Home » شیرانی رلی » تازہ غزل  ۔۔۔ اسامہ امیر

تازہ غزل  ۔۔۔ اسامہ امیر

اک خواب نیا پگھل رہا ہے
سورج سے دماغ جل رہا ہے

تو دور جو ہٹ رہا ہے، مجھ سے
رستہ تو نہیں بدل رہا ہے؟

سکّے تو نہیں عوام کے پاس
بازار کہاں سے چل رہا ہے

شب، نشّہ زیادہ کرنے والا
آہستہ سہی، سنبھل رہا ہے

کیا شور مچانے والے نئیں ہیں؟
خاموش زمانہ چل رہا ہے

سن،دور ہو جا نظر نہیں آ!
نظروں کو تو میری کَھل رہا ہے

آواز کْچل رہا ہے وہ شخص
لہجہ بھی مرا کْچل رہا ہے

ہاں، خواب برادہ بنتے بنتے
مٹّھی سے مری پھسل رہا ہے

وہ رات وہیں رکی ہوئی ہے
یہ دن ہے جو پھر نکل رہا ہے

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *