Home » پوھوزانت » جون ایلیا۔۔۔۔۔ڈاکٹر عطا محمد بزنجو

جون ایلیا۔۔۔۔۔ڈاکٹر عطا محمد بزنجو

جون ایلیا پر پڑھنااور لکھنا جتنا آسان ہے اتنا ہی مشکل ہے ۔ جون جیسے پیچیدہ مشکل انسان کی شاعری اور نثر نگاری عام فہم لوگوں کےلئے اتنی ہی مشکل ہے جتنا کہ وہ خود رہے ہیں۔جون ایلیا نے اپنے مجموعہ ”شاید “کو اپنا پہلا اعترافِ شکست قرار دیا یعنی،جسے ناکام آدمی کی شاعری کانام دیا ہے۔ ”میں رائیگاں گیا مجھے رائیگاں ہی جانا چاہیے تھا“ میں سمجھتا ہوں جون ایلیا نے اس رائیگاں زندگی کو جس بھر پور طریقے سے گذارا ہے کہ(”گرتے گرتے بھی اپنے دھیاںمیں تھے مگر میرے خوابوں کے خنک چشمے کی لہرےں اب بھی میری پلکوں کو چھوتی ہےں“) ۔جون ایلیا پر پڑھنااور لکھنا جتنا آسان ہے اتنا ہی مشکل ہے ۔ جون جیسے پیچیدہ مشکل انسان کی شاعری اور نثر نگاری عام فہم لوگوں کےلئے اتنی ہی مشکل ہے جتنا کہ وہ خود رہے ہیں۔جون ایلیا نے اپنے مجموعہ ”شاید “کو اپنا پہلا اعترافِ شکست قرار دیا یعنی،جسے ناکام آدمی کی شاعری کانام دیا ہے۔ ”میں رائیگاں گیا مجھے رائیگاں ہی جانا چاہیے تھا“ میں سمجھتا ہوں جون ایلیا نے اس رائیگاں زندگی کو جس بھر پور طریقے سے گذارا ہے کہ(”گرتے گرتے بھی اپنے دھیاںمیں تھے مگر میرے خوابوں کے خنک چشمے کی لہرےں اب بھی میری پلکوں کو چھوتی ہےں“) ۔ جون ایلیا کے والد سید شفیق حسن ایلیا جنہیں مختلف زبانوں پر عبور حاصل رہا ۔ نثر نگاری ، شاعری ، فلسفہ و علمیت کا فوارہ اور درس صبح شام کی ایسی محفلوں کا سلسلہ اُن کے ہاں چلتا آرہا تھاجہاں سے جون ایلیا کو رائیگاں ہونے کا یہ ماحول ملا ۔ اس ماحول میں جون ڈبتے ہی چلے گئے ، خود میں ایسا کھوئے رہے کہ روشنی سے ، لوگوں سے بھی سہمے رہے ۔ جون ایلیا نے جب ہوش سنبھالا تو اس ماحول نے اُن کی تربیت کی اور یہاں سے ہی رائیگانی کا سفر شروع ہوتا ہے جو بعد میں ”شاید“ کی شکل میں سامنے آیا ۔ اور پھر اس سے بھی آگے ۔۔۔۔اپنے خوابوں کا تھا عالم رائیگاں، جون شاید کچھ نہیں کچھ بھی نہیں  جون ایلیا جسے فلسفے کا استاد ہونا چاہیے تھا اس کے کمرے میں اس کی علم کی شمع سے بڑے بڑے نا قدین اور ادیب روشن ہوتے رہے ہیںاور وہ شمع قطرہ قطرہ پگلتی رہی۔ اُسے بچانے والا کوئی نہیں تھا ، چند دوست ہی تھے جنہوں نے جون کو ہر طرح کا سہارا دیا اور وہ بے سہارا ہوتا چلا گیا۔۔۔لیکن جو ن خود جانتے تھے کہ وہ کس سماج میں پیدا ہوا ہے، اس کی اپنی قدر و قیمت کیا ہے، مذہب و علم دو سست سماج میں جون ایلیا جیسے مفکر Ideologue (پُر اعتماد اور جارحانہ انداز ) ہوتے ہیں۔ ان کی ذہن کی قوت اور فراست سے بڑی بڑی پالیسیاں بنتی ہےں ۔ وہ ہر سطح پر رویوں کی تبدیلی ، فکر کے ارتقاءاور علم کی تاریخ کے کام کر تے ہیں تاکہ بہترین فر دپسند اور انسان دوست فلاحی ریاستےںقائم ہوں۔ جون ایلیا ان انقلابی مفکروں میں سے ہے جو وجودیت کے سہرہ میں غرق ہونے کے باوجو د بھی انسا ن دوستی ، انسانی رشتوں کے بچاﺅ ، انسانی زندگیوں کی تقدیس چلاتے رہے ۔ جون ایلیاآدمیوں کا مجموعہ تھے ۔ان کے دوست کہتے ہیں اُنہیں لفظ چننے کی ضرورت کبھی پیش نہیں آئی ، لفظ غیر شعوری طور پر خود بہ خود اُمڈ آتے تھے ۔۔جون ایلیانے جو دیکھا وہی لکھا ، جنون سے جنونیت کا ، فساد سے فسادی کا یہ سفر یونہی چلتا رہا۔وہ کہتے ہےں” میں اپنے شہر کا سب سے بڑا فسادی ہوں “۔اور اندرون حصار خاموشی شور کی طرح مچ رہا تھا ۔ یہ تمام تر فسادیت ، جنو نیت اور حصارِ خاموشی جیسے شوراور کیفیت میں جون جیسے انسان ہی مبتلا ہوکر زندہ رہتے ہیں۔جون ایلیاابھی تک ظہور پذیر ہوا ہی نہیں، ہم نے جون کو صر ف پڑھا ہے ، اسے سمجھا نہیں ،جب انہیں سمجھےںگے تو وہ ظہور پذیر ہوگاوقت سے پیچھے اور وقت سے آگے سے بھی ۔ ابھی تک اس حصار ِ خاموشی کو ہم جیسے سمجھنے سے قاصر ہےں۔ جون آنے والے دور میں ظہور پذیر ہوگاکیونکہ وہ اپنے دور کاکہیں سے آگے کا انسان تھا ۔  جون ایلیاکی شائع کی جانے والی کتابوں میں ”شاید “ ”گمان “”لیکن“”یعنی“”گویا“”فرنود “(نثری مجموعہ )اور ”کیوں“ نہ جانے کیوں ابھی تک شائع نہ ہوسکالیکن کیوں ، گویا، شاید ،گمان، یعنی، کتابوں کے نام بھی جون ایلیاکی طرح ہےں،انہی کیفیت میں ساری زندگی گذاری ۔”لیکن “سے ”کیوں “تک کا سفر کیونکر ہی رہا ۔ سوال و جواب میں لاجواب۔ جون ایلیاہمیشہ جارحانہ موڈ میں آنے کے بعد ہی جارحانہ موڈ میں رہے ۔پوری زندگی جن سے جو گذاری نہ جاسکی وہ زندگی گذارنے والا جون ”دماغ سے چلتا رہا اور جسم سوتا رہا “یعنی نیند میں بھی وہ چاک و چوبند اپنے اندر جی رہے تھے ، سونا تو صر ف نیند کا ایک بہانہ تھا ورنہ وہ کبھی سویا ہی نہیں اور پوری زندگی نیند میںگذار دی ، ہر لمحہ جاگ کر خاموشی میں شور مچاتے رہے ۔دکھ درد ہی تو زندگی کا حاصل ہے یہ ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتے ،دکھ وہ جو دکھ ہو قسمت والوں کے ہی حصے میں آتے ہیں ”رات کے دل میں دےے جلانے کے لئے “ و ہ دوسری بات ہے کہ جلتے جلتے چراغ جل رہے ہوتے ہیں۔ اپنے اندر ایسی ہی کیفیت میں روز و شب اور شب وروز بےزار گی سے زندگی کا جو مزہ جون بھائی کے ہاں ہے، وہ کڑوا پن اس کے اندر زہر کے مانند گردش کر تا رہا اور وہاںسے جو شاعری پھوٹی تو وہ رگ ِجان میں اترنے کے لئے کافی تھا ۔ اب جو ڈر ہے مجھے تو اس کا ہے اندر آجا ئےں گے وہ اندر سے جون ایلیاءپہ لکھنے کےلئے میرے اندر جس نظم نے تحریک پیدا کی دراصل وہ ”درخت زرد“ تھی۔ ایک ایسی عالمگیر نظم جس میں ذاتی دکھ سے لے کر آفاقی الحیات تک جون ایلیاءنے انسانی زندگی اور اس سے منسلک تمام وارداتوں، خواہشات اور محروموں کو بیان کیا ہے۔ جیسے فلسفے اور تاریخ کے بیابانوں میں وجود خود کو حقائق کی تیز آندھیوں میں پاتا ہو ،وہ اپنے بیٹے سے مخاطب ہے سنو زریون ۔۔ اپنے بیٹے کی دوری میں عمر کے گزرتے ہوئے انھوں نے اس ہجر کو ایسے رنگ دئےے جو روح کو ہلا دیتے ہیں اور کپکپی طاری ہوجاتی ہیں۔ ایک باپ کی بیٹے کو ایسی نصیحتیں جہاں وہ زندگی اور زمانے پہ سخت تنقید بھی کر تے ہیں ، رشتوں کے معصوم تقاضوں کو بھی چھیڑ تے ہیں اور ان میں چھپی منافقت سے بھی نالان ہیں۔ یہ دنیا جہاں ماں اور باپ کو صرف مادی فوائد حاصل کر نے کی مشین سمجھا جاتا ہے۔ ماں اور باپ ہی نہیں بلکہ ہر رشتے کو مادی فائدے کے حوالے سے قبول یارَد کیا جاتا ہے ۔ ایسے سماج میں جون ایلیاءکسی کو کیا دے سکتا تھا جونوکری نہیں کرتا تھا کسی سرکار کی۔ لیکن ایسے آدمی کا شادی کر کے ایک محبونہ نما بیوی کے ساتھ رہنے کا خواب کس قدر گھناﺅنا جرم بنا ۔ خیر میں اس پر مزید نہیں لکھوں گالیکن ”درخت زرد “ کی شکل میں وہ اپنے بیٹے کو ایسی جائیداد دے رہا ہے۔ جس سے ہر بیٹا ہر بیٹی مستفید ہوسکتے ہیں۔ زریون اس جائیداد کا وارث ہے جو کبھی تمام نہیں ہوگی۔ اس نظم میں ایلیاءنے زندگی گذارنے کے گُر ، زندگی کا مقصد ، زندگی میں انسانی تقدیس اور احترام کا مقام ، انسان کی سماج میں حیثیت ، علم کی بلندی اور محبت کی لازوال قوت کو بیان کیا ہے۔جس میں ذی شعور انسان کے اندر انقلابی تحریک پیدا ہوسکتی ہے۔ او ر یہ نظم ایک تاریخ ہے، ایک دور ہے، ایک درس ہے، ایک المیہ ہے،ایک نوحہ بھی ہے اور ترانہ بھی ہے جہاں زندگی کا ہلکا پن دکھ کی چاشنی سے کس قدر معتبرہوجاتا ہے۔ جہا ں انسان بے معنویت کو جانتے بوجھتے ، ہنستے ہوئے گلے لگا لیتا ہے اور سوچتا ہے کہ یہ سب اس شاعر پر بیتا ہے اوروہ کیا دیوانہ وار جیا ہے۔ یعنی ہم اکیلے نہیں ہےں۔ زندگی کے گہرائیوں میں ڈوبے ہوئے بڑے ذہن شائد اس لئے پیغمبرانہ ہوتے ہیںکہ وہ بنی نو ع انسان کو جی کر دکھاتے ہیںا ور دکھوں کی Human willکے سامنے کوئی حیثیت نہیں ۔ وجو د کی وسعت کے سامنے زندگی بہت حقیر ہوجاتی ہے۔ زندگی ایسے دیوانوں کے پیچھے بھاگتی ہے اور یہ دیوانے اسے خاطر میں نہیں لاتے ۔ بخشش ہوا یقین ، گمان بے لباس ہے  ہے آگ جا مہ زےب ، دھواں بے لباس ہے  جون ایلیاءکی جنو نیت نے اسے جنون کی اُس پار تک آر پار کیا جہاں اُس کےلئے گوشہ نشینی بھی ان کا مداوا نہ ہوسکی” خواب ِنا تمام خواب ِتمام ہوچکے تھے“ اسی طرح وہ سمٹتے سمٹتے بکھر تے چلے گئے۔جس لباس میں وہ بے لباس تھا جس آگ میں وہ راکھ تھا یا کہ مذاق میں سچ تھا اور سچ میں سچا مےں خود یہ چاہتا ہوں حالات ہو ں خراب مےرے خلا ف زہر اگلتا پھرے کوئی  جون ایلیاءکو متنازعہ بنانے والوں مےں مرنے کے بعد بھی انہیں جس طرح یاد کیا جاتا رہا ہے وہ اُن کے معیار ، سچائی اور جنونیت کو مزید اجاگر کر تا رہا ہے ۔ یہ فسادی جون ایلیاءجو اپنے خلاف بھی فساد سے باز نہیں آیا اور زہر اُگلتا رہا ۔جون کا مطالعہ بہت وسیع تھا برطانوی فلسفہ نگار ”بار کلے “سے لے کر ”ڈیوڈ ہیوم “کی ”مباد یِ علمِ انسانی “شامل ہیں۔ جون کہتے ہیںمیں دنیا کا تو پہلے بھی نہ تھا اس کتاب کو پڑھنے کے بعد دین سے بھی گیا۔  جب برصغیر تقسیم ہوا تو جون کہتے ہے”آزادی کاجشن منایا گیا ہے مگر مجھے لاکھوں چراغوں کی روشنی میں اندھیرا دکھائی دے رہا ہے یہ وہ آزادی نہیں جس کی خواب ہم نے دیکھے تھے ۔جون ایلیاءکوضدی انسان ، تلخ انسان ، بدمزاج ، آوارہ نہ جانے اور کیا کیا لوگ کہتے رہے لیکن جون توجون ایلیاءہی تھے جنھوں نے انگریز حکمرانوں کے خلاف ایک واضح موقف رکھا۔ ان کے خطوط اس حوالے سے اس دور کی تلخ مزاجی کو ظاہر کرتے ہیں۔جون سرمایہ داری نظام کے خلاف کیمونزم سوچ کے حامل انسان تھے جون ایلیاءلکھتے ہیں” میرا خیال یہ تھا کہ میرے ہر وقت کے اشتعال ، میر ی تلخ مزاجی ، بے آرامی ، بیزاری اور دل برادشتگی کا ایک اہم سبب انگریز سامرا ج کی غلامی ہے “۔آمریت کے خلاف ،انگریز سماج کے خلاف ان کا اپنا طرزِ احتجا ج رہا ہے۔ کوئی حاصل نہ تھا آرزو کا مگر ، سانحہ یہ ہے اب آرزو بھی نہیں  وقت کی اس مسافت میں بے آرز و ، تم کہاں جاﺅ گے ہم کہاں جائیں گے جون ایلیاءبلا کا ذہین اور فطین شخص تھا اسے یہ المیہ تھا کہ وہ مس فٹ انسان تھا ۔جو اس کی شاعری میں قلم کی سیاہی کی جگہ خون کی سرخی ہے وہ ہم دیکھ سکتے ہیں ، تنہائی کی بازگشت اس کے اشعار میں جگہ جگہ گونجتی ہے ۔ اس کے آس پاس والے اُسے سمجھنے سے قاصر رہے اور وہ اپنی ذات کی گہرائیوں میں ڈوبا ، اپنے زخموں پہ اپنے دکھتے ہوئے شعروں کا مرہم رکھتا رہا مگر ان کے زخموں کا کوئی مداوا نہ تھا وہ خود کو جوڑتا پھر ٹوٹ جاتا ۔ جون ایلیاءنہ کچھ مٹا سکے ، نہ کچھ لٹا سکے ، نہ کچھ گنوا سکے اور نہ ہی لوہے دل کو جلا سکے ۔نقشِ جاںمٹاد وںکیا، کہکشاں لوٹا دوں کیا نقطے کو گنوادوں کیا، لو ح دل جلادوں کیا ایلیاءکے حوالے سے عجےب و غریب Myths بھی بنیں جو کہ ہر عظیم اور بڑے ذہن کے حوالے سے ہر دور مےں بنتی ہےں ۔لےکن جون بھائی اےک اےسا سادہ دل دروےش تھا جسے جینے کا ڈھنگ نہیں آیا۔ وہ “فار مولا آدمی” نہےں تھا اس نے اےک اور ڈھنگ دنیا کو دکھایا کہ تخلیق کا رمحض تخلیق کار ہوتا ہے ترتیب اور تنظیم تو صرف دنیا وی Frames کی حد تک ہےں ، وہ بے ترتیب اور بے تنظیم شخص علم اور انسان دوستی پہ مبنی سماج کے خواب بنتا رہا اےسے خواب دنیا وی بے ترتیبی کی وجہ سے ہی پےدا ہوتے ہےں اس کے خوابوں کی ترتیب ، تنظیم اور Composition اسکی شاعری کا خاصہ ہے ۔ جون نے بھی دل کو آگ لگائی تو کیا لگائی ۔دل کا شراب پی پی کر دل کو بھی شرابی بنا دیا۔جون ایلیاءاپنی زبانی کہتے ہیں ”میں جون ایلیاءہوں۔ اچھا اب میں چلتاہوں تم نے بہت انتظار کرایا اور ہاں تمھاری ایک امانت میرے پاس رہ گئی ہے ، یہ میرے خام اور نہ تمام لفظ ہےں ،یعنی میرے اشعار ۔۔۔ میرے وہ اشعار جومیں نہیں کہہ سکااور اب میں تمام ہوتاہوں ۔میرا کھیل ختم ہونے والا ہے بے آوارگی کی زندگی میں وہ جس طرح آرام کی نیند سو گیا ہم سمجھتے ہیں جون کا سفر ختم نہیں، جون کا کھیل ختم نہیں ، جو ن تمام نہیں ہوا، بلکہ سفر ِ آغاز یہاں سے شروع ہوتا ہے ابھی تو جو ن نے جنم ہی نہیں لیا ہے۔

کیا سحر ہوگئی دلِ بے خواب ؟

اک دھواں اُٹھ رہا ہے بستر سے

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *