Home » شیرانی رلی » وقت ۔۔۔ نذرِ فیض ۔۔۔۔ امداد حسینی

وقت ۔۔۔ نذرِ فیض ۔۔۔۔ امداد حسینی

دس منٹ وقت ملا ہے ہم کو
بولنے کے لیے یہ وقت ملا ہے ہم کو
جس دیا وان نے یہ دان دیا ہے اس کو
خبر کو
ہم تو دعاؤں کے سوا کچھ بھی نہیں دے سکتے
(کبیرا کھڑ بجار میں، سب کی مانگے کیر
ناکا ہو سے دوستی، نا کاہو سے بیر!)

بولنے کے لیے جو وقت ملا ہے ہم کو
اس میں صدیوں کے سما چار سنائیں کیسے
جو بھی انسان نے انسان پہ ڈھائے ہیں ستم
چند لفظوں میں بتائیں کیسے؟

اجُ وری ھکڑے اکھر کھے پیوگولے تھوخیال
مدھ بھریل کوئی اکھر، زھَر بُڈل کوئی اکھر،
دلنشیں کوئی اکھر، قہر بھریل کوئی اکھر
پیارَ جو ھکڑوا کھر، جنُ تہ اکھین ٹھارا کھر
جنہن ساں ملندے ئی نظر جَن تہ چمی وَرتا چَپ

اجُ تہ ہر راگ جے ہر سُرجی تتل تندُٹُٹل
اجُ چارن کھے پیوگولے سندس ئی آواز

آن کو گیت ، کوئی صوت جھجھو شالَ جیئیں
غم جو نو حوئی سہی، شورِ شہادت ئی سہی
صورِ محشر ئی سہی، بانگِ قیامت ئی سہی
یہ فقط معجزۂ فن سے ہے ممکن جاناں
ا ک ترا ساتھ ہو گر ، تو ہے یہ مشکل آساں

بولنے کے لیے جو وقت ملا ہے، وہ غنیمت ہے ہمیں
اور اس وقت میں اک نظم رقم کرلیں گے
اور اس نظم میں وہ زخم رقم کرلیں گے
زخم جو آج بھی ویسا ہی ہرا ہے یارو
زخم جو آج بھی دیتا ہے صدا اے یارو

بولنے کے لیے یہ وقت بہت ہے سائیں
ہم تو اس وقت میں اک عمر بِتا سکتے ہیں
ایک پل ایک ہزارے میں بدل سکتے ہیں
آنکھوں آنکھوں میں سہی حال سُنا سکتے ہیں
حال بد حال اگر ہے بھی تو خوشحال بتاسکتے ہیں
تیرے بن ہاں ترے بن
کیسے گزرے ہیں مہ وسائل سُنا سکتے ہیں

اپنی زنجیر کو ہم
تال میں ڈھال لیا کرتے ہیں
چیخ کو نغمے کی صورت میں بدل دیتے ہیں
سانچ کو آنچ نہیں ہے تو بھلا ڈر کیسا
جانِ جاں کیسا بھی ماحول ہوگا سکتے ہیں!

کہیں آواز ہوئی کوئی سُنی کیاتم نے
جیل کا جیسے کوئی گیٹ کھلا ، بند ہوا
چاپ قدموں کی ہوئی تھی کہ گماں تھا اپنا

ہوندو و اٹہڑو کوبی ڈس ہلیو جو ویندو
وئی ڈھری رات الا، اُبھ تے نکھٹ جھینا تھیا
وٹ کھامی سڑی ڈیئن میں اُجھا من تھی لگے

گس گھٹیوں گھیڑ تکے وات سہمی پئی ہر کا
اجنبی دھوڑ دھد ھڑ میں ویا لٹجی پیرا

گل کر یو شمعوں کھنڑومئے اَیں ہٹایو ساغر
ائیں اکھین جئین پٹیل پور چھڈیو دروازا
ہن دکھی ءَ دل کھے دلا سونہ کو ڈیندو ہانڑیں
کوبہ ایندو نہ ہتے کو بہ نہ ویندو ہانڑیں

اے مرے دیس، سجن ، یار اے جانی، مرے بیلی، مرے مٹھڑے منٹھار
تجھ کو چاہتا ہے یہی بھول ہماری ٹھہری
اور تو دیس ہے اپنا تو یہی بھول تمہاری ٹھہری
اور اسی بھول کا خمیازہ بھگتنا ہے ہمیں
کل کے اجرت کے لیے
آج کا زہر بھی پینا ہے ہمیں
تجھ پہ مرنا ہے ہمیں، تجھ پہ ہی جینا ہے ہمیں
لفظ کے انگ پہ آہنگ پہ اور سوچ کی خوشبو پہ کئی پہرے ہیں
ہم سخن فیض کے ہیں اور اسی دوش میں گردن زدنی ٹھہرے ہیں

ہاں ، سزا وار سزاوار سزاوار۔۔۔۔۔۔ ہیں ہم
سندھ ہے جند ہماری ، اُسے چاہا پُوجا
ہاں گنہگار گنہگار گنہگار ۔۔۔ ہیں ہم
یہ گنہہ ہم نے کئی بار کیا ہے سائیں
علی الاعلان کہا جو بھی کہا ہے سائیں
دیس سے پیار کیا پیار کیا ہے سائیں

سارے سنسار کو اک نقطہ بنایا ہے کبھی
اور کبھی نقطہ کو سنسار کیا ہے سائیں
پھیلنا چاہیں تو اک اشک سمندر کردیں
اور اگر سمٹیں تو اک بوند میں ساگر بھر دیں

ایساسامیؔ ، نے کہا اور کیا ہے سائیں
امن کا پیار کا جو، شاہ بھٹائی، نے ہمیں پاٹھ پڑھایا ہے پڑھا اور کڑھا ہے ہم نے
’’مست ‘‘نے اور ’’بُلھا شاہ‘‘ نے رحمان نے سچل نے سنایا جو ہمیں
وہی سنسار کو سندیس سنایا ہم نے
گیت جو فیضؔ نے گایا ہے وہ گایا ہم نے
رات آئی تو اندھیرے کو مٹانے کے لیے
ٹھیکری کا کوئی ننھا ہی سہی دیپ ہواؤں میں جلایا ہم نے
طوق سے گردنیں خم تھیں جن کی
سربلندی سے اُنہیں لَو کی طرح جینا سکھایا ہم نے!

راتا ہے میں بہ رہے شل دل میں شوق اُہو جو ہو
خیر تھئے تنہجے لیلا ین جو سَبھنی کھے چئجو
اج جی رات ڈیئا جئن باریو اوچی رکھجولاٹ
سورج جنہں ڈِس ایندو اُن ڈس اوچا رکھجو گاٹ

اک ندامت کے سوا جو بھی کمایا ہم نے
حرفِ حق کے سوا وہ کچھ بھی نہیں کچھ بھی نہیں
ہم رہیں یا نہ رہیں دیس رہے گا اپنا
اور ہم جس کے سوا کچھ بھی نہیں کچھ بھی نہیں

اپنا اور دیس کا ناتا ہے وہی
جیسے بندے کے سوا
کوئی بُت، کوئی خدا کچھ بھی نہیں، کچھ بھی نہیں
پاؤں میں بیڑیاں ہوں ، جیل ہو، گولی ہو کہ ہودار ورسن یا کہ صلیب
حرفِ حق کہنے کی پاداش میں پھر کوئی سزا کچھ بھی نہیں، کچھ بھی نہیں

ہم نے ہر دور میں ہر ظالم کو
پوری آواز سے للکارا ہے
لاج رکھی ہے تری لوئی کی’’ ماڑل‘‘ ہم نے
اطلس و ریشم و زربفت کو کمخواب کو دھتکارا ہے
تاج اور تخت کو ہر عصر میں پھٹکارا ہے
اور ہر دور کے فرعون نے ہے اپنا ہی تھوکا چاٹا!
ہم نے کس طور سے ہے وقت ترے بن کاٹا
اپنے شاخوں پہ کئی شامیں تری زلف نہیں بکھری ہے
کتنی راتیں تیری آنکھوں سے نہیں مے پی ہے
کتنی صبحیں ترے چہرے کو نہیں درشا ہے!

دس منٹ جو کہ فقیروں کو ملے ہیں خیرات
آؤ یہ وقت سپھل کرلیں ہم
اس سیہہ رات کو آنکھوں کا کجل کرلیں ہم
آہ اُبھرے بھی تو وہ آہ غزل کرلیں ہم
گھاؤ کو گیت کریں، میت بنالیں سب کو
دل کو کھلتا ہوا کینجھ کا کنول کرلیں ہم
آؤ آجاؤ قریب اور قریب آجاؤ
جو کبھی کر نہ سکے، آج وہ گل کرلیں ہم
آؤ آجاؤ قریب آؤ مٹادیں دوری
آؤ آجاؤ اگر ہنس نہ سکیں، رولیں ہم
اور جو داغ ہیں اس دیس کے چہرے پہ انہیں دھولیں ہم

کیترو رت کھپے ؟ دیس جی دھرتی سرتی!
جو سندئے ہیڈ گٹے کھے کرے گلنار الا
کیتریوں آہوں تتل ہانو سندئے ٹھار یندیوں
کیترا لڑک سندئے تھر کندا گلزار بھلا

رات کے چاند کو اس دیس کے ماتھے کا بنالیں جُھومر
سِندھ کی سیندھ میں ہم سارے ستارے بھردیں
صبح کے نور سے نہلائیں اسے

جس سخی نے بھی ہمیں دان میں یہ وقت دیا ہے ، اُس کو
ہم دعاؤں کے سوا کچھ بھی نہیں دے سکتے
فیضؔ نے جو بھی سکھایا ہے یہی:

تہ اچو بُک دعا لائے کھنوں
یاد جے رسمِ دعانا ہے تہ چھا
پانڑ کھے سِک سَندے سوزہ سوا
کوبہ بت کوبہ خدا یا د نہ آ
یاد نہ آ
یاد نہ آ

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *