Home » پوھوزانت » سا،رے،گا، ما ۔۔۔ عابدہ رحمان

سا،رے،گا، ما ۔۔۔ عابدہ رحمان

کہتے ہیں کہ موسیقی آپ کی روح سے روزمرہ زندگی کی گرد دھو ڈالتی ہے۔ایک مضبوط ترین جادو ہے اس میں ، ایک دفعہ کوئی جکڑ جائے تو نکل نا پائے۔ آپ اسے ٹچ نہیں کر سکتے، چھو نہیں سکتے لیکن یہ آپ کی روح کو چھو جاتی ہے اور جب چھو جائے تو پھر یہ ایک درد کشا Painkiller) (کا سا کام کرتی ہے۔
انسان جب سے پیدا ہوا ہے، وہ موسیقی سے آشنا ہے۔ دل کا دھڑکنا خود ایک موسیقی ہے کہ اس میں ایک ردھم ہے۔ انسان کو جو سب سے بڑا Musical Instrument ودیعت ہوا ہے، وہ خود اس کی اپنی آواز ہے۔ پوری دنیا میں موسیقی سنائی جاتی ہے، سنی جاتی رہی ہے۔ علاقے، زبان اور ثقافت کے لحاظ ہر جگہ کی موسیقی کے اپنے اپنے رنگ اور اپنے ذائقے ہیں۔ زمین کا وہ حصہ جس پر ہم رہتے ہیں، ہماری ثقافت کا الگ ذائقہ، الگ رنگ اور الگ ہی خوشبو ہے۔
بلوچ اور پختون کا کلچر ایک بہت ہی Rich کلچر ہے۔ یہ دو اقوام جو بظاہر صرف جنگ جو ہی لگتی ہیں اور ایک عام تاثر بھی ان کے بارے میں یہی ہے لیکن سچ یہ ہے کہ یہی دو اقوام بہت سچی، اندر سے بہت نرم مزاج، رومانویت سے بھرپور، شاعری اور موسیقی سے محبت کرنے والے اور محبت کے معاملے میں بہت بے ساختہ ہیں۔ جس طرح زندگی کے دوسرے معاملات میں ان میں تصنع اور بناوٹ نہیں، اسی طرح لطیف جذبات میں بھی ان میں کوئی بناوٹ نہیں۔
بلوچ اور پختون، موسیقی بڑے شوق سے سنتے ہیں لیکن پختون کے بارے میں ایک بہت ہی عجیب بات یہ ہے کہ وہ موسیقی کو پسند توکرتے ہیں ، بڑے شوق سے سنتے بھی ہیں لیکن موسیقار کو ڈم یعنی مراثی کہتے ہیں۔ جب کہ ان میں بہت اچھے اچھے فن کار بھی رہے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ مختلف آلات Musical Instruments)) استعمال کرتے ہیں جو تقریباً ایک ہی جیسے ہیں لیکن کہیں کہیں ناموں کا فرق ہے۔بلوچوں کے اپنے Traditional Musical Instuments استعمال ہوتے ہیں۔ وہ سروز، نل اور تنبورہ ہیں ،جب کہ پختونوں کے رباب، شپیلئی سرندہ اور منگے ہیں ،لیکن آج کل باقی تقریباً تمام جدیدآلات بھی بلوچ ااور پختون موسیقی میں اسی طرح استعمال ہوتے ہیں جیسے کہ باقی زبانوں کی موسیقی میں۔
رباب: یہ پورے شمال مغربی علاقے میں بہت مشہور ہے۔ رباب کے ساتھ مختلف رومانوی گیت، لوک گیت گائے جاتے ہیں۔ تمام پختون رباب بڑے شوق سے سنتے ہیں۔ تاج محمد ایک مشہور رباب نواز ہے۔
منگے ( گھڑا): یہ ایک گونج دار ایک Booming Sound دیتا ہے۔ منگی کا منہ ایک ربڑ سے سختی سے باندھ دیا جاتا ہے۔ ایک ہاتھ سے اوپر سے یعنی جہاں سے ربڑ سے باندھا ہوتا ہے، بجاتے ہیں ۔جب کہ دوسرے ہاتھ سے سکے سے منگی کے دوسرے حصے کو بجایا جاتا ہے۔ یہ اکثر ستار کے ساتھ ملا کے بجایا جاتا ہے۔
سرندہ (Sarinda)، سروزSaroz)): یہ لفظSarynda فارسی سے آیا ہے،جس کا مطلب ہے؛ Producer of Tunes ۔ عام طور پر یہ رباب اور طبلے کے ساتھ بجایا جاتا ہے۔ پختونخوا میں سرندا کا سب سے اچھا فن کارمنیر سرحدی تھا ، جس نے یہ فن اپنے والد استاد پزویر سے سیکھا تھا۔ اس کی وفات کے بعد کوئی اس فن میں اس طرح مہارت حاصل نہ کر سکا۔
بلوچی میں سریندا کو سروزبھی کہا جاتا ہے ۔ یہ ایک لمبی گردن والا سارنگی کی طرح کا Instrumentہے ۔اسے عمودی رخ میں بجایا جاتا ہے۔ اسے خاص طور پر بلوچی انسٹرومنٹ کے طور پرonsider Cکیا جاتا ہے۔ بلوچی لباس میں ایک بلوچی انداز میں سجا ہوا سروز بائیں ہاتھ میں پکڑ جاتا ہے اور انگلیاں اسکے تاروں کو چھیڑتی ہیں۔ سچو خان موسیقی کی دنیا میں سروز کے حوالے سے دنیا کو فتح کر چکے ہیں۔
سروز ایک زمانے سے ہماری ثقافت کا حصہ رہا ہے۔ یہ پرپغ کے درخت کی لکڑی سے بنایا جاتا ہے, جو بلوچستا ن کے پہاڑوں پر عام اگتا ہے۔
طبلہ: یہ جڑواں ڈرم کی صورت میں بجائے جاتے ہیں۔ پشتو میں اسے دوپڑئی کہتے ہیں۔ دائیں طرف والا ’دائم‘ کہلاتا ہے، جب کہ بائیں طرف والا ’ تھبیان‘ کہلاتا ہے۔ یہ اوپر سے بکرے کے چمڑے سے کَور کیا جاتا ہے۔ درمیانی حصے کو’ سیاہی‘ کہا جاتا ہے،جس کی پانچ سینٹی میٹر تک چوڑائی ہوتی ہے۔ یہ بلوچی اور پشتو دونو ں میوزک میں یکساں طور پر استعمال ہوتا ہے۔ پشتو میں اسے ذرا مختلف انداز میں بجایا جاتا ہے، کیوں کہ پشتو میوزک کی ایک Greek Type Beat ہے۔
دنبورہ: یہ ایک بلوچی ساز ہے جو کہ تنبور بھی کہلاتا ہے۔ لمبی گردن کا یہ Instrument بلوچی فوک میوزک کا اہم حصہ ہے۔
صحبت پور ضلع جعفرآباد کا دریان خان تنبورہ اور سروز بنانے کا بھی ماہر ہے اور اسے بجاتا بھی بہت مہارت سے ہے۔ سچو خان کے لیے بھی سروز دریا خان ہی بنا تاہے،جو کہ گز اور پرپگ سے بنتا ہے۔
بانسری، نلی، دونلی، شپیلئی:کہتے ہیں کہ بانسری بجانا ایک کتاب کی طرح ہے۔ آپ وہ سب بتا رہے ہوتے ہیں جو آ پ کے دل میں ہوتا ہے۔ اسے بجانا آسان ہو جاتا ہے،اگر یہ سیدھا آپ کے دل سے آ رہا ہو۔ آپ اپنے دل سے سُر لیتے ہو اور آپ کی انگلیاں اس کی پیر وی کرتی ہیں۔
بانسری تقریباً پوری دنیا میں بجائی، سنی اور پسند کی جاتی ہے۔بلوچی میں اسے نلی یا شفیلی کہتے ہیں ۔
پشتو میوزک میں بھی بانسری کی ایک بہت اہم جگہ ہے ،جسے شپیلئی کہا جاتا ہے۔ سب پٹھانوں کو شپیلئی سے بہت محبت ہے۔ خصوصاً جب گرمیوں کی چاند راتوں میں دور سے اس کی آواز آئے۔ ہزاروں سالوں سے بلوچ اور پٹھان چرواہے بانسری بجاتے چلے آرہے ہیں۔
ستار: یہ ایک بہت سادہ اور پراناMusical Instrument ہے جس کی ایک جادو بھری آواز ہے ، جو آپ کی روح کے تاروں کو، آپ کی نبض کو سحر کی طرح گرفت میں لے لیتی ہے۔ بہت مدھر آواز ہوتی ہے، جسےSolo بھی سنا جا سکتا ہے اورگھڑا کے ساتھ بھی بجایا جاتا ہے۔ پاکستان کے دو صوبوں، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بڑے شوق سے سنا اور بجایا جاتا ہے۔
ہارمونیم: کہتے ہیں کہ زندگی بھی ایک ہارمونیم کی طرح ہے، آپ اس سے وہی کچھ حاصل کرتے ہیں،جس طرح آ پ اس سے پیش آتے ہیں۔یہ اصل میں انڈیا سے آیا ہے ۔ اس کی آواز کوسُر کہا جاتا ہے۔ بلوچی اور پشتو دونوں میوزک میں یہ غزل، کلاسک، لوک موسیقی، قوالی وغیرہ میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کی Keys کے ذریعے مختلف سُر بنائے جاتے ہیں۔
ڈھول: یہ ہاتھ یا لکڑی کی sticks سے بجایا جاتا ہے۔ یہ شادی بیاہ اور دوسری خوشیوں کے موقع پر اور چاپ کرتے ہوئے بجایا جاتا ہے۔
بینجو: یہ بھی ایک بلوچی Musical instrument ہے جو اصل میں تو بلوچی موسیقاروں کی ایجاد ہے لیکن بہت ساری تبدیلی کے ساتھ یہ سندھ میں اب زیادہ مشہور ہے اور سندھ کا اہم musical instrument ہے۔ لیور بورجی مرحوم سندھ کا مشہور بینجو نواز تھا۔تاج محمد تاجل بلوچستان کا سب سے بڑا بنجو نواز ہے۔
تمبل، دریا: یہ گول شکل میں ہوتا ہے ۔ ایک طرف سے کھال سے سختی سے cover کیا ہوتا ہے اور دوسری طرف سے خالی ہوتا ہے۔ پختون ثقافت کا ایک اہم حصہ ہے۔یہ عموماَ خواتین شادی بیاہ اور خوشی میں بجاتی ہیں ۔ بائیں ہاتھ میں تمبل پکڑ کر دائیں ہاتھ سے بجایا جاتا ہے۔یہ ایک اہم instrument ہے اور اسکے ساتھ اکثر ٹپے گائے جاتے ہیں۔ شادی مہندی کی رات بھی یہ بجایا جاتا ہے۔ اسے خیبر پختونخوا میں تمبل اور افغانستان میں دریا کہا جاتا ہے۔
نغارئی: یہ عام طور پر موسیقی میں نہیں بجایا جاتا بلکہ کسی اعلان جیسے جنگ کا اعلان یا کسی خطرے کی صورت میں نغارئی بجایا جاتا ہے۔ اس کو دوسری زبانوں میں طبل بھی کہا جاتا ہے۔اردو میں نغارہ بھی کہتے ہیں۔ بلوچی میں سرنا بھی کہا جاتا ہے۔
موسیقی کی زبان ایک ایسی زبان ہے جسے روح بہت اچھی طرح سمجھتی ہے لیکن وہ اسکا ترجمہ نہیں کر سکتی۔ یہ ایک ایندھن، ایک energizer کا کام کرتا ہے۔ آپ دنیا کے جھمیلوں سے تھک چکے ہوں، آپ وقت کے تھپیڑوں سے پٹ چکے ہوں اور سکون سے کہیں بیٹھ کر آپ موسیقی سن لیں کچھ دیر، تو میرا دعوی ہے کہ آپ اس قدر توانائی حاصل کریں گے کہ کچھ عرصے کے لئے ہر سو سکون ہو جائے گا ۔
کسی نے کیا خوبصورت بات کی ہے کہ میوزک وہ شراب ہے جو خاموشی کے جام کو بھر دیتا ہے اور مزے کی بات یہ کہ میوزک جتنی بھی زور سے hit کرے آپ کو درد محسوس نہیں ہوگا۔ موسیقار آپ اپنا سارا درد میوزک انسڑرومنٹس میں انڈیل کر ایک بہت خوبصورت چیز ،،میوزک،، میں تبدیل کر دیتا ہے۔
موسیقی سنئے اور اپنے درد ، اپنی پریشانیوں کو فضا میں زور زورسے ادھر ادھر پھینک دیجئے۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *