Home » شیرانی رلی » غزل ۔۔۔۔۔  سبیلہ انعام صدیقی

غزل ۔۔۔۔۔  سبیلہ انعام صدیقی

رکھّے َ ہراک قدم پہ جو مشکل کی آگہی
ملتی ہے اْس کو راہ سے منزل کی آگہی
سیکھا ہے آدمی نے کئی تجربوں کے بعد
؂ؔ ؔ طوفان سے ہی ملتی ہے ساحل کی آگہی
ّٓاْس کا خدا سے رابطہ ہی کچھ عجیب ہے
دنیا کہاں سمجھتی ہے سائل کی آگہی
نظروں کا اعتبار تو ہے پھر بھی میرا دل
ہے اک صحیفہ جس میں مسائل کی آگہی
دن رات جس کے پیار میں رہتی ہوں بے قرار
اْس کو نہیں ہے کیوں دِلِ بسمل کی آگہی؟
یادوں کے اک ہجوم میں رہ کر پتہ چلا
تنہائی بھی تو رکھتی ہے محفل کی آگہی
خنجر کا اعتبار نہیں 249 وہ تو صاف ہے
لیکن ملے گی خون سے قاتل کی آگہی
مشق ِ سْخن سبیلہ ؔ نکھارے گی فن کو اور
مطلوب ہے کچھ اور ابھی دل کی آگہی
٭٭٭٭٭
آنکھوں میں وہ آئیں تو ہنساتے ہیں مجھے خواب
ہر روز نئے باغ دکھاتے ہیں مجھے خواب
اب پیار کے موسم کا ہے آغاز یقینا
نغمات نئے 249 خوب سناتے ہیں مجھے خواب
ہو نیند پہ چھایا ہوا جب فکر کا بادل
اک سیر نئی سمت کراتے ہیں مجھے خواب
اس زیست کی تلخی سے تو اچھی ہے مری نیند
تتلی 249 کبھی پھولوں سے ملاتے ہیں مجھے خواب
اک درد کا احساس جگانے کے لےئے ہی
پھولوں کی طرح خار کے آتے ہیں مجھے خواب
ملتے ہیں دْکھانے کو مرا دل ہی کئی لوگ
پھر درد کے صحرا میں سلاتے ہیں مجھے خواب
وہ لوگ سبیلہ ؔ کہ جو بچھڑے ہیں سفر میں
اکثر اْنھِیں کی یاد دلاتے ہیں مجھے خواب
Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *