ اب بھلا طالبان سے مذاکرات کا اونٹ کیوں کوئی کروٹ بیٹھتا، بلوچستان میں لگی آگ پر کوئی کیوں پانی ڈالتا، وزیرستان ، باجوڑ سے طالبان کا انخلا کیوں ممکن ہوتا۔ باقی رہی سہی کسر عمران خان مولانا طاہر القادری کے دھرنوں نے پوری کی۔ ایبٹ آباد آپریشن کے بعد سے اقامہ، پانامہ کی باز گشت ابھی تک سنائی دے رہی ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی تشکیل دینے میں پرائیوٹ نجی چینلوں کا کردار خوب رہا وہ ابھی تک خوب چسکے لے لے کر مناظرے اور مذاکرے کروارہے ہیں۔ ظلم وبربریت کی بساط بچھی ہوئی ہے۔ کوئی بھی مہرہ اٹھا کر اُس سے کئی گھنٹوں یاکئی دنوں تک خوب کھیلا جاسکتا ہے۔ مہنگائی نے عام آدمی کی کمر توڑ دی۔ طبقاتی فاصلوں میں بہت ساری دوریاں پیدا ہوئیں۔ پاکستان کے ممتاز سوشلسٹ دانشوروں نے محبت کے جوبیج بوئے تھے ۔ ان کے پھلنے پھولنے سے پہلے دہشت گردی کی ہوا دے کرانہیں جڑ سے نکالا گیا۔ ساری محنت کھو کھلی ہوگئی اب پچھتائیں کیا جب چڑیاں چک گئیں کھیت۔
ان تمام واقعات کو درگزر کرنے کا واحد حل یہ ہے کہ انسانی حقوق سے مزید چھیڑخوانی بند کی جائے۔پہلی فرصت میں ایمانداری پر مشتمل انصاف کو فروغ دیا جائے۔ حقیقی تعلیم اور دنیا وی ترقی ودانش کو قبول کیا جائے۔ ظالموں کی اکڑ خوانی پر قابو پایا جائے۔ علم وادب ، فنون لطیفہ سے روگردانی کا رویہ ترک کیا جائے۔ بصورت دیگر دہشت گردی کے ساتھ ساتھ حالیہ واقعہ کی طرح خواتین کے کپڑے اتار کر انہیں سربازار گمانے کا عمل جاری رہے گا۔ گلوبٹوں جیسے کرداروں میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ایک دوسرے کے درمیان اعتماد کافقدان رہے گا۔ اچھے اور برے کی تمیز نہیں رہے گی ۔ زمانہ جاہلیت کی جانب سفر تیزی سے جاری رہے گی۔ امراء کے گھوڑوں کے اصطبل آباد رہیں گے غریب بھوکوں مریں گے ۔ نوجوانوں کے غم وغصہ میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ بے روز گاری مزید بڑے گی، قتل و غارت گری کا راج باقی رہے گا۔ یونیورسٹیوں میں طالب علموں پر ڈنڈے برستے رہیں گے ۔ سیاستدان سیاسی پارٹیاں بدلتے رہیں گے۔ نئی نئی پارٹیاں تحفے میں ملتی رہیں گی بلوچستان کی ادبی سیاسی خانہ بدوشی ٹھکانے تلاش کرتی رہے گی ۔ اسی طرح جھوٹ پر اعتماد رہے گا۔ سچ ادھر ادھر بھٹکتا ، رلتا رہے گا۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *