Home » شیرانی رلی » غزل ۔۔۔ کرامت بخاری

غزل ۔۔۔ کرامت بخاری

مال حُسن تھا چشم حسود میں آیا
حدوں کو پار کیا تو حدود میں آیا
ہر اِک حصار سے باہر تھا زیست کا لمحہ
قضانے قید کیا تو قیودمیں آیا
جمالِ ماہِ منور کی آرزو لے کر
ستار ا شام کا شہرِ شہود میں آیا
زمانے بھر کی نگاہیں تھیں منتظر اُس کی
یونہی نہیں وہ عدم سے وجود میں آیا
مری نماز اِسی نقش سے ہوئی قائم
جبیں کا داغ جوذوق سجود میں آیا
کسی نظر کی کرامت ہوئی کرامت پر
میں اپنے نام کے صدقے نمود میں آیا

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *