جولائی 2017ئ میں بابا جان کے پاس ملنے مری لیب گئی تو جولائی کا سنگت آ چکا تھا ، بیٹھتے ساتھ ہی اس نے مجھے سنگت دیا ۔سرورق دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ اس پر نظر پڑتے ساتھ ہی ایک دم ایک بہت بڑی شخصیت میر یوسف عزیز مگسی ہی ذہن میں آگئی۔ یہ تکمیلِ انسانیت ایڈیشن تھا، لہٰذا شونگال بھی ’ تکمیلِ انسانیت‘ پر ہی تھا۔ شاہ محمد مری صاحب نے بتاےا کہ کہ وہ افسانہ جس کے لیے ہم سب کافی عرصے سے سرگرداںتھے اور وہ ہمارے ہاتھ نہیں آرہا تھا ،بالآخر شوکت ترین صاحب نے یہ مہیا کر دیا جو1934میں ہفت روزہ’ بلوچستان جدید‘ میں تین اقساط میں چھپ چکا ہے۔ شکریہ شوکت صاحب! گام گیژ یعنی ماضی کو کھنگالنا ؛ اس میں ماضی ہی کے ورق ’ تکمیلِ انسانیت‘ کی صورت میں پلٹے گئے۔ میر یوسف عزیز مگسی صاحب نے اپنی ہی سرگزشت کو افسانے کا رنگ دے کر بہت خوبصورتی سے بیان کیا ۔اپنے خاندان ، تعلیم ،بڑے سوتیلے بھائی کا ظلم ، ملکی حالات اور ان کی جدوجہد افسانے میں ہے۔ ایک حسین بات کہ ذاتی زندگی کی تکلیفوں اور جیل نے ان کو ایک عجیب روحانی طاقت دے دی تھی کہ پھر میر صاحب جو پہلے بھی ایسی شخصیت رکھتا تھا لیکن پھر مزید ماسوائے رب کے کسی کے بھی سامنے جھکنا گناہ سمجھا۔اور دوسری بات یہ کہ اتنا بڑا دل کہ دشمن کو سزا کی بجائے ہدایت کی بات کی۔ یہی اس افسانے کا اصل مغز ہے۔ بلوچالوجی؛ ایک نئی اصطلاح، ایک نئی سوشل سائنس ؛ جس میں چار مضامین شامل تھے، سب سے پہلے جس پر بات کرنا چاہوں گی وہ ہے ایوب بلوچ صاحب کا انگریزی کا مضمون ’ A new Social Science in the Offing‘ ۔ اس میں اس نے کہا کہ بلوچوں کی ہزاروں سال پرانی ایک تاریخ ہے، ادب ہے ، موسیقی ہے اور اپنی بہت رِچ بلوچی اور براہوی زبانیں ہیں ، ان کی اپنی ا یک شناخت ہے لیکن بعض اوقات تاریخ دانوں نے اسے مسخ کرنے کی کوشش کی ہے اور ایسی باتیں انھوں نے تاریخ کا حصہ بنانے کی کوشش کی جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اور یہ بلوچوں کے لیے، بلوچ زمین کے لیے نقصان دہ ہے ۔ا س کے لیے ’ بلوچالوجی‘ کی نئی سوشل سائنس کی اشد ضرورت تھی کہ بلوچ خود اپنی کشتی کا بیڑہ اٹھائیں اور وہ چاہے لکھنے والے ہوں ، دانش ور، ماہرِ تعلیم ہوں یا ریسرچر یا سوشل سائنٹسٹ یا کسی بھی شعبے میں ہو لیکن وہ بلوچ کے لیے یعنی اپنے لیے کام کرے ، اس کی شناخت پر کوئی آنچ نہ آنے دے، باتوں کی حد تک نہیں بلکہ عملی طور پر۔ ’ بلوچستان تا کیوبا ( سفر کہانی)؛ یہ سفر نامہ ہے ڈاکٹر شیر محمد صاحب کا جو کیوبا میں اس کے دورانِ تعلیم کی داستان ہے ۔ ایک نارمل سا مضمون تھا جس کی ابھی توشروعات ہے اور ابھی یہ جاری ہے ۔آگے امید ہے کہ اس میں ڈاکٹر صاحب قاری کی دلچسپی بڑھانے کی کوشش کریں گے۔ ڈاکٹر سلیم کرد صاحب نے اپنے مضمون ’ کتاب دوستی اور عظمت کتاب‘ میں میر یوسف عزیز مگسی صاحب کی کتاب سے محبت کے بارے میں ایک مختصر سا مضمون لکھا ہے۔ اور اب جس مضمون کا میں خاص طور سے ذکر کرنا چاہوں گی وہ ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب کا لکھا ہوا ’ بلوچ کا رقص‘ ہے۔ حسین لفظوں اور جادو بھرے فقروں کا ایسا امتزاج کہ اس نے ایسا سِحر طاری کیا کہ اس کے بعد پورا دن مجھ سے کچھ اور نہیں پڑھا گیا ،بس اسی جادو کے حصار میںرہی۔ رقص کو ماں کے دل کی دھڑکن، انسان کے روز مرہ معمولات اور کائنات میں موجود ہر ردھم سے ایسے جوڑا کہ بس مزہ آگیا۔ لیکن پھر جب اس نے ناہید صدیقی کے رقص کا لکھا تو پڑھتے ہوئے یوں لگا کہ میری روح بھی پاﺅں میں گھنگرو پہن کر ناہید صدیقی کے ساتھ ہم رقص ہو گئی۔ ہاں‘ اتنی ہی طاقت ور تحریر ہے شاہ محمد مری کی کہ مجھے چند ثانیے لے جا کر ناہید صدیقی کے سنگ جاکھڑا کیا۔ پوہ زانت میں دو مضامین شامل تھے اس دفعہ جن میں سے پہلا تھا ڈاکٹر شاہ محمد صاحب ہی کا ’ وسیع ذہنی استعداد کا مالک…. اسلم فرخی‘ جو عنوان سے ہی ظاہر ہے کہ اسلم فرخی صاحب کے بارے میںتھا۔ ڈاکٹر صاحب تو ویسے ہی شخصیات کے بارے میں لکھنے کے ماہر ہیں لہٰذا ان کی وہ مہارت اس مضمون میں بھی ہمیںنظر آئی۔ عظمت کی دھاک ڈاکٹر صاحب کی تو ہم پر بیٹھی ہی ہے لیکن اسلم فرخی صاحب جن کے بارے میں نہیں جانتی تھی ان کی شخصیت کی دھاک بھی قاری پر بیٹھ گئی۔ اسی سلسلے کا دوسرا مضمون ’ سقراط کی اکیسویں صدی‘ تھا جسے حمیرا صدف حسنی نے تحریر کیا۔ کوئٹہ شہر جہاں ہر روز ماتم کا ہوتا ہے، ہر شام ، شامِ غریباں اور ہر شب ہی شبِ خون مارا جاتا ہے ۔ کانوں میں جہاں ہر وقت گولیوں اور دھماکوں کی آوازیں گونجتی ہیں؛ اسی دکھ ، انھی حالات کا احوال ہے یہ مضمون ۔ اچھا تھا۔ اب آتے ہیں ’ کتاب پچار‘ کی جانب جس میں سات تبصرے شامل تھے۔ دوبلوچی کے تھے ۔ عابدہ رحمان کے دوتبصرں میں سے تو حسبِ معمول ایک جون کے ماہتاک سنگت کا جائزہ لیا گیا تھا، جب کہ دوسرا ڈاکٹر شاہ محمد مری کی کتاب ’ لوہسون کی منتخب کہانیاں ‘ پر تبصرہ تھا۔ باقی تین تبصرے جاوید اختر صاحب کے تھے۔ ’ جام ساقی: چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی‘ پر اچھا تبصرہ تھا جس میں کتاب کے ہر کونے کھدرے کو چھانا پھٹکا گیااور ہر باب پر ترتیب وار بات کی گئی۔ ڈاکٹر یاسمین کی کتاب ’ نوادرِ انجمن ‘ پر بھی بہتر تبصرہ تھا ۔ ہاں مگر منیر بھائی کی کتاب ’ خموشی بے ہنر ٹھہری‘ کا تبصرہ ان کی پوری کتاب کا احاطہ نہیں کرتا۔ ان کی نظم ، ان کی غزل یا یوں کہہ لیں کہ ان کی شاعری کا اصل موضوع کیا ہے، یہ نہیں بتاےا گیا۔ ان کی شاعری کا ایک آدھ ٹکڑا ہی دیا گیا۔ نظموں کے صرف عنوان ہی بتائے گئے ۔ اگر کسی ایک نظم کا کوئی ٹکڑا بھی شامل کیا جاتا تو مزہ آجاتا۔ ±±قصہ؛ عجیب بات ہے کہ دنیا اس قدر تیزی سے دوڑ رہی ہے کہ سچ پوچھیں توسانس لینے کا ٹائم بھی بمشکل ہی ملتا ہے۔ ایسے میں دنیا کی بہت سی چیزوں میں تبدیلی آتی چلی جارہی ہے۔ یہی حال قصوں کا ہے۔ الف لیلوی طویل داستانیں ناول، ناول افسانے میں اور یہاں تک کہ افسانہ بھی افسانچے میں بدل گیا۔ ادب کی اس صنف یعنی’ افسانچے ‘سے میں کبھی متاثر نہیں ہوئی لیکن یہاں میں الوک کمار کے افسانچوں کا ذکر ضرور کروں گی۔انھوں نے بہت اہم موضوعات پر کافی بہترافسانچے لکھے۔ محمد علی پٹھانڑ کے چار افسانوں کاترجمہ ننگر چنا نے بڑی اچھی طرح کیا۔ ملک میں پھیلی Insecurity ، مجرموں کا کھلے عام دندناتے پھرنا، تعلیمی نظام اور ریلوے نظام کی بدحالی، ہر طرف ایک لوٹ مار مچی ہوئی ہے۔ یہ ہے موضوع محمد علی صاحب کے قصے ’ دانہ جلا کر وقت دیکھتا ہوں‘ کا۔’ درخت میرا دوست ہے‘ اس ایک اور افسانہ ہے جس میں گھر میں موجود درخت کاٹنے پر اس گھر کا بچہ جو اس سے ایک خاص محبت محسوس کرتا ہے ،ضد کرتا ہے اور اسے کاٹنے سے بچا لیتا ہے۔یہ ایک انسپیریشن ہے ہمارے لیے کہ درخت کا کاٹنا بند کر دیں بلکہ مزید درخت اگائے جائیں۔اپنے تیسرے افسانے ’ ازلی سچائی‘ میں وہ وہی سچائی بیان کر رہے ہیں کہ جو کرتا دھرتا کے لیے پریشانی کا باعث بن جاتی ہے یعنی کہ ’ اگر انسان کا وجود ایک حقیقت ہے تو ا سکی ضرورتیں بھی حقیقت ہیں ۔ کوئی بھی انھیں اپنے حقوق اور ضروریات سے محروم نہیں رکھ سکتا اور نہ ہی ان کی انفرادیت کو دبا سکتا ہے‘۔گو کہ محمد علی صاحب نے اپنے ان افسانوں میں کافی اہم موضوعات پر قلم اٹھایا لیکن فنی لحاظ سے کافی کمزور افسانے تھے۔ ہاں البتہ فنی لحاظ سے ان کے افسانے ’ عکس‘ کو بہتر کہا جا سکتا ہے۔ افسانہ ’ عکس‘ دراصل الوک کمار کے افسانچے ’ مرد‘ ہی کا ایک عکس ہے۔ لیکن اس میں ایک الگ رخ دکھایا گیا جس میں پہلے پدرانہ نظام کا یہ مرد عورت کو اپنی طرف راغب کرنے میں لگا رہتا ہے، محبت کا دعوی کرتا ہے لیکن پھر بکواس سی توجیہات پیش کر کے تہمت لگا کر غیرت کے نام پہ قتل کردیتا ہے۔ ’مذاق‘ فرزانہ خدر زئی کا افسانہ ہے جس میں معمولی معمولی باتوں پر طلاق کا لفظ قسم کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور اس طرح جانے دن میں کتنی بار بیوی کو طلاق دی جاتی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ان کے دلوں میں عورت کی کتنی عزت ہے کہ سرِ بازار اس کی دھجیاں اڑاتے ہیں ۔ مذہب کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کو مذہب کا بھی پاس نہیں۔ یہ لفظ طلاق قسم کے معنوں میں ، میں نے خود موسیٰ خیل میں استعمال ہوتے دیکھا ہے۔ ایک اور افسانہ ’ ساتواں نمبر ‘ کے نام سے عابدہ رحمان نے لکھا جس کا موضوع ہے کہ جب کوئی قتل ہوتا ہے تو خون بہا کے طور پر جرگہ فیصلہ کرتا ہے کہ قتل کے بدلے مخالف خاندان کو اتنی لڑکیاں دی جائیں۔ اور اب بات کرتے ہیںشاعری کی ؛ اس دفعہ مجھے جو نظمیں بہت اچھی لگیں وہ ہیں نیلوفر عباسی کی ’ آئینہ‘ اور ثروت زہرا کی ’ لامحدود کی حدیں‘ ۔ نیلوفر عباسی کہتی ہیں ؛میں آئینہ ہوں اے میرے چہرے پہ عکس در عکس ابھرتے لوگوںمیں آئینہ گر کے دستِ چابک کا شاہکار ِ عظیم تر ہوں میری جبیں پہ تم اپنے نقش و نگار دیکھو تو ظرف رکھومیں سچ کہوں گا!ڈاکٹر فاطمہ حسن صاحبہ نے بھی کیا خوب نظم کہی ہے؛وہ نیند کب تھی؟مگر گماں ہے کہ سو گئی تھی!وصاف باسط کا پھر اپنا انداز ہے؛مجھ کو آوازوں کی بھیڑ سے ڈر لگتاکتنی آوازیں مجھ کو آکر کہتی ہیںدنیا تیرے قابو میں ہر پل رہتی ہے! غزل کو چھیڑیں تو…. ارے بھئی ہم کیا غزل چھیڑیں گے وہ تو منیر بھائی ، جی ہاں ٹھیک سمجھے آپ ، منیر رئیسانی صاحب نے ہی چھیڑ دی؛تم بھی کسی دیار کے لگتے ہو بے نواتم بھی بیاں نہ کر سکے، الفاظ یرغمال واہ جی!….منیر بھائی کی غزل کے سُر سے سُر تو جناب زاہدہ رئیس راجی صاحبہ نے ملایا کہ ؛اک ڈوبتی کشتی کو بچانے کی تھی کوششساحل سے جسے، تم نے بھنور دیکھ لیا ہے اور جناب وحید نور صاحب کہاں پیچھے رہے؛بت کی صورت ہی تراشاتھا اسے پھر میرا ایمان پتھر ہو گیا! کاوش عباسی کا ایک خوبصورت قطعہ دیکھئے ذرا:کسی اصول کو خود پر امام نافذ کرتو اپنی ذات میں کوئی نظام نافذ کریہ تیرا دل جو سدا بے لگام رہتا ہےتو اس پہ کوئی حلال و حرام نافذ کر ان کے علاوہ مبشر مہدی، کشور ناہید، پابلونروداشان گل،احمد شہریار، ثبینہ رفعت ، نوشین کمبرانڑیں اور کچھ اور دوستوں کی بہت اچھی شاعری بھی ماہتاک میں شامل تھی ۔ بلوچی حصے میں دو مضامین شامل تھے۔ دونوں کتابوں پر تبصرے تھے۔ اور دونوں ہی خوب۔ ایک تبصرہ ہے سنگت تراجم سیریز کی کتاب ’اینمل فارم‘ پہ، جسے ترجمہ کیا ڈاکٹر علی دوست بلوچ نے اور تبصرہ لکھا شرف شاد نے۔ انہوں نے بالخصوص اس بات پر حیرت اور خوشی کا اظہار کیا کہ سنگت اکیڈمی جو ترقی پسند فکر کی نمائندہ ہے، ایک ایسا ناول شائع کیا جو ترقی پسندوں پر طنز اور تنقید پر مبنی ہے، اس سے اکیڈمی کی ادب سے غیر مشروط وابستگی کا اظہار ہوتا ہے۔ دوسرا تبصرہ اسحاق خاموش کا شاہ محمد مری کی کتاب ’عبداللہ جان جمالدینی ‘ پر ہے۔ اس کی دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ایک اُردو کتاب پر بلوچی میں لکھا گیا تبصرہ ہے۔ تبصرہ نگار نے کتاب کی خوبیوں کو نمایاں کیا اور ان کی تعریف کی ہے۔ بلوچی کے دونوں تبصرے بھرپور تھے۔