Home » شیرانی رلی » غزل ۔۔۔ خمار میرزادہ

غزل ۔۔۔ خمار میرزادہ

اتنی شدت تھی کچھ وعیدوں کی
قبر کھولی گئی شہیدوں کی
آستاں زاد آستاں تک ہیں
یہ وراثت ہے زر خریدوں کی
قفل ہاتھوں میں آ گئے سارے
جب ضرورت پڑی کلیدوں کی
کس بنا پر سوال کیجیے دل…
دھجیاں اڑ چکیں رسیدوں کی
شور اندر کا تھم سکے شاید
چپ نہ ٹوٹے گی خود گزیدوں کی

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *