Home » پوھوزانت » بلند پرواز، غنی پرواز!۔۔۔۔محمد رفیق مغیری

بلند پرواز، غنی پرواز!۔۔۔۔محمد رفیق مغیری

دنیا کے بھی عجیب اصول وقوانین ہیں ۔ کہیں نیک نامی پر شہرت و عزت نصیب ہوتی ہے تو کہیں نامناسب کارناموں پر شہرت کی بلند یاں نصیب ہوتی ہیں۔ ایسا ہی ایک کارنامہ جام علی کے فرزندوں نے سرانجام دیا تھا ۔ مگر اس کارنامے نے نہ صرف انہیں ان کے بھائی پنہوں اور ان کے دیس کو ایسی شہرت نصیب کی کہ یہ شہرت تا قیامت زندہ تابندہ رہے گی اس لیے پنھوں کا دیس محتاج تعارف ہے اور نہ محتاج تعریف ہی ۔ بھلا تعارف کی کیا احتیاج ، کیونکہ دنیا کے عظیم شاعر شاہ عبدالطیف بھٹائی ؒ جیسا شاعر بھی کیچ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔شہربھمبوہے چل کر جب میں، بھٹکی تھی ہر سوپہنچی کیچ کی بستی میں کہ ، جہاںتھا وہ مہ رو۔”ہر جاتو ہی تو“ مُفتی اب کیا فتویٰ دے گا پنھوں کے طفیل کیچ کی شہرت تا قیامت قائم ودائم رہے گا مگر پنھوں کے علاوہ بھی کیچ نے کئی بلند مرتبت شخصیات وکردار پیدا کیے ہیں ۔ اِن شخصیات میں پنھوں دیس کا بلند پرواز پنچھی ، غنی پرواز کانام نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ غنی پرواز نے حاجی محمد ابراہیم کے گھر15اگست 1945کو نذر آباد تحصیل تمپ ضلع کیچ میں اِس جہان رنگ وبو میں آنکھ کھولی ۔ ابتدائی تعلیم وہیں ہی سے حاصل کی۔ میٹرک گورنمنٹ ہائی سکول تربت سے کیا۔ ایف اے گورنمنٹ کالج خضدار سے پاس کیا ہے۔ بی اے گورنمنٹ ڈگری کالج کوئٹہ سے کیا اور پھر ایم اے کی ڈگریاں بلوچستان یونیورسٹی سے حاصل کیں۔ اس کے علاوہ فاضل بلوچی اور بی ، ایڈ بھی کر چکے ہیں۔ شعبہ ہائے زندگی میں ادب ثقافت ، فلسفہ ، سیاسیات ، صحافت ، تعلیم اور انسانی حقوق سے دلچسپی رہی ہے ۔ اِس طرح شعبہ ہائے ادب کی دنیا میں شاعر ی، افسانہ نگاری، ناول نگاری ، ڈرامہ تنقید نگاری، تحقیق اور ترجمہ کثیرالسان اُردوانگریزی اور بلوچی زبان میں تخلیق کرتے رہے ہیں۔ اس وقت ریٹائرڈپروفیسر ہیں۔ آج تک اُس کی تقریباً31کتابیں مختلف اصناف میں شائع ہوچکی ہیں، اور دوکتابیں زیر طبع ہیں اور جلد ہی منظر عام پر آنے والی ہیں ، اسکے علاوہ وہ اُس کے ہاں ستر 70کتابوں جتنا مواد غیر مطبوعہ پڑا ہے ۔ اسے بہت ساے ایوارڈ مل چکے ہیں۔ اہلِ علم ہونے کے ناطے پرواز کا پورا خاندان ماشاءاللہ نہ صرف علم کے زیور سے بھر پور انداز میں آراستہ ہے بلکہ خاندان کے تمام افراد اہل علم ہونے کے ساتھ ساتھ اہل ادب بھی ہیں۔  گھر کے ماحول سے اثر انداز ہوتے ہوئے اور والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے غنی پرواز کے فرزندگان اور دختران نے علم وادب میں بھی اپنانام ومقام پیدا کیا ہے ۔ غنی پرواز کے چار بیٹے او رچھ بیٹیاں ہیں۔ ڈاکٹر محسن بالاچ کسی تعارف کا محتاج نہیں بہت اچھے شاعر ہیں ، اُنکا لکھنے کا اپنا ایک انداز اور شناخت ہے۔ اُردو اور بلوچی زبانوں میں شاعری کرتے ہیں۔ حمل خان بیوٹمزمیں لیکچر ر ہیں مصور ہیں اور شاعر ہیں۔ ابراہیم پرواز انگلش اور اُردو میں شاعری کرتے ہیں۔ اِسی طرح جمشید غنی بلوچی او رانگلش میں افسانہ اور ناول لکھتے ہیں۔ بیٹوں کے مقابلے میں غنی پرواز کی بیٹیاں بھی کسی سے کم نہیں ۔ بانک ڈاکٹر سمی پرواز کو کون نہیںجانتا ۔اہل ادب میں وہ اپنی علیحدہ شناخت رکھتی ہے۔ شاعری کے ساتھ ساتھ افسانہ نگار بھی ہے۔ مہناز غنی اُردو اور بلوچی میں شاعری کرتی ہے ۔ سیمک پرواز آزاد نظم پر طبع آزماتی کرتی رہتی ہے۔ اسی طرح گوہر پرواز بھی شاعرہے بھلایہ سب شاعر اور افسانہ نگار کیوں نہ ہوں ۔ کیونکہ ان سب کی رگوں میں غنی پرواز کا خون جو دوڑ رہا ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ باپ دنیا جہاں کا درد اپنے اندر لیے جی رہا ہو۔ اور بچے اپنے ارد گرد اپنی سرزمین اور راج کی تکالیف سے خبر ہوں۔ غنی پرواز اپنی سرزمین کا سچا عاشق ہے۔ اُس کی شاعری میں افسانوں میں ناولوں میںسرزمین کے لیے اور اُنکے لوگوں کے ساتھ عمیق عشق نمایاں نظر آتا ہے۔ وہ انتہائی حساس طبیعت کا مالک ہے جسکی وجہ سے وہ اپنے ارد گرد ماحول حالات وواقعات ظلم وجبر نا انصافی استحصالی لاقانوینت انتہا پسندی خود غرضی دہشت گردی سے بے حد متاثر ہوکر کڑھتا رہا،جلتا رہا اور اندر کی آگ نے اسے جلا کر کندن بنا دیا ہے ۔ جسکی وجہ سے جو کچھ تخلیق کرتا ہے اُس میں بلوچستان جھلکتاہے ۔ مختلف کرداروں کے دکھوں ، محرومیوں ناانصافیوں ظلم وجبر اور غربت وافلاس کی داستان غم اس انداز سے بیان کرتاہے کہ دل شدت افسوس سے تڑپنے لگتاہے۔ اور بے اختیار آنکھیںاشکبار ہو جاتی ہیں ۔ وہ بلوچستان کے بلند بالا پہاڑوں کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک تصور کرتا ہے۔ غنی پرواز کی تخلیق کا محور و مرکز اول انسانیت دوئم بلوچ اور بلوچستان ہے ۔ اس کے علاوہ ان کی تخلیقات میں جابجا اپنے معاشرتی ، ثقافتی تہذیبی اور معاشی منظر نا مے کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔ وہ بڑھاپے میں بھی اتنی بہادری سے لکھتا ہے کہ پڑھتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ نفرت کے اندھیروں میں مہرو محبت کے دیپ جلانا ہر شاعر قلم کار کاوطیرہ رہا ہے ۔ کیونکہ بِلا امتیاز یہ طبقہ قدرتی طور پر مہرو محبت کا سفیر ہوتا ہے ۔ اس لیے غنی پروازکہتا ہے کہ ”دنیا میں محبت اور دوستی کے سوا اور کوئی ایسی چیز نہیں جس کی بدولت یہ دنیا رہنے کے قابل ہو“۔ ہندوستان کے ایک جریدے ماہنامہ پرواز لدھیانہ کے ایڈیٹر راج شرماغنی پرواز کے بارے میں لکھتا ہے ”آپ باشعور اور سُلجھے ہوئے افسانہ نگار ہیں ۔ آپ کا شعورآپکی کہانیوں میں دلوں کی عکاسی کرتا ہے ۔ آپ کا قلم سماج کے زخموں پر نشتر کاکام کرتا ہے۔ تاکہ گندہ مواد سب باہر نکل آئے۔ کبھی کبھی آپکا ہی قلم ایک بھر پور طمانچہ بن جاتاہے ۔ اور جب کوئی کہانی بن کر سماج کے منہ پر لگتا ہے تو بے رحم سماج کو اس وقت چکر آجاتا ہے۔“ وہ ادب برائے زندگی کا قائل ہے۔ اس نے اپنے افسانوں اور ناولوں میں تقریباً 43کے قریب تکنیک مختلف انداز میں بیان کیے ہیں۔ اور اس نظر یے پر انہوں نے ایک مفصل کتاب بھی لکھی ہے ۔ وہ بلوچی ادب کے بڑے نقاد ہیں۔ اس حوالے سے وہ تنقید نگاری کے نہ صرف قائل ہیں بلکہ بڑے خندہ وپیشانی سے نقادوں کا نہ صرف احترام کرتے ہیں بلکہ آج تک کسی کی تنقید کا جواب نہیں دیا ہے ۔ یہ اُنکے اہل علم ہونے اور بڑے پن کا ضح ثبوت ہے ۔ غنی پرواز کی تخلیقات پڑھ کر یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ اس کے دل میں انسان ذات کے لیے درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے ۔ اس لیے وہ اپنے ارد گرد ماحول اور معاشرے سے متاثر ہوکر لوگوں کی خوبیاں وخامیاں اور عوام لناس کے ساتھ ظلم وزیادتی نا انصافی کو انتہائی بہادری اور بے پاک انداز میں بیان کرتا ہے۔اس کے علاوہ وہ عورتوں کے حقوق کی حمایت میں بھی مکمل طور پر ترقی پسند نظر آتے ہیں۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *