Home » پوھوزانت » خاموش آدمی بولتا قلم کار۔۔۔۔وحید زہییر

خاموش آدمی بولتا قلم کار۔۔۔۔وحید زہییر

جو خشک روٹی پر پلابڑھاہو، ہمیشہ غربت اس کے مقدر سے جڑا ہو۔ دشت میں نخلستان کے خواب دیکھتا ہو۔ اپنی شاندار تاریخ لے کر بھٹکتا پھرتا ہو۔ دنیا بھر کے درد دل میں پالتا ہو ، ہر کامیابی میں مشقت پر یقین رکھتا ہو۔ ایک پسماندہ علاقے سے تعلق کے باوجود امیر شہر سے زیادہ عزت دار اور باعث اعتبار ہو، یہ ہے بلوچی اور اردو کے مشہورومعروف افسانہ نگار غنی پرواز جو آنکھوں سے سوچے تو پُر حیرت لگے، غم تخلیق کرے تو سارا ماحول سُلگے، پھول سوچے تو ہر سو خوشبو بکھرے ، بات کرے تو علم ہی علم جھلکے ۔جو خشک روٹی پر پلابڑھاہو، ہمیشہ غربت اس کے مقدر سے جڑا ہو۔ دشت میں نخلستان کے خواب دیکھتا ہو۔ اپنی شاندار تاریخ لے کر بھٹکتا پھرتا ہو۔ دنیا بھر کے درد دل میں پالتا ہو ، ہر کامیابی میں مشقت پر یقین رکھتا ہو۔ ایک پسماندہ علاقے سے تعلق کے باوجود امیر شہر سے زیادہ عزت دار اور باعث اعتبار ہو، یہ ہے بلوچی اور اردو کے مشہورومعروف افسانہ نگار غنی پرواز جو آنکھوں سے سوچے تو پُر حیرت لگے، غم تخلیق کرے تو سارا ماحول سُلگے، پھول سوچے تو ہر سو خوشبو بکھرے ، بات کرے تو علم ہی علم جھلکے ۔ کہا نیوں کے پس منظر میں چھپا غنی پرواز بظاہر ملنے جلنے والا غنی پرواز ایک دوسرے سے اس لیے مختلف ہیں کہ ہر طرف سیاسی بد نظمی ہے ۔ اس لیے کہیں وہ کرداروں پر حاوی نظر آتاہے اورکہیں کردار اس پر حاوی ہوتے ہیں ۔ اس کے باوجود وہ بکھرا ہوا شخص نہیں کیونکہ خوش رنگ، خوش گلو ، خوش خیال ماحول میں اس نے آنکھ کھولی تھی۔ابھی ادب بندگلیوں میں تخلیق نہیں ہورہا تھا۔ قوم شعرو ادب کے معاملے میں پختہ مزاج رکھتا تھا ۔ ابھی گھر سے گلی کے نکڑ تک جانے والے بچے کے بازو پر امام ضامن باندھنے کا رواج نہیں پڑا تھا ۔ ابھی معاشرے میں جنتی دوزخی افراد کی تقسیم شروع نہیں ہوئی تھی ۔جب ساحل مکران پر چھوٹے چھوٹے بچوں کو سمندر کی لہروں سے کھیلتے ہوئے میں نے بوڑھے شخص سے سوال کیا کہ کیا بچوں کے ڈوبنے کا خطرہ نہیں؟تو اس نے بتایا سمندر ماں ہے ۔ وہ کیسے بچوں کو کھاجائے گی۔البتہ ہمارے بچے جب سڑکوںپر آجاتے ہیں تو گاڑیوں کے نیچے کچلے جاتے ہیں۔ اسی لیے جب بھی کوئی بچہ سڑک پر نظر آتا ہے تو ہمارا دل دہل جاتا ہے ۔ غنی پرواز اس بوڑھے کی طرح اپنے نوجوانوں کے لیے فکر مند ہے ۔ اس کا کہنا افلاطون کے ان الفاظ کی عکاسی کرتا ہے جو آج مفت نصیحت قبول نہیں کرے گا۔ کل اُسے مہنگے داموں افسوس کے ساتھ خریدنا ہوگا، بقول ڈاکٹر شاہ محمد مری غنی پرواز افسانہ نگاری میں تعداد کے لحاظ سے شاید باقی سب افسانہ نگاروں سے آگے ہیں، ان کے افسانوں کے مخاطب انسانی زندگی کے دکھ درد او رغم خوشی ہیں( مختصر تاریخِ زبان وادب بلوچی)۔ ایک مرتبہ میں نے ایک سنیٹر ادیب سے سوال کیا ۔ ادیب بننا کیوں ضروری اور ادب پڑھنا کیوں نا گزیر ہے؟ اس نے بتایا کہ ادیب ہمیشہ ٹیون رہتا ہے ۔ ادب پڑھنے سے آدمی ٹیون ہوتا ہے ۔ غنی پرواز بے شمار اغززات حاصل کرنے کے باوجود کبھی نہیں گنواتے ۔ وہ کہتے ہیں ۔ میرا سب سے بڑا اعزاز میرے پڑھنے اور چاہنے والے ہیں۔ جو میری طرح سوچتے اور زندگی کے جھنجھٹوں کا مقابلہ کرتے ہیں ۔ انسان اور اخلاقیات نامی کتاب سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ انسانیت پر مکمل یقین کامل رکھتے ہیں ۔ ہر انقلاب کے پیچھے اخلاقیات کو بہترین توانائی خیال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے ناول ، تنقید پر مبنی کتاب اور افسانوی مجموعے بلوچی ادب کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ اپنے بارے میں وہ یوں رقطمراز ہوتے ہیں۔ ”میں خیال کے ساحل پر کھڑا خوبصورت مناظر سے لطف اندوز ہورہا تھا کہ اچانک تندو تیز لہروں نے میرے پیروں تلے سے زمین نکالی ، میں نے ڈوبنے او رنکلنے کی کشمکش سے آزاد ہونے کی بہت کوشش کی مگر نا کام رہا۔ خیال کے سمند رکو دیکھا تو وہ کوئی اور دنیا تھی اور باہر دیکھا تو کوئی اور دنیا ہے۔ ان دونوں کے درمیان خود کو پُل بنالیا اس طرح مجھے حقیقی زندگی نصیب ہوئی (کتاب جنگل)۔ اسی طرح مبارکہ حمید غنی پرواز کے بارے میں لکھتی ہیں: ”غنی پرواز گورنمنٹ ڈگری کالج تربت میں سیاسیات کے پروفیسر ہیں۔ بلوچی ادبی تنظیم بلوچستان اکیڈمی کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے شاعری بھی کی ہے ۔ غنی پرواز بنیادی طور پر ترقی پسند ادب ہیں ان کے افسانوں میں معاشرے میں ہونے والے ظلم وزیادتی ، طبقاتی اونچ نیچ اور انسانی حقوق کا عکس واضح نظرآتا ہے“۔ (بلوچستان میں اردو افسانے کا تحقیقی وتنقیدی جائزہ) بقول عارف ضیا ءآغا گل نے غنی پرواز کو ڈوبتے جہاز کے عرشے پر کھڑا آخری لشکری قرار دیا ہے ۔(ماہنامہ سنگت جولائی2003ئ)۔ غنی پرواز رابطوں میں پہل کرنے والا شخص ہے ۔ ضابطوں میں مقید شہری ہے ، اس کا جنون ہی لکھنا پڑھنا ہے اور ایسا کرنے پر نوجوانوں کو اُکسانا ہے۔ اس سلسلے میں پہلے پہل اثر انکے بچوں پر پڑا ہے ۔ ڈاکٹر محسن بالاچ اچھے شاعر ثابت ہوئے ہیں۔ بیٹی سمی پرواز بھی شاعری کرتیں ہیں۔ فی زمانہ یہ رواج کم پڑچکا ہے ۔ حال ہی میں ایک براہوئی شاعر ادیب کے انتقال کے کچھ دنوں کے بعد اس کی نایاب لائبریری کی کتابیں کباڑیے کی دکان پہنچ گئیں کجا اولاد میں کوئی شاعرادیب پیدا ہو ۔ اس لحاظ سے غنی پرواز خوش نصیب شخص ہیں کہ اسکی لائبریری کے وارثین نہ صرف پڑھے لکھے ہیں بلکہ ادب کوٹ کوٹ کران کے مزاج کاحصہ بن چکا ہے ۔ باقی رہا بلوچستان کے حالات تو اس میں اگر انسانیت کی رمق باقی ہے تو وہ بھی غنی پرواز جیسی ہستیوں کے طفیل ابھی زندہ ہے ۔ غنی پرواز کے شاگردوں میں تاہنوز بڑھو تری ہورہی ہے ۔ غنی پرواز جیسے خوش نصیب اساتذہ نسلوں کو متاثرہ کرنے کا باعث ہوتے ہیں۔ غنی پرواز تہذیب کا تماشہ نہیں لگا تے، تہذیب سے سچائی کشید کرکے پھیلاتے ہیں۔ وہ اکثریت میں ان بوڑھوں کی طرح دھوپ سیک کر وقت نہیں گزارتے وقت کو علم کی توانائی کا محتاج بناتے ہیں ۔ جیرڈ ڈائمنڈ کی کتاب تباہ شدہ تہذیبیں اور جدید دنیا میں تحریر ہے کہ تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ روئے ارض کے مختلف حصوں میں مختلف زبانوں اور ناموں سے کئی تہذیبیں آباد ہوئیںاور پھر جلد بربادی کا شکار بھی ہوئیں۔ جس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ماحول کو بے تحاشا نقصان پہنچایا، دستیاب وسائل کا بے دریغ اور ناعاقبت اندیشانہ استعمال کیا۔ غنی پرواز کو بھی یہی غم کھائے جارہاہے۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *