Home » کتاب پچار » خموشی بے ہنر ٹہری ۔۔۔ جاوید اختر

خموشی بے ہنر ٹہری ۔۔۔ جاوید اختر

مصنف : ڈاکٹر منیر رئیسانڑیں
اشاعت : مئی 2017ء
قیمت:200روپے
صفحات:104
پبلشر: مہردرانسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ پبلی کیشنز کوئٹہ

’’ خموشی بے ہنر ٹہری‘‘ ڈاکٹر منیر رئیسانڑیں کا مجموعہ شعرہے۔ اس سے پہلے اس کاایک مجموعہ کلام’’روشنی گلابوں پر ‘‘ کے عنوان سے 2007ء میں منظر عام پر آچکا ہے ۔ وہ پیشے کے اعتبار سے ایک میڈیکل ڈاکٹر ہے ۔ او رشعر وادب اس کا ذوق وشوق ہے ۔
ڈاکٹر منیر رئیسانڑیں ایک طویل مدت سے شاعری کر رہا ہے ۔ غالباً اسی کے عشرے میں اس نے براہوئی اور اردو زبانوں میں ا پنی شاعری کاآغاز کر دیا تھا ۔ اور وہ رائٹر ز سرکل ، بلسم رنگ، حلقہِ حرف ایسی ادبی تنظیموں سے وابستہ رہا۔ جن کے نظریات اور ماحول میں اس کی ذہنی ، فکری اور ادبی تربیت ہوئی۔ وہ بعدازاں سنگت اکیڈمی آف سائنسز سے وابستہ ہوگیا اور اب تک اسی سے فکری وفنی طور پروابستہ ہے اسی کی دہائی عالمی طور پر سردِ جنگ کے عروج کا دور تھی ۔اور پاکستان میں ضیائی دورِ ظلمت کا دور دورہ تھا۔ اس عہد میں دائیں اور بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے مابین ایک ہیجان خیز نظریاتی جنگ جاری تھی۔ منیر رئیسانڑیں بائیں بازو کی سیاست سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا ۔ اس نے اپنے خوابوں کے تانے بانے بائیں بازو کے انقلابی آدرشوں سے بنے۔ اس وقت بلوچستان میں نیلسن منڈیلا ، ہوچی من اور چی گویرا کی انقلابی شخصیات ہر باشعور کی پسندیدہ شخصیات تھیں اور فیض احمد فیض اور ساحر لدھیانوی ہر ایک کے محبوب شاعر تھے۔ جن کی شاعری مقبول عوام تھی۔ منیر اپنی ایک نظم ’’ابتدائے عشق‘‘ میں تحریر کرتا ہے :
’’اک نظم لکھی منڈیلا پر
کچھ خواب چنے ہوچی منہ کے
کچھ باتیں فیض کی یاد رکھیں
کچھ ساحر سا محسوس کیا
محسوس ہوئیں لومبا کی
آخری سانسیں پلکوں پر
اور گویرا کی ٹوپی
کچھ دیر سجائی اپنے سر‘‘

منیر نے ان اشعار میں منڈیلا پر اپنی جس نظم کا ذکر کیا ہے ۔ وہ اس کے پہلے مجموعہِ شعر’’ روشنی گلابوں پر ‘‘ میں اس طرح شروع ہوتی ہے :
’’اک دیوار گری
ایک زنجیر کا حلقہ ٹوٹا
چادر شب پہ ستارہ ابھرا
حبس دائم سے ہوا کا کوئی جھونکا الجھا
رت بدلنے کا اشارہ چمکا
ظلم کا سنگ ابھی گرچہ بہت بھاری ہے
دہشتِ امید میں شیشے کا سفر جاری ہے‘‘

منیر رئیسانڑیں نے اپنے فکر وفن کی بنیادیں ایسے ہی انقلابی نظریات پر رکھی ہیں۔ لیکن وہ سطحی اور بھونڈے قسم کی نعرہ بازی اورر کھردرے اور نا گوار قسم کے پروپیگنڈے سے باز رہا ہے۔ اس نے مدھم ، کومل اور دھمیے سروں میں نرم وگداز ،لہجے میں بات کی ہے یہی وجہ ہے کہ اس کی شاعری میں مواد اور صورت کے درمیان کسی قسم کا تضادو تناقص نہیں پایا جاتا ہے بلکہ ہر دو میں ایک خوشگوار قسم کی جمالیاتی ہم آہنگی ومطابقت ملتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی شاعری قارئین اور سامعین کے ذہنوں پر جمالیاتی اثرات مرتب کرتی ہے ۔ ہم اکثر منیر کی خوب صورت شاعری کو سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی ماہانہ نشستوں میں سُن کر اور ماہنامہ ’’سنگت ‘‘ کے شماروں میں پڑھ کر محظوظ ہوئے ہیں۔ منیر نے اردو کے علاوہ براہوئی زبان میں بھی شاعری کی ہے لیکن اس کی براہوئی شاعری تاحال کتابی شکل میں اشاعت پذیر نہیں ہوئی ہے ۔ اس نے نظم وغزل ہر دو اصناف میں طبع آزمائی کی ہے ۔ علاوہ ازیں قطعہ او ہائیکو بھی تحریر کیے ہیں ۔ لیکن بنیادی طور پر وہ غزل کا شاعر ہے۔ اس کی غزلیں انتہائی پر مغز فلسفیانہ مضامین سے لیس ہیں ، جو قاری اور سامع کو سوچنے پر مجبور کرتی ہیں ۔ اس نے غزل کے ذریعے سماج میں زوال آمادہ سماجی رشتوں کی شکست و ریخت کو بے حد لطیف انداز میں بیان کیا ہے ۔ مثلاً س کے یہ شعر دیکھیے:

نگاہِ مہر سکوں ، سادگی محبت کی
تمہارے شہر میں آسانیاں نہیں کچھ

بدل چلی ہیں علامات قید وآزادی
قفس ، ہوائیں گھٹن ، آشیاں نہیں کچھ بھی

بدن پتھر کے یکسر ہوگئے ہیں
اندھیرے ، آئینہ گر ہوگئے ہیں

اذیتوں کی ابھرتی صدا کہیں تو تھمے
کوئی بتائے کہ اب اور انتہا ہے کیا

کثرتِ کذب وریا کو چہ وبازار کے بیچ
میری بے لوث عقیدت جو شکستہ ہوئی ہے

منیر رئیسانڑیں نے مختلف واقعات پر نظمیں بھی تحریر کی ہیں۔ مثلاً ویمن یونی ورسٹی کوئٹہ میں بم دھماکے پر اس کی نظم ’’وقت کا وحشی ٹکڑا‘‘اور مشعال خان کی شہادت پر ’’اشعار‘‘ اس سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ علاوہ ازیں اس کی بہترین نظموں میں ’’جہانگیر‘‘،’’ بعد سالہائے دراز ‘‘،’’زمانہ بامانہ سازد‘‘ او ر’’ رات آکر دو پہر کو کھا گئی ہے ‘‘شامل ہیں ، جن میں اس کی قوت فکر اپنی پوری توانائیوں سے ظاہر وباہر ہے ۔ منیر رئیسانڑیں کے دونوں شعری مجموعوں کو پڑھنے کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس نے اب تک کوئی طویل نظم تحریر نہیں کی ہے۔ اس کی نظمیں انتہائی مختصر ہیں۔جو عالمی سرمایہ داری کے روز افزوں معاشی بحرانوں اور اس میں سماجی رشتوں کی شکست وریخت کا ٹکڑوں ٹکڑوں میں جزوی طور پر اظہار کرتی ہیں۔ ان کی مکمل تصویر کشی تو ایک طویل منظوم بیانیہ نظم یار زمیہ میں ہی صرف ممکن ہے ۔
منیر رئیسانڑیں کا زیرِ نظر مجموعہ اس قحط الشعر میں ہر لحاظ سے غنیمت ہے۔

Spread the love

Check Also

فلم بازار اور عورت کی منڈی۔۔۔ مریم ارشد

ہمیشہ سے یہی سْنتے آئے ہیں کہ زندگی مشکل ہے۔ لیکن زندگی مشکل نہیں ہے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *