Home » شیرانی رلی » غزل ۔۔۔ کاوش عباسی

غزل ۔۔۔ کاوش عباسی

کچھ نہ کچھ کہہ خفا تو کر ہی دیا
تم نے ہم کو جدا تو کر ہی دیا

کچھ دنوں کا جنوں سہی، ہم نے
حَقِ اُلفت اَدا تو کر ہی دیا

نامِ اُلفت ہمارے جینے کو
آپ نے اِک سزا تو کر ہی دیا

شوق نے تیرے، میرے جیون کے
راستے کو ہَرا تو کر ہی دیا

موم تھا جو اُسے کیا پتّھر
وقت نے کیا سے کیا تو کر ہی دیا

آگ سی اِک تلاش نے کاوشؔ
تمہیں کُچھ سر پھرا تو کر ہی دیا

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *