Home » پوھوزانت » میر گل خان نصیر ۔۔۔۔۔۔۔ عبدالقادر شاہوانی

میر گل خان نصیر ۔۔۔۔۔۔۔ عبدالقادر شاہوانی

1914-1983

میر گل خان نصیر کی زندگی بہت پہلودار تھی ، جو بیک وقت شاعر بھی تھے، ادیب و نقاد بھی، مورخ و محقق بھی، سیاستدان بھی اور بے باک صحافی بھی تھے۔ انہیں بلوچ و قوم اور بلوچستان سے جنون کی حد تک محبت تھی ۔ ان کی سیاست، ان کی شاعری اور ان کی ہر تحریر بلوچستان کے لےے تھی۔
میر گل خان نصیر 1914 میں میر حبیب خان مینگل کے گھر واقع خلق مینگل نوشکی میں پیدا ہوئے۔ پرائمری کی تعلیم خلق سے دو میل کے فاصلے پر قائم پرائمری سکول نوشکی سے حاصل کی۔1932 میں سنڈیمن ہائی سکول کوئٹہ سے میٹرک اور 1934 میں اسلامیہ کالج لاہور سے ایف اے کا امتحان پاس کرنے بعد آشوب چشم چند نا گیر حالات کی بنا پر تعلیم کو مزید جاری نہیں رکھ سکا۔
میر گل خان نصیر نے اپنی صحت یابی کے بعد ریاست قلات میں نائب تحصیلدارکی حیثیت سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا ۔انہوں نے کچھ عرصہ پسنی اور جیونی میں کسٹم آفیسر کے عہدے پر بھی خدمات انجام دیں۔ اور اپنی بہتر کارکردگی انتظامی صلاحیتوں اور معاملہ فہمی کی بدولت وزیر مال ریاست قلات کے منصب کے حقدار ٹھہرائے گئے۔ جہاں انہیں پورے ریاست کے عوام کی حالت کو قریب سے دیکھنے کا مشاہدہ ہوا؟ چنانچہ انہیں عوام کی پسماندگی ، استحصال نا گفتہ بہ حالت کی شدتِ احساس نے مجبور کرکے سیاست کے خار دار میدان میں اتارا۔
میر گل خان نصیراپنی سیاسی جدوجہد میں میر یوسف عزیز مگسی کی وفات کے بعد قومی آزادی کا جذبہ رکھنے والے نوجوانوں پر مشتمل ” انجمن اسلامیہ“ کے قیام سے کیا ۔1941 میں قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی میں شمولیت اختیار کرکے نائب صدر منتخب ہوا۔ قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی 5 فروری1935 کو سبی کے مقام پر قائم کی گئی تھی۔
اور یوں اس نے نیشنل عوامی پارٹی( نعپ) میں شامل ہوکر ایک اہم سرگرم رکن کی حیثیت سے نہایت ہی اہم کردار ادا کیا ۔1972 کے انتخابات میں نعپ کے ٹکٹ پر بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ اور انہیں باتفاق رائے سینئر صوبائی وزیر کی حیثیت دی گئی اور انہوں نے محکمہ جات ، مال ، تعلیم، صحت، سماجی بہبود، بلدیات، اطلاعا ت،سیاحت، محنت، زرعی اصلاحات، آبکاری و محصولات کے امور کو انتہائی خوش اسلوبی سے چلایا ۔ اوراپنی وزارت کے دوران میں اردو کو بلوچستان کی دفتر ی زبان قرار دلایا ۔ نیز بلوچی زبان کے لےے ایک متفقہ رسم الخط رائج کرنے کی خاطر ایک اعلیٰ سطحی کانفرنس کا انعقاد بھی کیا۔ جس میں ملک کے علاوہ بیرون ملک کی لسانیات کے ماہرین شخصیات نے شرکت کی۔
میر گل خان نصیر نے صحافت کے شعبے میں بھی گرانقدر خدمات انجام دے کر نام پیدا کیا۔ ا نہوں نے اتحاد، نوائے وطن، نوائے بلوچستان اور دیگر اخبارات میں استحصالی نظام ، سرداری راج ، جرگہ سسٹم اور دیگر عوام سوز رسومات کے خلاف ادارےے، اور شذرات وغیرہ لکھے اور یوں انہوں نے اپنی متاثر کن تحریروں کے ذریعے عوام میں قومی بیداری اور سیاسی شعور پیدا کرنے کی کامیاب جدوجہد کی۔
ان ہی قومی جذبات کے تحت بلوچ تاریخ مرتب کرنے کی کاوشیں بھی شروع کیں۔ شروع میں تاریخ بلوچستان کے نام سے دو جلدوں پرمشتمل دو ضخیم کتابیں چھاپیں اور پھر اپنے کام کو وسعت دے کر بلوچ قوم سے متعلق متعدد کتابیں شائع کرائیں جن میں کوچ و بلوچ، بلوچستان قدیم و جدید تاریخ کی روشنی میں، حمل جئیند ،بلوچستان کے سرحدی چھاپہ مار ، تاریخ خوانین قلات، بلوچستان کی کہانی شاعروں کی زبانی، بلوچی رزمیہ شاعری اور بلوچی عشقیہ شاعری، سنائی کیچک وغیرہ کے ذریعے اپنی قوم کی تاریخ کو بہتر اندز میں اجاگر کیا۔
میر گل خان نصیر پیدائشی طور پر شاعر واقع ہوئے تھے ۔ لیکن زیاد ہ تر قومی شاعری 30 سالہ جیل کی چار دیواری میں رہ کر اپنے دل کی آگ بلوچی، براہوئی اور فارسی شاعری کی صورت میں عیاں کی۔ اس کے کئی مجموعہ ¿ کلام شائع ہوئے جن میں ” گلبانگ “ پُرنگ ، شپ گروک، حون ئِ رنگ ( اردو ترجمہ لہو کی پکار ، گرند، شنبلاک ، سینائی کیچک، شاہ بھٹائی گشیت، مشہد نا جنگ نامہ ( براہوئی) زیادہ مشہور ہیں۔
میر گل خان نصیرکو بلوچ و بلوچستان کے بارے میں سیاسی بیانات پر پہلی مرتبہ1958 میں گرفتار کرکے قلی کیمپ کوئٹہ کے اذیت ناک جیل میں رکھا گیا۔ دوسری مرتبہ 1965 میں گرفتار کرکے پاگلوں کے وارڈ میں قید کردیا گیا اور تیسری مرتبہ 1973میں گرفتار کرکے پہلے کوئٹہ چھاﺅنی اور پھر حیدر آباد جیل میں رکھا گیا اور یوں انہوں نے اپنی عمر عزیز کے خوبصورت ترین 30 سال کا عرصہ نوشکے، مستونگ، قلات، مچ ، کوئٹہ قلی کیمپ ، ساہیوال ، کراچی اور حیدر آباد کے عقوبت خانوںمیں پر تشدد سزاﺅں اور قید و بند کی صعوبتیں جھیلتے ہوئے گذارا۔
میر گل خان نصیر عمر کے 79 سال چھ مہینے اور 14دن تک اس رنگ و بو کی دنیا میں قوم پرستانہ سیاست، بے باک جرات، نظریات اور اصول پرستی کے ساتھ وابستہ رہے۔
آخر ی عمر میں کینسر کے موذی مرض میں مبتلا رہے اور دسمبر1993کے6 اور 7 تاریخ کی درمیانی رات کو اپنی قوم کو داغ مفارقت دے کر اپنی خوشگواریں یادیں چھوڑگئے۔
میر گل خان نصیر نے اپنے مزار کے کتبے کے لےے یہ شعر کہا ہے :
یک تلارے بہ بیت برز شپوک
آئی چیرا بہ بیت آپ ےے تچوک
لاش او دا گل خان ئِ تا قیامت
بہ بیت شاد کپوک
(بانک گوہر ملک ، کتاب دوستین شیریں 1988)
آخر میں میر گل خان کی ایک منفرد غزل کا اردو ترجمہ:
میرا دل ہے ، دل کی جوانی ہے تو
میری زینت، زندگانی ہے تو
میں غم کی گھٹائیں بھی ہوں شادماں
نہ کیوں ہوں، میری شادمانی ہے تو
مر ی گفتگو کیا ہے، اِک موجِ نور
نہ کیوں ہو کہ ، اس کی روانی ہے تو
محبت ہے سرشاری و بے خودی
میں تیرا ” مرید “ اور ” حانی“ ہے تو
مرا دل بلاﺅں سے لرزاں نہیں
مری ضامن کامرانی ہے تو
بڑا شاعر نکتہ داں ہے ”نصیر“
مگر اس کی جان معانی ہے تو

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *