Home » قصہ » زبیدہ جمالدینی عبداللہ جان سے ۔۔۔ تمثیل حفصہ

زبیدہ جمالدینی عبداللہ جان سے ۔۔۔ تمثیل حفصہ

مرنے کے بعد میں نے دیکھا کہ میں اپنی اور ان کے ایمبولینس میں لے جانے والی لاشوں کا ماتم ، آنسوؤں کے عقیدت میں بہہ جانے والے شور کی آہٹ سن رہی ہوں۔ مگر عجیب خوشی تھی کہ میں اپنے ہمسفر کی وہ مسافر، کہ کشتی بدل جانے پہ بھی ان کے پیچھے پیچھے روانہ ہوں اور وہ ہے کہ اپنی مسکان سے بہتے پانی کی صورت راستے میں پھول بچھائے منتظر ہے۔ ہم کتنی دیر سے یونہی لوگوں کے ہجوم میں چل رہے ہیں مگر میں کہ ان کی خوشبو کے حصار میں دائروں کی صورت کچھ اور سوچ ہی نہیں رہی۔ مجھے مٹی کی خوشبو حنا لگ رہی ہے اور یہ نورانی چادر، لوگ جِسے کفن کہتے ہیں مجھے میرے نکاح کی یاد دلارہی ہے ۔ میرا وعدہ پورا ہوا اور آج بھی اُن کی زندگی ساتھی۔ سبز رستوں سے لے کر صبح کی پیلاہٹ ایسے کہ بیمار کے چہرے میں وہ زردی جو انسان کو سفیدی میں مکس ہونے نہ دے اور وہ دوپہر یں جو کئی صدیوں میں محیط ایسے صحرا کی مانند جو بھوک پیاس میں بھی سراب کا شک بھی نہ دے اور شام کی وہ بانسری جو پرندوں کی خاموشی میں کئی پہر بجتی رہی۔ اور میں ان کی وفا میں لپٹی، ستاروں سے اٹکتی، بجھتی راکھ میں بڑھکتی ، عمر کا سفر طے کرتی۔ مجھے میرے احساس نے کبھی ان سے زندگی میں الگ ہونے نہیں دیا جیسے شاخ میں وہ پتہ جو آخری ہو پر ساتھ ہو۔
اُسے دنیا جانتی تھی اور میں اُسے پہچانتی تھی کہ ان آنکھوں کی مسکراہٹ تو دنیا نے دیکھی پر وہ موتی میرے مقدر میں آئے جو صرف میرا اثاثہ ہے۔ ان کی آواز پہ لوگ کئی گھنٹے ساکت رہا کرتے تھے پر ان کی سانسوں میں وہ ٹِک ٹِک میں نے سنی جو کئی ہزاروں سوئیوں کے شور سے وہ ٹک ٹک نہیں جان سکتی کہ یہ میرے وقت کا آلارم ہے ایسے کہ جب وہ اپنے موت کے کمرے میں بے وفائی نہیں کرسکا ۔مجھے وہاں لیٹے لیٹے وہ پکارتا رہا اور میں قومے میں پڑی پڑی ان کے ساتھ کو محسوس کرتی رہی ۔وہ دھڑکن جب دھڑکنا بھول گئی تو مجھے یاد رہا کہ میں وہ مسافرجواندھیرے میں وہ آنے والی روشنی کبھی بجھتے نہیں دیکھ سکتی تھی ان کے دم سے تھی سو میں بھی اسی روشنی کی تلاش میں چل پڑی ۔ ابھی محسوس ہورہا ہے کہ میں اس فانی دنیا سے کو چ کر گئی اور اپنے ساتھی کے ساتھ کونبھا گئی اور اب سرخ جھیلوں کی نیلی تتلیوں کے پروں میں اڑتے پھرتے، آنسوؤں کی بارشوں میں بھیگتے بھیگتے کالی چھتریوں میں چلتے چلتے ۔ بس دو قدم کے فاصلے میں ایسے انہیں دیکھ رہی ہوں جیسے دروازے میں ایک سوراخ سے چیرتی ہوئی آنکھ میلوں تک دیکھ لیتی ہے۔ اب بھلا انہیں کون بتائے کہ میں بند آنکھوں سے بھی انہیں ایسے دیکھ سکتی ہوں جیسے انسان عرش پر بیٹھے خلا کے اڑتے پھرتے سیارے دیکھے۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے خواب میں بھی کبھی یہ نہیں دیکھا کہ سفید روشنی میں قوسِ قزح کے رنگ نہ ہوں اور سیاہی ہی سیاہی ہو اور بند صندوقوں میں پڑے صرف وہ کپڑے جس میں چھید نہ ہو بھلے اب یہ ممکن ہے کہ ان سیاہ رستوں میں چلتی گاڑیوں میں میرے دل کا ہارن کہاں ہے اور کون سا سائرن کیا بتارہا ہے ۔ آرہی ہوں طوفانوں سے لڑتے لڑتے ۔۔۔۔۔۔ اب خوش ہوگئے ناں۔ آؤ دیکھو، بیٹھو مٹی کی دیواریوں کو تولتے ہیں اور اب بتاؤ( ہنستے ہوئے) کہ وفا دار کون ہے ؟ بڑے سفر پہ ایسے چھوڑ کے روانہ ہوگئے کہ مجھے پتہ نہیں لگے گا؟ یا میں نہیں آؤں گی؟ یہ کیسے ممکن تھا۔۔۔۔۔۔یاد کرو وہ چھت جس پہ کبوتر آتے تھے تو پنجرے میں بند نہیں کرتے تھے کہ دیکھو ان کی آواز سنو یہ بولتے ہیں، دیکھتے ہیں، آزاد قوم ہے انہیں قید نہیں کرتے تو میں کیسے قید رہتی جو یہ سیکھ چکی تھی کہ ہزار پردوں میں بھی چپھوں تو تم دیکھ سکتے ہو، سن سکتے ہو۔۔۔۔۔۔ آؤ سو جاؤ، تھک گئے ہو ناں سفرسے ۔۔۔۔۔۔ میں بھی تو آگئی ناں ۔۔۔۔۔۔اب مت کہنا کہ نیند نہیں آئی۔۔۔۔۔۔ میں اب نہیں جانے ۔۔۔۔۔۔ سرخ میدان کی چاک مٹی پار کر آئی، سفرِ طویل کی مدت مار ائی اور تو اور موت کی زنجیروں کو بھی توڑ آئی۔ اب آرام کرلو زندگی میں بہت بھاگے ہو۔ وہ سائیکل اب کھڑی رہنے دو جو چلا چلا کے سڑکوں کی دھو ل کو ایسے اڑاتے رہے ہو جیسے انہیں سکھا رہے ہو۔ کتنا سکھا چکے ہو ؟دیکھو وہ کبوتر سب اڑ آئے یہیں پاس آگئے ،ہمارا گھر بنا رہے ہیں، اور اپنی محبتوں کی دعاؤں سے یہ دیواریں بنا رہے ہیں اپنے ہاتھوں کی تہوں سے زمیں کو سلارہے ہیں۔یہ وہ محبت ہے جو انہیں طاقت دیے ہوئی ہے کہ ہمارے کانوں میں وہ رس گھول رہی ہیں کہ جیسے کلموں کی تلاوت ہورہی ہے کہ جیسے ہمار انکاح پڑھا جارہا ہے۔ ستر ہزار فرشتوں کا منظر یوں نظر آرہا ہے اور پھول برسائے جارہے ہیں ۔زمیں کو تو بہت دیکھ لیا اب آسماں کو تکتے ہیں اور ان تنگ زمینوں سے کھلے آسماں کو بند ہتھیلیوں سے دعاؤں میں مانگتے ہیں اور ان کا فاتحہ پڑھتے ہیں جو ہمیں چھوڑ گئے۔ اُس سیاہی کی طرح جو تختی پہ عارضی طور پر لکھی گئی تھی بلکہ اب اس رنگ سے آسماں پر رنگ کرتے ہیں جو ایسے نظر آئے کہ ہزار دریا کوچیر دے۔۔۔۔۔۔ بھنور کے بازو کو موڑ دے۔۔۔۔۔۔ ہوا کے تنکوں پر اڑچلیں ۔۔۔۔۔۔ خدا کی جانب سفر کریں۔

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *