Home » کتاب پچار » سنگت کے بکھرے موتی ۔۔۔ عابدہ رحمان

سنگت کے بکھرے موتی ۔۔۔ عابدہ رحمان

جنوری 2017

جی جناب تو سنگت کا تازہ شمارہ جناب سبطِ حسن کے ٹائٹل کے ساتھ میرے ہاتھ میں ہے۔ میں نے جلدی جلدی سے صفحات پلٹنا شروع کر دیے کہ میرا پہلا سٹاپ شونگال تھا اور ہمیشہ ہی کی طرح دانش کدے کا یہ مضمون اپنی بھر پور دانش لیے ہوئے ہے۔ ’’نیا سال ٹرمپ کا یا انسانیت کا‘‘ میں بتایا گیا کہ خانہ جنگی در اصل عالمی جنگ ہے اور یورپی یونین خود بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔فیڈل کاسٹرو کے بعد سرمایہ داری نظام کے مخالفین کا کوئی لیڈر نہیں جبکہ امریکہ کا صدر کوئی بھی ہو لیکن اس کی پالیسی میں کوئی فرق نہیں لہٰذا سرمایہ داری نظام کے مخالفین کو مزید منظم ہونے کی ضرورت ہے۔شونگال ذہن کے بند دَر وا کر دیتا ہے۔
چلئے چلتے ہیں’’ بلوچی ادب‘‘ کی جانب جس میں بابا عبداللہ جان نے ایک انٹرویو میں بلوچی ادب، اس کی تاریخ و ارتقا کا بڑی خوبصورتی سے احاطہ کیا ہے۔ انھوں نے بتا یا کہ بلوچ معاشرے میں مذہبی جنونیت نا ہونے کی وجہ سے بلوچی شاعری ترقی پسند ادب کی جانب راغب رہی اور یہ کہ بلوچی ادب کبھی بھی اپنے ماحول سے کٹا نہیں۔ایک خوبصورت گفتگو تھی با با عبداللہ جان صاحب سے۔
گزشتہ سے پیوستہ ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب کا مضمون ’’ شاہ لطیف، صوفی نہیں یوٹوپیائی فلاسفر‘‘جس میں وہ کہتے ہیں کہ حکومتیں صوفیوں بزرگوں کی اصل تعلیمات پسِ پشت ڈال کر انھیں کرامتوں معجزوں کی نظر کر دیتے ہیں اور یہ باور کرایا جاتا ہے کہ یہ بزرگ جنون و عشق کی تلقین کرتے ہیں اور عقل ان کے ہاں توہین و ذلت کی چیز ہے جب کہ مصنف اس بات کی نفی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ بہت مزیدار مضمون ہے ڈاکٹر صاحب کا۔
’’تھیلیسیما‘‘ ڈاکٹر عطااللہ بزنجو صاحب کاایک معلوماتی اچھا مضمون تھا۔
مست کی شاعری پڑھی جائے تو روح میں ایک خاص سرور اورمنہ میں شہد کا ساذائقہ گھل جاتا ہے جو دنوں تک رہتا ہے۔ ایسا ہی ایک اور کلاسک شاعر جن کو سجاد کوثر بلوچ نے ’’عزت پنجگوری’’ نامی اپنے مضمون میں بڑی خوبصور تی سے متعارف کرایا ہے۔ عزت ومہرک کی داستانِ عشق اور عزت کی شاعری پر مبنی مضمون پڑھ کر مزہ آگیا ۔
فرزانہ خدرزئی نے اپنے مضمون ’’ شاہدہ جبیں خان، امرت حزیں سے امرت مراد تک کا تخلیقی سفر‘‘ میں امرت مراد کی شاعری اور افسانوں کے بارے میں بہت اچھا لکھا ہے۔
’’ سرائیکی تنقید۔۔۔ایک جائزہ‘‘ ڈاکٹر مزمل حسین کا مضمون جس میں انھوں نے ایک نہایت اہم بات کی نشاندہی کی ہے کہ سرائیکی بلکہ تمام مقامی زبانوں کے ادب میں تنقید کا فقدان ہے اور یہ بات زبان و ادب کے ارتقامیں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تخلیق و تنقید ایک دوسرے کے لیے مشعلِ راہ ہوتی ہیں، جو بجا طور پر درست ہے۔
موسیقی روح کی غذا ہے ۔ عابدہ رحمان نے بھی اپنے مضمون ’’ سا ،رے ،گا ،ما ‘‘ میں بلوچ پختون موسیقی اور اس میں استعمال ہونے والے آلات کے بارے میں لکھا ہے۔
’’ازمیر خان مندوخیل ‘‘کا سوانحی خاکہ جو منور خان مندوخیل کی تحریر کا دوسرا حصہ ہے،اپنے اندر روانیت اور سہل انداز ی برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اچھا مضمون رہا یہ بھی۔
ایک اور اچھا مضمون امانت حسرت کا ،’’ ایک عہد ساز شخصیت‘‘جو بابا عبداللہ جان کے بارے میں ہے۔ امانت صاحب کی بابا عبداللہ جان کی شخصیت، ان کی جدوجہد، لٹ خانہ سنگت اکیڈمی اورسنڈے پارٹی کے بارے میں ایک اچھی تحریر ہے۔
پوہ زانت میں اسلم تگرانی کا ماما جمالدینی پہ بلوچی میں مختصر مضمون بھی شامل تھا۔ جس میں ماما کی زندگی، ان کی جدوجہد اور لٹ خانہ تحریک سے متعلق یادیں تازہ کی گئی تھیں۔
حال حوال میں اس دفعہ خاران میں ہونے والے بابا عبداللہ جا ن پر ہونے والے سیمینار، ماہتاک سنگت ادارتی بورڈ کا اجلاس،گوادر کانفرنس، اور یونیورسٹی آف بلوچستان یونیورسٹی میں بلوچی ڈپارٹمنٹ کی جانب سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ کی تقریب کی روداد شامل تھی، جو اس سال بلوچی کے نام ور ادیب جناب غنی پرواز کو دیا گیا۔یہ زندہ انسانوں کی خدمات کے اعتراف کی کتنی اچھی روایت ہے، جسے بلوچی ڈپارٹمنٹ نے زندہ رکھا ہے۔ پڑھ کر جی خوش ہوا۔ماما عبداللہ جان پہ بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی جانب سے منعقدہ سیمینار کا براہوی میں حال عبدالغنی نے سنایا۔
اب آتے ہیں کتاب پچار کی طرف جس میں دو تبصرے عابدہ رحمان کے شامل تھے جن میں ایک تودسمبر کے ماہتاک سنگت کا جائزہ لیا گیا ہے اور دوسرا کرشن چندر کے ناول غدار پر تبصرہ ہے۔ جب کہ تیسرا تبصرہ ڈاکٹر علی دوست بلوچ صاحب نے ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب کی ترجمہ کی ہوئی کتاب ’’ گندم کی روٹی‘‘ پر کیا ہے ۔ ڈاکٹر علی دوست صاحب نے بہت خوبصورتی سے کتاب کے ہر گوشے کو چھوا اور اس پر بات کی۔
قصہ کو اس بار بلوچی نے گھیرا ہوا تھا۔ جس میں ایک تو محترمہ گوہر ملک کی بچوں کی کہانی شامل تھی۔ جس میں بچوں کی تفریح کا بھرپور سامان تھا۔ رواں شاعری نے کہانی کو مزید دلچسپ بنا دیا۔ دوسرا قصہ بورخیس کے افسانے کا بلوچی ترجمہ تھا۔ بورخیس کی کہانیاں جیسے اردو میں گنجلک ہوتی ہیں، ویسی ہی بلوچی میں تھی۔ ترجمہ البتہ رواں اور سہل تھا۔
کہتے ہیں کہ شاعری زندگی کا معاملہ ہے ، یہ صرف زبان کا معاملہ نہیں۔ اور پھر کہتے ہیں کہ سانس کا اندر کھینچنا تجربہ ہے اور باہر چھوڑنا شاعری۔ تو چلئے اب چلتے ہیں گوشہِ شاعری کی طرف کہ اس بار تقریباً تمام شاعری بہت زبردست آئی ہے۔
بات غزل کی کی جائے تو ہم بتائیں کہ بڑی حسین غزلیں سنگت کے صفحات پر بکھری ہیں۔ سعد اللہ کہتے ہیں :
بند رکھتا ہوں تیری یاد یہ دروازہِ دل
ہاں ! مگر اس کو مقفل نہیں ہونے دیتا
اور پھر کرامت صاحب دہائی دیتے ہیں :
مری نماز اسی نقش سے ہوئی قائم
جبیں کا داغ ذوقِ سجود میں آیا
اس کے علاوہ تمثیل حفصہ،انجیل، فیصل ، بلال اور شجاعت سحر جمالی کی بھی خوبصورت غزلیں تھیں۔
’’اگر تم شاعر نہیں بن سکتے تو نظم بن جاؤ‘‘ جناب ہم کیا شاعر بنیں اور کیا نظم ۔۔۔ ہاں نظم پر بات ضرورکر لیتے ہیں۔
’’گوادر کے مچھیرے‘‘ سلمیٰ جیلانی کی ایک بہت پیاری مگر دکھی نظم :
مچھیرے نے گھبرا کر آنکھیں میچ لیں
منظر بدل چکا
اب وہاں کوئی نہیں تھا!
حسام رند کی ایک نہایت دل کش دل کو چھو جانے والی نظم؛’’ممکن ہے کسی روز‘‘ کا ایک ٹکڑا دیکھئے؛
جس راہ پر مدت تلک ہم ساتھ چلے تھے
جس راہ پر اک شخص تمھیں ہار گیا تھا
کہتے ہیں پرندوں نے اسے نوچ لیا ہے!!
اس کے علاوہ نور محمد شیخ کی’’ اظہار‘‘،ندا بتول کی ’’ اور جبران نے اپنی نظم کہی‘‘، پابیلو نرودا کی ’’Fidel Castro‘‘ اور نوشین قمبرانی کی’’ Lament For Annihilated souls‘‘ بھی خوبصورت نظمیں ہیں۔جب کہ بلوچی میں صادق مری کی غزل، محمد رفیق مغیری کی نعت، اور غم خوار حیات کا خلیل جبران کی نظم کا براہوی ترجمہ بھی شعری حصے میں شامل تھے۔

Spread the love

Check Also

فلم بازار اور عورت کی منڈی۔۔۔ مریم ارشد

ہمیشہ سے یہی سْنتے آئے ہیں کہ زندگی مشکل ہے۔ لیکن زندگی مشکل نہیں ہے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *