Home » پوھوزانت » میاں محمود احمد اور ان کے ساتھی ۔۔۔ محمد سعید

میاں محمود احمد اور ان کے ساتھی ۔۔۔ محمد سعید

ہر علاقہ ایک الگ پہچان کا حامل ہے۔ شاید ہی کوئی خطہ ہو جو شناخت کے بحران کا شکار ہو۔ لائل پور پچھلی صدی کا آباد شہر ہے۔ آباد کاری سے پہلے جنگ آزادی کا عظیم سپوت احمد خان کھرل اس سرزمین کو شناخت مہیا کر چکاتھا۔
حکمران طبقات کی کوشش ہوتی ہے کہ عوام کے حقیقی ہیروز کو تاریخ سے باہر رکھیں۔ اگر انہیں زندہ رکھنا مجبوری بن جائے تو ان کے گرد ایک طلسمی ہالہ ڈال دیتے ہیں تاکہ ان کا حقیقی کردار دھندلا جائے۔ مگر وہ عوام کے ذہنوں میں بسے رہتے ہیں۔ آج بھی احمد خان کھرل کی داستان ڈھولوں ماہیوں کی صورت زندہ ہے ۔
لائل پور کی کہانی بھگت سنگھ کی جدوجہد کی کہانی کے بغیر ادھوری رہتی ہے۔ یہ اسی دھرتی کا سورما ہے جو انگریز سامراج کے خلاف جدوجہد کی علامت بنا۔ اُس نے جس رستہ کا انتخاب کیا وہی راستہ آزادی کے لیے نشانِ راہ ہوا۔ ہندوستان کا عظیم ادیب رابندر ناتھ ٹیگور جن وجوہات کی بنا پر سر کا خطاب واپس کر رہا تھا وہی واقعات بھگت سنگھ کی سوچ کو راہ دکھلا رہے تھے۔ بھگت سنگھ پھانسی چڑھ گیا مگر آزادی کی منزل کو قریب کر گیا ۔ آزادی تومل گئی لیکن بقول فیض، یہ اجالا داغ داغ تھا ۔کالے قانون ویسے ہی لاگو رہے۔ سفید آقاؤں نے غلاموں کو قابو کرنے کے جو استبدادی ادارے قائم کیے ویسے ہی موجود رہے۔
تاریخ کے تسلسل میں ایک وحدت ہوتی ہے ۔جو ماضی میں گزرتا ہے،اور جو اس کے بعد ہوتا ہے کے مابین ایک رشتہ ہوتا ہے۔ درمیان میں خلانہیں ہوتا۔ جیسے جیسے وقت آگے بڑھتا ہے نئے نئے واقعات وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ نئی صورتیں جنم لیتی ہیں۔ جس سے نئے خیالات پیدا ہوتے ہیں۔ شخصیات کی انفرادیت زمان ومکان کی انفرادیت کا سبب ہوتی ہیں۔
بھگت سنگھ نے جو طریقہ کار اختیار کیاجو لائحہ عمل ترتیب دیا اُس پر بحث ہوسکتی ہے۔وہ بالشویک انقلاب سے متاثر تھا۔ جبر کی قوتوں کا خاتمہ ، محنت کشوں کا راج اُس کا خواب تھا۔ یہ الگ بات کہ اس کی لے اونچے سُروں میں تھی ۔خواب تو وہی رہے لیکن وقت کا دھارا تبدیل ہوچکا تھا۔ لہذا اب کے دھیمی آوازمیں سُر تھے۔ اس کا ز کی تکمیل کے لیے جن لوگوں نے سب سے زیادہ کام کیا اس ہر اول دستے میں لائل پور سے میاں محمود احمد پیش پیش تھے۔ یقیناًلائل پور نے مردم خیزی کا اعزاز بر قرار رکھا ہے۔
میاں محمود احمد کا وژن وہی تھا جو پیش روؤں کا تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ محنت کشوں کا طبقہ معاشرے کے نجات دھندہ کا رول ادا کرے گا۔ اِسی طبقے کے ہاتھوں ہر قسم کے استحصال کا خاتمہ ہوگا۔ اس طبقہ کی نجات مظلوم قوموں کی نجات کابھی پیش خیمہ ہوگی۔ یہی طبقہ نچلی پرتوں ، مجبوروں اور خواتین کو جبر سے چھٹکارا دلائے گا۔ میاں صاحب کو اس بات کا بھی ادراک تھاکہ یہ تبدیلیاں ایک منظم پارٹی کے بغیر نہیں ہوں گی۔پارٹی بھی وہ جس کی بنیاد ترقی یافتہ سائنسی نظریہ پرہو۔ وہ مارکسزم کو ایک سائنسی نظریہ سمجھتے تھے۔ ایک درست حکمت عملی اور لائحہ عمل پارٹی کو صحیح رہنمائی فراہم کرتی ہے ۔ سائنس جو حقیقت میں علم کی تنظیم ہے،تنظیم کی محتاج ہے۔
میاں صاحب بہت کا میاب وکیل تھے ۔انہوں نے اپنے پیشے سے بہت کمایا ۔وہ ساری کمائی ، نیزدیگر ذاتی وسائل جوان کے پاس تھے ، پارٹی کو منظم کرنے ،پارٹی کو متحرک کرنے، اس کی جڑیں عوام میں لے جانے کے لیے صرف کردیئے۔ ہزاروں واقعات ہیں جوان کے خلوص اور ایثار کی غمازی کرتے ہیں اور ان کی کمٹ منٹ کی پختگی کو ظاہر کرتے ہیں۔
کمیونسٹوں کو برصغیر میں کام کرنے میں شدید مشکلات رہیں مگر پاکستان ان کے لیے مواقع اور بھی کم تھے۔ پنڈی سازش کیس میں ورکرز کی ایک تعداد جیلوں میں بند کردی گئی۔ ایوبی آمریت میں ریاستی جبر اپنے عروج پر تھا۔ حسن ناصر شاہی قلعے کے عقوبت خانے میں تشدد کے ذریعے ہلاک کردیا گیا ۔ پابندیاں صرف بائیں بازو پر نہ تھیں بلکہ قوم پرست جماعتیں بھی ان حکمرانوں کے نزدیک غدار کی لسٹ پر تھیں۔انتہائی خوف کی فضا تھی ۔ اس ماحول میں لچک دار طریقہ کار کی ضرورت تھی۔ ان حالات میں راستہ نکالنا وقت کی ضرورت تھا۔ قوم پرستوں کے ساتھ ایک وسیع تر محاذ تشکیل دیا گیا اور نیشنل عوامی پارٹی بنائی گئی۔ جہاں اس جماعت نے قوموں کے حقوق جدوجہد کی وہاں محنت کشوں مزدوروں ، کسانوں کو بھی پلیٹ فارم میسر آیا، اس پارٹی کے زیر اہتمام 1970میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کسان کانفرنس منعقد ہوئی ۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں کسانوں کا سب سے بڑا اجتماع تھا۔ اس اجتماع نے بہت سارے اثرات جھوڑے انہی اثرات کی وجہ سے بھٹو مجبورہوا کہ وہ زرعی اصلاحات کرے ۔ کانفرنس جنتی بڑی تھی اس کے اخراجات اُتنے ہی زیادہ تھے۔ جو وسائل اکٹھے ہوئے ادائیگیوں کے لیے ناکافی تھے۔میاں صاحب نے اس موقعہ پر اپنی ذاتی کار فروخت کی اور کانفرنس کا حساب بے باک کیا۔ پارٹی جہاں جلسہ کرتی ، اجتماع کرتی میاں صاحب وسائل مہیا کرنے میں سب سے آگے ہوتے تھے۔ جھنگ کانفرنس پر بھی انہوں نے سب سے زیادہ فنڈ دیئے۔
اعمال ہی ہوتے ہیں جو خیالات کا پتا دیتے ہیں۔ میاں صاحب عملی کردار کا ایک خوبصورت نمونہ تھے۔میاں صاحب کا انداز سادہ اور حقیقت میں ڈوبا ہوا ہوتا تھا۔ لالہ ان کا تکیہ کلام تھا ۔لالہ پنجاب میں بڑے بھائی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس لفظ میں عجیب طرح کی مٹھاس ہے، محبت کا انوکھا رنگ ہے۔
میاں صاحب زندگی کے اختتام پر ایک تکلیف دہ بیماری میں مبتلا ہوئے۔ مجرد زندگی میں لاچار کردینے والی بیماری انتہائی تکلیف دہ ہوتی ہے۔ بیماری کے عرصہ کے دوران ایک لمحہ کے لیے تنہا نہیں ہوئے ۔لالوں کی ایک لمبی فہرست ہے جو ان کی خدمت میں حاضر رہے۔ خدمت گاروں میں سلیم بھٹہ اور چوہدری غفور کا نام سب سے نمایاں ہے۔
’’میاں صاحب کی سیاست کی راہ بڑی کٹھن تھی۔ اس راہ میں زندگی نارمل نہیں گزاری جاسکتی۔ بڑا مشکل ہوتا ہے۔ ازدواجی زندگی کہیں اس راہ کے مسافر کے لیے روکاوٹ نہ بن جائے۔ شاید وہ یہی سوچتے تھے۔ میاں صاحب ایک لالے عبدالغفور سے راقم حروف اور ناصر سلیم نے ملاقات کی جس میں انہوں نے اپنی یادوں کو ہم سے شیئر کیا۔
کہتے ہیں مزدوری مجھے لائل پور کھینچ لائی ۔ محلہ پرتاب نگر میں رہائش تھی۔ وہیں پر ہوزری کا کام سیکھ رہا تھا ۔ زری کام کاٹن ملز کے کچھ ہنر مندوں نے شروع کیا تھا۔ دوران تربیت ماسٹر تاج الدین انصاری سے رابطہ ہوا۔(ملزلائن میں اچھے ہنرمند کو بھی ماسٹر کہتے ہیں) ۔وہ وسیع مطالعہ شخص تھے اور منجھے ہوئے سیاسی ورکر تھے۔ وہ غیر محسوس طریقے سے ہمیں نظریاتی آگاہی دیتے رہے۔ جب یہ سمجھا کہ ہمیں کچھ سُوجھ بوجھ آگئی ہے تو وکیلاں والی گلی کچہری بازار میاں محمود احمد کے پاس لے آئے۔جہاں ہماری میاں محمود احمد سے ملاقات کروائی گئی اور وہاں جس دوسری شخصیت سے تعارف ہوا وہ سلیم بھٹہ تھے۔ یہ پہلا رابطہ زندگی بھر کے تعلق میں بدل گیا۔ ایسا لگا کہ ہم سب ایک کنبہ کے لوگ ہیں ۔پھر ہمارا جینا مرنا سانجھا ہوگیا اور یہ سانجھ موت تک قائم رہی۔
سلیم بھٹہ کی پارٹی سے وابستگی کی کہانی بھی عجیب ہے۔ سلیم بھٹہ رحمانیہ ملر میں کام کرتے تھے۔مزدور کی زندگی بڑی کھٹن ہوتی ہے ۔آجر کی کوشش ہوتی ہے کہ انہیں کم از کم معاوضہ دیا جائے ، اُسے اس سے غرض نہیں ہوتی کہ مزدور کا چولہا جلتا ہے کہ نہیں۔ اس کے علاوہ دیگر مسائل پیدا کرتے رہتے ہیں، اوقات کار کامسئلہ ، ویجزکی ادائیگی میں تاخیر، غیر انسانی رویہ ۔مسئلہ نہیں مسائل کا انبار ہوتا ہے جس سے مزدوروں کا سامنا ہوتا ہے ۔ یہ مسائل یہ تکلیفیں ، یہ دکھ ان کے درمیاں ایکا کا باعث بنتے ہیں۔ پارٹی طبقاتی تنظیمیں بناتی ہے تاکہ یہ اپنی یکجہتی کی بروئے کار ہوتے ہوئے اپنے دکھوں کوحل کریں اور اپنی سہولتوں میں بہتری لائیں۔ پارٹی مزدوروں میں طبقاتی شعور کے لیے بھی کام کرتی ہے تاکہ وہ اپنے طبقاتی کردار کو سمجھیں ۔ ان دنوں لیبر ڈیپارٹمنٹ نہیں ہوتا تھا ۔اس محکمے نے مزدروں میں الجھاؤ زیادہ پیدا کیے ہیں۔ مزدوروں میں آپس میں لڑانے کا زیادہ کام کیا ہے۔ اُس وقت ورکرز، پارٹی کی معاونت سے یونین بناتے تھے۔رحمانیہ ملز سے سرگرم مزدوروں کا وفد جب پارٹی دفتر جھنگ بازار آیا تو سلیم بھٹہ بھی ان میں شامل تھے۔ ان کا قد کاٹھ دیکھتے ہوئے ان کو یونین کا صدر بنادیا گیا بطور صدر ان کا پارٹی دفتر آنا جانا رہتا تھا اور وہ پارٹی سے مختلف اشوز پر مشاورت کرتے رہتے تھے۔ پارٹی سے ملنا چُلنا ان کا پارٹی سے جڑت کا سبب بنا۔ انہوں نے اس چناؤ کو درست ثابت کیا ۔پارٹی ممبر بنے اور تمام زندگی اس جڑت کو برقرار رکھا۔
سلیم بھٹہ جٹ برادری سے تعلق رکھتے تھے،جٹ برادری میں گوت اُن کے نام کا حصہ ہوتا ہے جیسے چیمہ چھٹے ، وڑائچ ، کاھلوں گھمن وغیرہ۔ گمان ہوتا ہے کہ شاید بھٹہ ان کی گوت ہو ایسا نہیں تھا۔ سلیم صاحب نے زندگی میں بے شمار کام کیے کچھ وقت کے لیے انہوں نے بھٹہ خشت بھی چلایا۔ بھٹہ چلانے میں تو نا کام ہوئے اس ناکامی پر میاں محمود احمدنے انہیں بھٹہ بھٹہ کہنا شروع کردیا۔ میاں کا یہ مذاق اُن کی زندگی کا حصہ بن گیا۔
میاں صاحب کی زندگی کی کہانی ساتھی ورکرز کی کہانی سے الگ نہیں ہے ۔ میاں صاحب کی خوبی تھی کہ وہ کارکنوں کو محض سیاسی انداز سے نہیں دیکھتے تھے بلکہ ان کے انسانی او رذاتی مسائل کو نہ صرف سمجھتے بلکہ ان کو حل کرنے بھی لگے رہتے۔ جب پیپلز پارٹی بنی تو بہت سے ترقی پسند اس جماعت میں شامل ہوگئے۔ فضل حسین راہی ، بدردین چوہدری ، چوہدری طالب حسین جیسے لوگ شامل تھے ، جب پیپلز پارٹی برسراقتدار آئی تو چوہدری طالب حسین کھر کا بینہ میں وزیر تھے۔ان دنوں سلیم بھٹہ بے روز گار تھے ۔میاں صاحب سے لائل پور میں تمام ترقی پسندوں کا محبت کارشتہ تھا۔ چوہدری طالب حسین نے میاں صاحب کی خوشنودی کے لیے سلیم کو ڈپو الاٹ کردیا ۔ یہی الاٹ منٹ سلیم صاحب کو سلیم ڈپو والا بعض حلقے میں مشہور کر گئی۔
ترقی پسندوں میں یہ کہاوت بہت مشہور ہے کہ چائے کہ پیالی پرانقلاب ، شاید اس کہاوت کے پس منظر میں کوئی واقع ضرور ہوگا۔حقیقتاًلاہور میں پاک ٹی ہاوس دانشور میں بیٹھنے کی جگہ تھی۔اس کی افادیت انکار نہیں ہے ۔وہ ہاں بیٹھنے والوں نے علم کی روشنی پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ ایسا ہی لائل پور کچہری بازار کی ایک گلی میں دوچائے کے ہوٹل تھے ۔ جھنڈکا ہوٹل دائیں بازو کے لیے مخصوص تھا۔ کامریڈ عاشق کا چائے خانہ بائیں بازو والوں کی نشست گاہ تھا۔ ان ہوٹلوں میں مختلف موضوعات زیر بحث رہتے تھے۔ اس کے علاوہ ان چائے خانوں میں شہر بھی کی خبریں مل جاتی تھیں اور یہیں سے انفارمیشن مشتہر ہوتی تھیں۔ سلیم بھٹہ کی ڈپو سے فراغت کے بعد پہلی نشست گاہ یہی چائے خانہ ہوتا تھا۔
سلیم بھٹہ کوئی زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے۔ کچھ کچھ کاروباری ضرورتوں اور زیادہ پارٹی سے وابستگی نے انہیں پڑھنا لکھنا سکھادیا تھا۔ شاید پارٹی سٹڈی سرکل کا کمال تھا ۔ پارٹی نقط نظر پر انہیں خاص عبور حاصل تھا۔ پارٹی موقف بڑی وضاحت سے بیان کردیتے تھے۔
سلیم صاحب کو پارٹی کی اجتماعی دانش پر فخر تھا۔ چین روس جھگڑے نے پاکستان میں جب شدت اختیار کی تو فرقہ پرستی کی شدید لہراٹھی۔ پارٹی ہی تھی جو اس فرقہ واریت سے سب سے پہلے نکلی اور یہ سوشلسٹ پارٹی ہی تھی جس نے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی نظریاتی کجرویوں کو دور کیا اور اپنی لائن کو درست کرتے ہوئے متوازن کیا۔
قومی جمہوری انقلاب اور عوامی جمہوری انقلاب کی بحث میں اپنی بہتر رائے کی بنا پر ایک انفرادیت قائم رکھی۔
جب کمیونسٹ پارٹی بین کرادی گئی اور اس کی دوست تنظیموں پر پابندی لگی تو اس وقت قیادت جیلوں میں تھی۔ شاید چند ایک روپوش ہوئے ہونگے۔ جب بھی انہیں موقع ملا کھلے محاذ پر کام کیا۔ انڈر گراؤنڈ والی ذھنیت پیدا نہ ہوئی ، چند ایک کو ہی سب کچھ سمجھ لیا گیا۔ عوام میں رابطے اور انہیں منظم کرنے کا کام چھوڑ دیا گیا۔ انہوں نے سختیاں جھیلیں مگر عوام میں ہی رہے۔ لائل پور میں سلیم بھٹہ میاں محمود احمد کے سب سے قریبی ساتھی تھے، ان کے صلاح کار تھے اور ان کے سچے اور کھرے ورکر تھے۔ میاں صاحب سے ان کی بڑی قربت تھی۔ میاں صاحب کی اس قربت نے انہیں ان جیسا کردیا تھا۔ ان کا باوطن ایک کمیونسٹ کاباطن تھا۔ انہوں نے اپنی ضرورتوں کو محدود کرلیا تھا جبکہ ساتھیوں کی مدد میں وہ لامحدود تھے۔ اپنی جیب میں پیسے ہوں یا نہ ہوں دوستوں کی مجبوری کو مقدم رکھتے تھے۔ رقم ادھار لے کر اُن کی ضرورت پوری کرتے تھے۔کچھ دوستوں نے ان کے ساتھ مل کر کاروبار کیا۔ جب کاروبار چل نکلا تو انہیں فارغ کردیا ۔ کبھی شکوہ شکایت نہ کی ، اپنے تعلقات کونارمل رکھا۔ انہوں نے ان تعلقات کو بھی اپنی سیاسی پارٹی کے تابع رکھا۔ میاں صاحب کُھلے ڈھلے انسان تھے شاید انہیں آمدن کا حساب رکھنا ہی نہیں آتا تھا ۔ جو آیا خرچ کردیا ۔ 1980ضیاء الحق کے دور میں مارشل لاء کے مہمان ہوئے ۔سلیم بھٹہ کی ذمہ داری تھی کہ وہ جیل میں ضرورت کا سامان پہنچا تا۔ اُس سامان کی ایک لمبی لسٹ ہوتی تھی جس پر اُن کی میاں صاحب سے تکرار رہتی تھی کہ آپ جیل کاٹ رہے ہیں کہ ڈیرہ چلارہے ہیں۔ گجرانوالہ جیل منتقلی پر یہ سلسلہ کم ہوا تب جا کر سلیم بھٹہ کو اطمینان ہوا کیونکہ وسائل کا ضیاع ان سے برداشت نہیں ہوتا تھا۔
انہی دنوں حبیب جالب جیل میں تھے۔ ان کے مالی حالات کچھ زیادہ بہتر نہ تھے۔ اوپر سے وہ کیثر اعیال آدمی تھے۔ سلیم بھٹہ کی ڈیوٹی تھی کہ گزارے کی رقم ان کے گھر پہنچا کر آئیں ۔سلیم بھٹہ نے یہ فرض بڑے احسن طریقے سے نبھایا۔
راقم الحروف ضیاالحق مارشل لاء میں ریاستی جبر کا شکا ر ہوا ۔اپنے ساتھیوں شوکت حیات ،چوہدری شفیق، شمس پرویز اور عاصم جاوید سے ساتھ تینتیس ماہ جیل میں رہا ۔ فیصل آباد پارٹی ہرہفتے ضروری سامان فراہم کرتی رہی۔ اس ذمہ داری میں سلیم بھٹہ نے کبھی ناغہ نہیں کیا اور نہ کبھی بے ضابطگی ہوئی۔ ہمارے گھروالے تو سیاسی لوگ نہیں تھے ان کی تسلی تشفی کا کام ان کی اضافی ذمہ داری تھی۔ ان کے دیے ہوئے حوصلے ہمارے گھر والوں کو بھی مطمئن رکھتے تھے ۔
لائل پور پاکستان کا تیسرا بڑا شہر ہے ۔ اب تو سعودی عرب کے قدامت پرست حکمران کے نام پر اِسے فیصل آباد بنا دیا گیا ہے ۔ قدامت پرستی اور ترقی پسند میں چولی دامن کا ساتھ ہے یہ نامیاتی طور پر آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔ سلیم بھٹہ زندگی بھر سوشلسٹ پارٹی کے صدر رہے۔ پارٹی ورکرز شہر کی دور دراز بستیوں میں رہائش پذیر تھے۔ ساتھیوں سے رابطے میں رہناان کے فرائض میں شامل تھا۔ سوشلسٹ پارٹی کے ترجمان اخبار ’’عوامی جمہوریت‘‘کی تقسیم کا کام بھی اپنے ذمہ لے رکھا تھا ۔ اس وقت ان کے پاس سائیکل تھی۔ سائیکل پر شہر بھر میں ساتھیوں کے گھر میں جانا بڑا مشکل کام تھا۔ یہ مشکل کام تو تھا ہی اخبار کی قیمت وصولنا اس سے زیادہ تکلیف دہ تھا۔
ساتھی پارٹی کو وقت دے دیں گے، اجلاس میں آجائیں گے جلوس میں بھی شامل ہوجاں گے مگر فنڈ دینے میں ہچکچاہٹ برتیں گے ، پارٹی فنڈ ان کی ذاتی صویدید پر ہوتا ہے کہ وہ کتنا فنڈ دیتا چاہتے ہیں۔ پارٹی مزدوروں کی پارٹی ہے ، مزدور کی روٹی روزی تو مشکل سے پوری ہوتی ہے وہ فنڈ کہاں سے دیں۔ پھر بھی سلیم بھٹہ یہ کام کیے جاتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ چندہ کارکن کو ذمہ دار بناتا ہے ۔
انہیں ادراک تھا کہ پارٹی ،اخبار کے بغیر نہیں چل سکتی ۔ اخبار اجتماعی منتظم کاکام کرتا ہے ۔اخبار کا مطالعہ فکری ہم آھنگی پیدا کرتا ہے، اور یہی فکری ہم آھنگی پارٹی ڈسپلن قائم کرتی ہے۔ اخبار کی تقسیم کاکام اور اُس کامطالعہ حقیقی تعلقات کی بنیاد ہے ۔مختلف علاقوں کی خبریں ایک خاص اتحاد بناتی ہیں اور کارکنوں میں جوش وجذبہ پیدا کرتی ہیں۔ لائل پور کی پارٹی حقیقی طور پر میاں صاحب اور سلیم بھٹہ کی معاونت کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی تھی۔ اس شہر میں جب میاں محمود کا ذکر ہوگا دیگر ساتھیوں کے ساتھ سلیم بھٹہ کا ذکر ضرور ہوگا۔ سویت یونین کے سقوط کے بعد جو عمومی فضا بنی وہ کافی مایوس کن تھی۔ حالات بہت تبدیل ہوچکے تھے۔ان تبدیل شدہ حالات میں کام کرنا پڑا مشکل ہوگیا تھا۔ NGOفیکٹربڑی تیزی سے بڑھ رہا تھا ، میاں صاحب انتقال کر چکے تھے۔ دہائیوں کی رفاقت ٹوٹ گئی۔ذاتی صدمات فروتر تھے ۔ کچھ اپنی صحت پر بھی توجہ نہ تھی۔ میاں صاحب تو گئے ہی سلیم بھٹہ بھی ہم سب سے قبل از وقت بچھڑ گئے ۔
ایک لحاظ سے ان کی جدوجہد بے ثمر رہی کہ جن بہاروں کی تمنا تھی وہ خواہش پوری نہ ہوئی۔ مگر ان کا کاز رکا نہیں۔ آج بھی لائل پور میں سینکڑوں ساتھی موجود ہیں جوان کے مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں ۔مایوسی کا پہلو کبھی غالب نہیں ہوا ابھی امیدوں کے چراغ بجھے نہیں۔ یقیناوہ سورج ضرور طلوع ہوگا جو ساری انسانیت کو آسودہ کرے گا۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *