Home » شیرانی رلی » اور جبران نے اپنی نظم کہی ۔۔۔ ندا بتول

اور جبران نے اپنی نظم کہی ۔۔۔ ندا بتول

ٹوٹے پروں کو سمیٹے
پیغمبروں کی روح حلول کر کر کے جبران نے اپنی نظم کہی
وہ نظم جو وقت گذشتہ اور فردا کے قصوں کا مظہر ہے
جس میں حال کا شائبہ تک نہیں
جہاں وقت نے اپنا آپ دریا برد کر کے لمحوں کی گنتی کو رواں کر دیا
جب لمحے رواں ہوجائیں تو وقت ساکت ہوجاتا ہے
جبران جب گویا ہوا تو دیو مالا کے سارے کردار، اپنے کرداروں سے لوٹ آئے
زندگی کے پھیکے پڑتے کینوس کے رنگوں کو اجالا کر کے۔۔۔ وجد میں گم
تم تو لفظوں کے جال میں جذبات کو قید کر کے زندہ کر گئے
نظم کی صورت لفظوں کو جنم دیتے دیتے وہ خوبرو خدا بن بیٹھے
جسے تپ دق کھا گئی
تم شاعری کے کاریگر نہیں
لفظ، تمہاری راہ تکتے رہتے تھے کہ کب تم آ کے ان میں مسیحی سانسیں پھونک دو۔۔۔
اے تخلیق کے مسیحا!
اب لفظ بکتے ہیں مرھم نہیں ہوتے
سکوت کے وہ لمحے جو تم تراش گئے تھے، وہ خواب ہوئے۔۔۔۔
لفظوں کے گلے سوکھ گئے
تمہیں پکارتے پکارتے
ڈراؤنے خوابوں سے ان کی بینائی زائل ہوگئی۔۔۔ اور جبران نے اپنی نظم کہی

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *