Home » پوھوزانت » میرے گاؤں کا کامریڈ ۔۔۔ آمنہ ابڑو

میرے گاؤں کا کامریڈ ۔۔۔ آمنہ ابڑو

وہ سب آپس میں کوئی کھیل کھیل رہے تھے، میرے بچے اور پڑوس کے بچے۔
میں اْن کی طرف تب متوجہ ہوئی جب کسی کے جھوٹ موٹ میں کرخت بنائی گئی آواز میرے کانوں میں پڑی: “او چھوکرے، پانی لاؤ” اور جواب میں ایک نحیف سرگوشی نما آواز آئی “حاضر کامریڈ” ۔وہ لفظ اور وہ انداز میرے دماغ کے لئے ہتھوڑے کی ضربوں کی طرح تکلیف دہ تھے۔ میرے کان کھڑے ہوگئے اور میں نے سراپا دھیان بن کر ان سب کی طرف دیکھا۔
وہ کچھ عجیب سا کھیل تھا جس میں کچھ بچے رعب جمانے اور جتانے کی، اور کچھ بچے ڈرے سہمے اور کمزور ہونے کی اداکاری کر رہے تھے۔
میں نے “حاضر کامریڈ” کہنے والے ننھے فنکار کو اپنی طرف بلایا اور پوچھا “تم اتنے ڈر کیوں رہے ہو؟”۔
“کیوں کہ وہ کامریڈ ہے” اداکار نے کچھ شرماتے، لجاتے اور تھوڑا تھوڑا مسکراتے جواب دیا۔
“کامریڈ ہے تو پھر۔۔ کیا اْس سے ڈرا جائے گا؟؟” میں نے پریشان ہوکر پوچھا۔
“اور نہیں تو کیا نہیں۔۔؟؟؟؟” اْس نے اْلٹا مجھ سے سوال کیا۔
“لیکن کیوں؟” غیر ارادی طور شاید میں چیخ پڑی تھی۔
وہ میری بے خبری یا شاید بیوقوفی پر کھلکھلا کر ہنس پڑا اور بولا “کامریڈ غصہ ہوگا ورنا۔۔” اور سب بچے اتنی آسان اور چھوٹی سی بات بھی نہ سمجھ سکنے والی میری سادگی پر منہ پر ہاتھ رکھ کر کھی کھی کر کے ہنس دیے، میرا الجھا ہوا منتشر دماغ اور زیادہ اْلجھتا گیا،
اور آجکل “کامریڈ” کہلانے والے بہت سے کرداروں کے سائے میرے ارد گرد منڈلانے لگے۔
ابھی کل ہی کی بات ہے کہ امتحان ہال میں اْس لڑکے نے جس کی کلائیوں میں رنگین دھاگے بندھے تھے اور قمیص کے سارے بٹن کھلے تھے، جوابی پرچہ میرے ہاتھ میں تھماتے ہوئے سرد اور حاکمانہ لہجے میں گذارش کی تھی “مارکس کا ذرا خیال رکھنا۔ میڈم”۔ کہتے ہیں وہ لڑکا بڑا کامریڈ تھا۔
ابھی کچھ دن پہلے ہی تو سنا تھا کہ یونیورسٹی کینٹین میں دیر سے چائے لانے کے جرم کی پاداش میں اْس چھوٹے لڑکے کو ایک شاگرد نے مار مار کر ادھ موا کر دیا تھا۔۔ وہ شاگرد کامریڈ تھا۔ اور پھر اس کامریڈ لفظ کی آڑ میں چھپ کر یا ڈنکے کی چوٹ پر کیا کیا ستم نہ ڈھائے گئے تھے۔
کہیں ملکیت کے تکراروں پر باپ کے ہاتھوں بیٹے مارے گئے۔ کہیں پسند کی شادی کرنے کے جرم میں بیس سال بعد بھی لڑکی کو بچوں اور شوہر سمیت کاری کر کے مار دیا گیا۔ چھوٹی بچیوں کی اجتماعی آبروریزی کی گئی۔ کہیں سکول بند کر کے مویشیوں کے باڑے بنائے گئے۔ زندہ انسانوں کو شکاری کتوں کے آگے پھینکا گیا۔ کہیں بھوک نے زندگی کو اداس کر رکھا تھا تو کہیں بیماریوں نے بے بس کر کے چھوڑا تھا۔ ایسے بے انت واقعات ایک سیلابی ریلے کی مانند کہیں واضح کہیں دھندلے سامنے سے گزرتے گئے جس کے پیچھے کسی نہ کسی خود ساختہ کامریڈ کا آشیرواد چھپا تھا۔
بچوں کی معصوم ہنسی کے انگنت دائرے اور الفاظ کی قطعی طور پر تبدیل کیے گئے معانی مجھے کسی اور جہان کی طرف دھکیلتے چلے گئے تھے، اور مجھے میرے گاؤں کا وہ شخص یاد آتا چلا گیا جو میرے گاؤں کا کامریڈ تھا۔
وہ ایک مہربان شخص تھا، وہ کامریڈ تھا۔۔وہ میرا بابا تھا۔
بچپن میں مجھے لگتا تھا کہ وہ کوئی جادوگر ہے۔ جب بھی سامنے آتا کوئی نہ کوئی جادو ضرور ہوتا۔ خشک میوے کی چھوٹی چھوٹی پْڑیاں، کیلے، نارنگی، امرود، گنے کی گنڈیریاں، تربوز۔۔وہ کیسے سب کے لیے کچھ نہ کچھ مہیا کرتا، کس طرح اسے اپنے ارد گرد رہنے والوں کی ضروریات اور پسند کا ادراک تھا، مجھے کبھی سمجھ نہ آیا۔
میری طرح گاؤں میں رہنے والے تقرباً ہر فرد کے لیے وہ ایک “سونھوں” تھے۔ رہنما، راستہ بتانے اور دکھانے والے۔
ایک مرتبہ اس سے باتیں کرتے کرتے میں نے خواہش کا اظہار کیا کہ “کاش شیخ ایاز کی شاعری کے سب مجموعے اور اس کی دیگر سب کتابیں میرے پاس ہوتیں۔ میں جب چاہوں کوئی سی بھی کتاب اٹھا کر پڑھوں” ۔وہ میری جلدباز اور غیر مستقل مزاج طبیعت سے واقف تھا۔ مسکرا پڑا: “شیخ کو پڑھنے کے لیے تمہیں زندگی سمجھنا ہوگی” میں اداس ہوگئی تھی۔ کچھ دنوں کے بعد اس نے سمجھایا “تمہاری خواہش ہے ٹھیک ہے، خواہش کو پورا کیا جا سکتا ہے لیکن کتابوں کی خواہش کرنے اور ان کو پڑھنے کے کچھ آداب ہوتے ہیں، کتابیں خرید کر ان کا ڈھیر لگا دینے سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ اور جب چاہوں جو چاہوں اٹھا کر پڑھوں کا کیا مطلب ہے؟۔ ایک کتاب پوری پڑھنے کے بعد ہی اْس میں موجود پیغام تک رسائی ہوتی ہے”۔
بابا کے ساتھ جْڑی میری یادوں میں کتاب کا ایک الگ اور بڑا مقام اور حصہ ہے۔
کتابیں کتابیں کتابیں ہر طرف کتابیں، ہر جگہ کتابیں۔ عجیب بات ہے، میرے گھر میں ہر اُس جگہ پہ جہاں کچھ رکھا جا سکتا تھا بس کتابیں رکھی ہوتی تھیں۔ جتنے طاق ہوتے، تختے ہوتے، نئی پرانی میزیں ہوتیں کتابیں ہوتیں۔ میرے بابا کی کتابیں۔ یہ میرے بچپن کی ایک یاد ہے۔ہوسکتا ہے وہ سب کتابیں گنتی میں اتنی بے تحاشا اور بے حساب نہ ہوں لیکن میری ننھی سی نھار کے لیے وہ منظر زمین سے آسمان تک پھیلے ہوتے تھے۔ اور ان سب کتابوں میں کہیں نہ کہیں زندگی کی سمجھ چھپی ہوتی تھی۔(ان میں سے بیشتر کتابیں گوٹھ میں قائم کی گئی “وطن دوست لائبریری” کو سونپ دی گئی تھیں )۔
میرا ہاتھ پکڑ کر (گوٹھ کے بہت سے بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ) اس نے لکھنے اور پڑھنے کی دنیا سے روشناس کرایا۔ یہ بھی اس کی ایک جادوگری تھی۔ لوگوں کے من میں جاننے اور کھوجنے کی پیاس کو بو دینا۔
بہت بچپن میں ایک مرتبہ، پڑوس کا کوئی بچہ میری پیٹھ پر زور سے مار کر بھاگ گیا تھا، اور میں روتی بلکتی گھر کو بھاگی تھی تاکہ اماں کا پیار اور بابا کی ہمدردی پا سکوں۔ بابا میرا ہاتھ پکڑ کر گلی میں نکل آیاتھا اور گھر کی لمبی راہ داری عبور کرتے کرتے مجھے مْکہ بنانا سکھاتا رہا، کہ جب اس لڑکے کو دیکھو انگلیاں بھینچ کر پنچ بناؤ اور اس کی ناک پر زور سے دے مارو۔ اسے ناک آؤٹ کر دو۔
بابا کی انگلی پکڑ کر میں نہال ہوگئی تھی اور چوٹ اور درد کو فراموش کر چکی تھی۔ گلی میں پہنچ کر دیکھا گلی خالی تھی، وہاں کوئی لڑکا، ظاہر ہے میرا پنچ کھانے کے لیے نہیں رکا تھا۔
“کہاں ہے لڑکا؟۔” بابا نے پوچھا۔ میں نے بے نیازی سے شانے اچکا کر بے پرواہی سے کہا “بھاگ گیا” اور دوسرے ہی لمحے میں میں نے اپنے گال پر ایک زناٹے دار تھپڑ کے درد کو محسوس کیا۔ درد سے بھی زیادہ دکھ کے احساس سے میری ہچکیاں بندھ گئیں۔
گھر واپس آکر میرا ہاتھ اماں کے ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے میں نے بابا کو کہتے ہوئے سنا “اب یہ باہر سے کسی کے ہاتھوں پِٹ کر گھر نہیں لوٹے گی”۔
پھر میری طرف دیکھ کر بولا”زندگی خود سے جینا سیکھنی ہوگی اور اپنے ساتھ ہوئی ہر زیادتی اور ناانصافی کا حساب بھی چکانا سیکھنا ہوگا، کسی دوسرے کی مدد کے آسرے پر مار کھاکر لوٹنے کا مطلب ہے بار بار مار کھانا اور جینے سے دستبردار ہوجانا”۔
گوٹھ کے اداس ،مایوس ،تنہا اور بیگانگی کے مارے وجودوں پر اُس کا سایہ کسی چھاؤں دینے والی چھتری کی طرح پھیلا رہتا۔ وہ دوست تھا، غمخوار تھا، مسیحا تھا ،استاد تھا، پناہ گاہ تھا، توانائی دینے والا تھا۔ وہ سب تھا۔
لیکن جہاں گوٹھ کے بچے بڑے بوڑھے اس سے پیار کرتے تھے، اُن کے دوست تھے، وہاں دوسروں کے حق غصب کر کے اپنے فائدے حاصل کرنے والے سب گروہ اْس سے خائف اور ڈرے ہوئے رہتے تھے۔
میں نے سب سے پہلے اسی سے سنا تھا کہ “جو ہل چلاتا اور اناج بوتا ہے روٹی کے نوالے پر پہلا حق اُسی کا ہے”۔
اس کی آمدنی بہت زیادہ نہیں ہوتی تھی اور اکثر اس کی اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہوتی تھی مگر پھر بھی وہ سب کے ساتھ بانٹ کر کھانے میں یقین رکھتا تھا۔ ایک دفعہ میں نے سنا کہ اپنی قلیل آمدنی کو وہ اپنے ایک نظریاتی لڑائی کے اسیر دوست کے خاندان کے ساتھ آدھا آدھا بانٹتا ہے۔ باقی کا آدھا حصہ اس کے گھر میں موجود دوسرے دس لوگوں کے لیے ناکافی تھا۔ میں نے پوچھا”آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟” کچھ لمحوں کے توقف کے بعد اس نے جواب دینے کے بجائے سوال کیا “کیا یہ درست ہے کہ تم ایک پوری روٹی کھاؤ اور تمہارے ہی قریب کوئی ایک نوالہ بھی نہ کھا سکے اور بھوکا رہے؟۔ اس سے کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ آدھی روٹی تم کھاؤ آدھی اس کو دو اور دونوں زندہ رہ سکو۔۔؟؟ ” میں خاموش ہوگئی، میں اس کو ماننے والی بھلا آگے کیا کہتی۔۔
محلے کی گلیاں اگر میلی ہوجاتیں یا نالیاں اور گٹر بند ہوجاتے تو خود ہی صفائی کرنے میں جْت جاتا۔ اسے دیکھ کر اور لوگ بھی ہاتھ بٹانے آجاتے۔ گاؤں کی گلیوں میں جھاڑو دینے والے، کچرا اٹھانے والے خاکروبوں کو بلا بلا کر چائے کا کپ آدھا آدھا بانٹتا رہتا، بے مقصد ادھر اْدھر گھومتے، وقت گنواتے بڑے لڑکوں کو بْلا کر اپنے پاس بٹھاتا اور باتیں کرتا، پڑھنے اور چھوٹی موٹی مزدوریاں کر کے کارآمد بننے کے لیے اْکساتا، چھوٹے بچوں کے ناخن ترچھواتا، ہاتھ دھلواتا اور صاف ستھرا رہنے کی ترغیب دیتا۔ وہ بھلائی اور بہتری کے احساس اور جذبے بانٹتا رہتا تھا۔
گوٹھ کی جو چند پڑھی لکھی لڑکیاں تھیں انہیں اکساتا کہ وہ اپنی ان سہیلیوں کو پڑھائیں جو کسی بھی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہ گئی ہیں۔ لڑکیوں کو تعلیم دینے والی اس کی کوشش اور خواہش گوٹھ کے ان حضرات کو جو جاگیردارانہ اور غلامانہ سوچ رکھتے تھے بہت مشکل اور خطرناک بات لگتی تھی۔ ایسے لوگوں کو اکثر ایک ہی ڈر ستاتا تھا کہ لڑکیاں پڑھ لکھ کر اپنی مرضی سے شادی کرنے کی ضد کریں گی۔ بابا کا ماننا تھا کہ یہ بات بری نہیں ہے۔
وہ مجھے چونکہ بہت اچھا لگتا تھا تو میں اپنی پسند کی ہر بات اور چیز اسے بتاتی اور دکھاتی تھی۔ “بابا یہ چوڑیاں، یہ انگوٹھی یہ ہار دیکھئے۔” وہ ایک اک چیز کو ہاتھ میں اٹھا اٹھا کر دیکھتا اور تعریف کرتا، جو اکثر یوں ہوتی “اچھے رنگ برنگی خوبصورت موتی ہیں لیکن ان دنوں کی باقیات ہیں جب ہم نے عورتوں کو اپنی ملکیت کے طور پر باندھنا شروع کیا تھا، یہ دراصل و ہی زنجیر اور رسیاں ہیں جو ہم اکثر گائے بھینسوں کو باندھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں ” وغیرہ وغیرہ۔ اور ظاہر ہے کہ میرے دل میں پھر انہیں پہننے کی خواہش باقی نہ رہتی۔ میں نے بڑے چاؤ سے خوش خط خطاطی میں اپنے نام کے ساتھ بابا کا نام لکھا، پھول بنائے، رنگ بھرے اور فخریہ بابا کو جاکر دکھایا۔ وہ بڑا خوش ہو کر بولا “میں بہت خوش ہوں کہ مجھے بہت پیار کرتی ہو۔اور میرا نام اپنے نام کے ساتھ لکھ کر خوش ہوتی ہو لیکن گو کہ تم میری بیٹی ہو، میرے وجود کا حصہ ہو پر تم خود ایک الگ مکمل وجود ہو۔ یہ جو تم لکھتی ہو آمنہ مومن، تو اس کا مطلب ہے مومن کی آمنہ۔ تم میری ملکیت نہیں ہو، سو میری بیٹی بن کر میرا فخر بنو۔”
میری اماں کو پڑھنے کا جنون تھا۔ لیکن کچھ معاشی مسائل اور روایات کی سختی کی وجہ سے وہ اپنی تعلیم چاری نہیں رکھ پائی تھی۔ جب ان کی شادی ہوئی تو وہ چار درجے پڑھی ہوئی تھی۔ اور بابا کے تعلیم دوست ہونے کی وجہ سے جس اماں کو ہم آج جانتے ہیں وہ ڈبل ایم۔اے ہے اور ماضی قریب میں گورنمنٹ کی ملازمت سے فارغ ہوئی ہے۔ بابا کی مدد اور رہنمائی کے سوا یہ ممکن نہ تھا۔
سنا ہے وہ کوئی سرکاری ملامت بھی کرتا تھا لیکن اس کو نوکری سے سبکدوش ہونا پڑا تھا۔ ایک کمیونسٹ ساتھی کو انڈر گراؤنڈ ہونے میں مدد کے الزام میں۔
مہینے میں ایک بار ہمارے گھر کے باہری کمرے میں سٹڈی سرکل منعقد ہوتا تھا جس میں گوٹھ کے بڑے بچے اور نوجوان جمع ہوتے۔ بہت سارے لڑکے اور کچھ لڑکیاں بھی۔ وہ سب کوئی کتاب پڑھ کر آتے اس پر اپنی سمجھ بوجھ کے حساب سے سوال کرتے اور جواب دیتے۔ مارکس، لینن۔ اینگلز کے نام بار بار دہرائے جاتے۔ سوشلزم، کمیونزم، کپیٹلزم اور ایسے بہت سے مشکل الفاظ ، فلسفے اور نظریے وہ آسان کر کے سمجھانے میں مدد دیتا۔ اس نے ہمیں دھرتی پر حیات اور سماجوں کی ارتقا کی کہانیاں سنائیں اور سماجی نابرابری کے محرکات سمجھائے اور استحصالی قوتوں کی اپنے مفادوں کے حصول کے لیے بپا کی ہوئی مونوپولی والی جنگ میں سرگردان، بے رحم رویوں کو سمجھایا۔ کیوں کہ وہ ایک سچا کامریڈ تھا۔
۔۔۔۔۔۔
میرے کانوں نے بہت دور سے بچوں کے بیچ لڑائی کی آواز سْنی جو مجھے یاد کے دیس سے حال میں لے آئی۔
ان کا کھیل اب شاید اپنے آخری مراحل میں ہے۔ میرا چھوٹا بیٹا کسی فلمی ہیرو کی طرح اس رعب جمانے والے جھوٹے کامریڈ کو ایک ہاتھ سے اس کے گلے سے پکڑے کھڑا ہے، اور دوسرے ہاتھ سے پنچ مارنے کی اداکاری کے ساتھ ساتھ اپنے منہ سے ڈز ڈز ٹھا ٹھا کی آواز بھی نکالتا جا رہا ہے۔
“اب یہ کیا ہے بھلا ؟؟” میں الجھی الجھی پوچھتی ہوں۔
پاس ہی کھڑی وہ گڑیا سی چھوٹی بچی اپنی بڑی بڑی روشن آنکھیں پوری کی پوری کھول کر مجھے سمجھانے کے لیے آگے بڑھتی ہے “ہمارا ہیرو ہمیں تنگ کرنے والے کامریڈ کو پنش کر رہا ہے”۔
ان کا کھیل اب اختتام کو پہنچ چکا ہے۔
میں نے سب بچوں کو اپنے پاس بلایا اور کہا “بچو، آئندہ جب بھی ایسا کھیل کھیلو تو کامریڈ کو تنگ کرنے والا نہیں بلکہ سب کی مدد کرنے والا بنانا، کیونکہ کامریڈ کا مطلب ہے دوست، ساتھی۔ ٹھیک ہے بچو؟؟”
ایک بڑی سی کھلکھلاتی، اجتماعی “ہاں” کی گونج میں میں نے اپنے گوٹھ کے کامریڈ کو مسکراتا محسوس کیا۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *