Home » پوھوزانت » از میر خان مندوخیل ۔۔۔ منور خان مندوخیل

از میر خان مندوخیل ۔۔۔ منور خان مندوخیل

انگریز پولیٹکل ایجنٹ اور فوجی آفیسران سخت مضطرب تھے۔ لہذا سردا ر اختر خان ، سردار شیرک خان عبداللہ زئی ، سردار پاندڑ کبزئی اورشیرانی کے ملکوں اور خانوں کو بلا کر حالات پر قابو پانے کے لئے کہا گیا۔ سردار اختر خان ، سردار شیرک، سردار پاندڑ خان او ردیگر معتبرین نے حالات کا جائزہ لینے کے لئے فرنگی پولیٹکل ایجنٹ اور فوجی آفیسران سے وقت مانگا۔ دراصل سردار اختر خان اور سردار شیرک خان تو پہلے سے تیار بیٹھے تھے اور شیرانی قبیلہ سے مشو خان شیرانی اور اُن کا لشکر لڑائی کے لئے تیار بیٹھے تھے۔ اسی لیے ایک طرف یہ اپنے بچوں ، عورتوں اور رشتہ داروں کو سرحدی مقام پر محفوظ کرنا چاہتے تھے اور ساتھ ہی ازمیر خان کو جلد سے جلد افغان انقلابیوں کے لشکر کے ساتھ ژوب چھاؤنی اور شہر پر قبضہ کرنے لے لیے شہاب الدین کے ذریعے پیغام بھی بھیجا گیا۔ ازمیر خان نے میر علی خیل پوسٹ سے وزیر محسود اور افغان انقلابیوں کے لشکر سے متواتر رابطہ رکھا اور اُن کو سرعت سے آگے بڑھنے اور ژوب چھاؤنی اور شہر پر قبضہ کے لیے ترغیب دیتا رہا ۔ ازمیر خان نے اپنے قابل بھروسہ سپاہیوں سے کہا کہ اب اِ ن فرنگیوں سے لڑوں گا۔ اپنے وطن کو اِن فرنگیوں سے پاک کروں گا۔ یہ گفتگو جاری تھی کہ کرنل پاول اور کپتان Spainاور کپتان AF Reillyنے ازمیر خان کے لیے دوبارہ بلاوا بھیجا ۔ ازمیر خان نے آکر کہا کہ مسٹر پاول او ر مسٹر Spainاب میں سپاہی نہیں ، مجاہد او رغازی بن چکاہوں او رمیرے جہاد کا آغاز ابھی آپ سے ہی شروع ہورہا ہے ۔ یہ کہتے ہوئے اپنی بندوق فرنگی آفیسر ان کی طرف کردی۔ کپٹن اسپین اور کپٹن AF Reilly تو اسی وقت جہنم واصل ہوگئے ۔ مگر کرنل پال R.S Paul))زخمی حالت میں گھوڑا بھگا کر ایک قبائلی علی خان حریفال کے گھر زور کاڑ (Zarwar Khar) نامی گاؤں میں پناہ لے لی ۔ علی خان حریفال نے تقریباً دوہفتے تک اُسے گھر میں خفیہ طور پر رکھ کر مندوخیل قبیلے کے ایک شخص کے توسط سے اُسے فورٹ سنڈیمن شہر میں ایل ۔سی جیکب پولیٹکل ایجنٹ ژوب کے حوالے کر کے دونوں نے انعامات حاصل کئے اور اُن کو مزید مراعات دینے کا وعدہ کیا گیا۔ سردار اختر خان کو لمحہ بہ لمحہ اطلاعات ملتی رہیں۔ انہوں نے جلد سے جلد ازمیر خان سے ملنے اور آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے کے لئے بلایا ۔ کسی نہ کسی طرح تمام خطرات کے باوجود ازمیر خان غازی اپنے گاؤں قلعہ اختر خان ( جو کہ دریائے ژوب کے مغربی کنارے پر شہر ژوب سے 9میل کے فاصلے پر تھا) ملنے کے لیے آئے ۔ چونکہ دریائے ژوب میں مون سون کے موسم میں طغیانی تھی۔ ان دنوں اختر خان کے قلعے پر حملے کا خطرہ قدرے کم تھا۔ یہیں پر سردار شیرک خان ان کے بیٹے شیر علی خان ، مشو خان شیرانی اور دیگر مجاہدین سے ملاقات ہوئی اور لائحہ عمل اور فوجی منصوبہ بندی کی گئی کہ کس طرح چھاؤنی میں آئے ہوئے گورکھا فوجیوں اور FC کو بے بس کیا جائے ۔ مشو خان او ر اُن کے مضبوط شیرانی لشکر کے ساتھیوں کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ کپیپ کے راستے ڈیرہ اسماعیل خان سے کوئی کمک انگریزوں کو نہ پہنچنے پائے اور اُن کا راستہ روکیں۔ سردار شیرک خان او راُن کا بیٹا شیر علی خان اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کوئٹہ سے آنے والی کمک نہ آنے دیں گے۔ اُن کی مدد کے لیے مجاہدین کے لشکر سے مطلوبہ تعدادی جائے گی۔ لورلائی کی طرف سے آنے والی فوجی کمک کو بابڑ کے مقام پر شیرانی اور بابڑ کے مجاہدین روکیں گے اور مندوخیل مجاہدین تکئی کے مقام پر شیرانی اور بابڑ ، جبکہ اپوزئی کے مقام پر عبداللہ زئی انقلابیوں کی مدد کریں گے ۔ افغان آزادی پسند وزیرمحسود، سلیمان خیل ژوب شہر اور چھاؤنی کا مکمل محاصرہ کریں گے۔منصوبہ اس طرح ترتیب سے بنایا گیا کہ مقامی مجاہدین اور افغان مجاہدین وزیر، محسود میں کوئی ٹکراؤ نہ ہونے پائے۔ جب سب اِس منصوبہ پر راضی ہوئے اور حالات جو رُخ اختیار کررہے تھے اِس میں حالات کا تقاضہ تھا کہ کم ازکم وقت میں سردار اختر خان اور سردار شیرک خان کے خاندانوں کو کسی محفوظ مقام پر منتقل کیا جانا تھا۔ لہذا باہمی مشورہ سے سردار اختر خان اور سردار شیرک خان کے خاندانوں کی خواتین اور بچوں کو افغانستان کے لیے جلد سے جلد راتوں کی تاریکی میں روانہ کیاجائے۔یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ پورے مندوخیل قبیلہ کا ایک اجلاس بمقام نشتری درہ منعقد کیا جائے ۔ تاکہ اجلاس میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے ۔ اِ س اہم اجلاس میں چند خود غرض اور مراعات یافتہ غداروں اور پنشن خور دینی زعماء کے علاوہ باقی تمام ملکوں اور معززین قبیلہ نے شرکت کی اور تقریباًپورے قبیلے مندوخیل نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا علان کیا۔یہی کچھ سردار شیرک خان نے کیا جہاں عبداللہ زئی قبیلہ کے چند غداروں کے علاوہ باقی سب نے جہاد کا اعلان کردیا۔ شیرانی قبیلہ مشو خان اور دیگر ملکوں کے توسط سے جہاد کا اعلان کر گیا۔ مندوخیل قبیلے اور عبداللہ زئی قبیلہ نے سردار اختر خان سے درخواست کی کہ وہ خود اور سردار شیرک خان کے فرزند شیر علی خان اور کچھ دیگر معززین کو ساتھ لے کر والئی افغانستان (اُس وقت کے بادشاہ) امان اللہ خان سے کابل جا کر مندوخیل ، عبداللہ زئی اور شرانی قبائل کے لیے وہاں رہائش کا انتظام کرادیں۔ سردار اختر خان وفد کے ہمراہ کابل پہنچے ۔ اِسی دوران سردار شیرک خان اور ازمیر خان غازی اپنے خاندانوں کو محفوظ مقام پر منتقل کرنے کے انتظام میں لگ گئے تاکہ وہاں سے آسانی سے سرحد پار کرء کے افغانستان کے علاقے قلات غلزئی اور مُکور پہنچ جائیں۔ سردار اختر کان اور اُن کے قبیلے کے افراد جو کہ اکثریت ( قُبرزئی شاخ سے تھے) اور سردار شیرک خان اور اُن کا خاندان راتوں رات ژوب کے شمال مغربی سرحدی علاقے چخوند کے مقام جگہ پہنچ گئے جو کہ سرحد کے ساتھ پہاڑوں میں گھر اہوا محفوظ علاقہ تھا اور جہاں اپنوں کے سوا سرکاری فوج کی آمد تقریباًنا ممکن تھی ۔ بچوں ، عورتوں اور بوڑھوں کو یہاں ٹھہرا کر ازمیر خان اور اُن کے ساتھی بشمول سردار شیرک خان تیزی سے ژوب شہر کی طرف مجاہدین شامل تھے۔ ژوب کے پولیٹکل ایجنٹ لفٹیننٹ کرنل اے این جیکب کو جب مخبروں نے حالات سے باخبر کرایا کہ سردار اختر خان وفد کے ہمراہ کابل چلے گئے ہیں اور ازمیر خان غازی اور سردار شیرک اپنے وفاداروں کے ذریعے اپنے اپنے گاؤں سے چلے گئے ہیں اور اب وہ لشکر کے ہمراہ چھاؤنی اور شہر پر یلغار کرنے والے ہیں۔ انگریز پولیٹکل ایجنٹ کو فرنگی مخبروں نے بتادیا کہ اگر ازمیر خان غازی پر کوئی شخص اثر انداز ہوسکتا ہے یافرنگی پیغام امن پہنچا سکتا ہے تو وہ ایرب زئی قبیلہ سے تعلق رکھنے والا انکا رشتہ دار ہے ۔ پولیٹکل ایجنٹ نے سرکاری مخبروں اور مرعات یافتہ افراد کے ذریعے اِس شخص کی خدمات حاسل کیں جو کہ سردار اختر خان کا دامار تھا۔ اِس دور ا ن شہر اور چھاؤنی کا تیزی سے محاصرہ مکمل کیا گیا ژوب شہر جس میں تمام دکانیں ہندوؤں کی تھیں مکمل طور پر جلا کر خاک کردیا گیا۔ ازمیر خان غازی جانتا تھا کہ ژوب شہر کے پانی کا واحد وسیلہ سیلازہ سے پائپ کے ذریعے 10میل کے فاصلے سے بذریعہ Gravityآتا ہے ۔ اِس کے علاوہ اور پانی پینے یادیگر انسانی ضروریات کے دستیاب نہیں ہے ۔ لٰہذا ازمیر خان غازی نے مجاہدین کی مدد سے اِس پائپ کو جگہ جگہ سے اکھاڑ کر شہر اور چھاؤنی کا پانی جنگی حکمت عملی کے تحت بند کردیا ۔ ژوب چھاؤنی میں جو2000کے قریب گور کھا سپاہی لائے گئے تھے تاکہ افغانستان کی آزادی کی جنگ کے موقع پر غزنی پر حملہ آور ہوں وہ بھوک اور پیاس سے 10دن لگے ۔ جنہوں نے ہتھیار ڈالے اُن کو معاف اور لڑائی لڑنے والوں کا قتل عام کیا گیا۔ صرف پولٹیکل ایجنٹ کے Castleمیں چند انگریز فوجی آفیسر ان بشمول زخمی کرنل پال اور خود پولٹیکل ایجنٹ محصول ہوگئے تھے کیونکہ اِن پر حملہ آزادی پسندوں نے نہ کیا کہ یہ محصور آفیسران پیاس کی شدت برداشت نہ کرتے ہوئے خود ہی Surrenderکر جائیں گے۔ اِس دوران ایک وطن فروش شخص نے عورتوں کے بھیس میں محصور انگریزوں بشمول پولٹیکل ایجنٹ ژوب کو بار بار چوری چھپے پانی کا مشک بھر بھرپلایا ۔ کچھ لوگوں نے ازمیر خان سے کہا کہ اِس کو قتل کر دیا جائے ۔ جو اباً ازمیر خان نے کہا کہ پشتون روایات میں عورتوں یا عورتوں کے لباس والے شخص کو قتل کرنا بزدلی سمجھتے ہیں۔
شہر اور چھاؤنی کا21دن تک مکمل محاصرہ رہا۔ جو نہی انگریزوں نے والئی افغانستان سے معاہدہ آزادی پر بہ امر مجبوری دستخط کئے تو افغان ، وزیر اور محسود قبائل کے لوگوں نے ازمیر خان ، سردار شیرک ، مشو خان شیرانی اور دیگر مقامی آزادی پسندوں کو انگریزوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا اورخود اپنے اپنے علاقوں کا رُخ کر لیا تاکہ افغانستان کے جشن آزادی میں حصہ لے سکیں۔ اِس دوران کچھ جھڑ پیں بھی مقامی مجاہدین سے ہوئیں۔ اِس محاصرہ کے دوران کوئٹہ سے آنے والے گو رکھا پلاٹون کو سردار شیرک خان اور اُن کے ساتھیوں نےKadalکے مقام پر ( جوکہ ژوب شہر سے 4میل کے فاصلے پر ہے) تہ تیغ کردیا اور ڈیرہ اسماعیل خان کی طرف سے آنے والی کمک کو مشو خان اور اس کے لشکر نے ختم کردیا۔ انگریز ازمیر خان اورشیرک خان ، مشو خان اور دیگر مجاہدین سے انتقام لینے کے لیے بے قرار تھے۔ اِن کو علم تھا کہ شہر کو جلانے ، چھاؤنی کو جلانے اور گورکھا فوج کو قتل کرنے میں خاص کر اِن تینوں کا ہاتھ تھا۔ لہذااِ ن کو عبرت کا نشان بنایا جائے تاکہ دوبارہ مقامی قبائل انگریزوں کے خلاف افغانستان کی حکومت کی ایما ء پر بغاوت نہ کرسکیں۔
افغانستان سے فارغ ہونے پر انگریزوں نے دوبارہ شہر بسانے کے لیے ہندو دکانداروں کو ایک لاکھ روپے مدد کے لیے دیے جس طرح کہ ژوب کی ژ وب ایجنسی 1919-20کے ڈسٹرکٹ ژوب کے صفحہ 15کے پیرا گراف 9میں ذکر ہے ۔ چھاؤنی کی دوبارہ تعمیر کی گئی۔ لیویز کی نوکریاں وفاداریاں اور مخبروں میں بانٹی گئیں تاکہ ہر قبیلہ اپنے اپنے علاقے میں لیویز کی مدد سے امن قائم کرے اور اِن مراعات کے بدلے مندوخیل ، عبداللہ زئی کے لوگوں کو سردار اختر خان اور سردار شیرک خان سے توڑا جائے اوروہ انگریزوں کے مفادات کے بدلے سرکار کے وفادار رہیں۔
پہلے قدم کے طور پر انگریزوں نے اپنی گورکھاپلا ٹون کی مدد سے سردار اختر خان کے قلعہ کو جو دریائے ژوب کے بائیں کنارے پر واقع ہے مکمل طور پر مسمار کرایا تاکہ قبائل کو خوف زدہ کیا جائے، جو کچھ اِس قلعہ میں سے اُن کے ہاتھ لگاوہ لُوٹ کر لے گئے۔
سردار شیرک خان اپنے خاندان ، بچوں ، عورتوں اور عزیز واقارب کے ساتھ ازمیر خان ، اُن کے رشتہ داروں اور خاندان کے ساتھ ہی چخو ند کے مقام جلگہ پر مقیم تھے اور سردار اختر خان کی طرف سے آ نے والے پیغام کا انتظار کر رہے تھے تاکہ افغانستان منتقل ہو کر محفوظ ہوجائیں سردار اختر کی طرف سے اُن تک پیغام پہنچایا گیا کہ چونکہ غازی اماناللہ والئی افغانستان ( اُس وقت باد شاہ بن گئے تھے) نے اُن کے خاندانوں اور رشتہ داروں کے لیے افغانستان میں قلات غلزئی اور شاہ جوئی میں کار یزات بمعہ قابل کاشت زمینوں کا بندو بست کر کے الاٹ کر دیا ہے ، لہذا جلد سے جلد سرحد پارکر کے آجائیں تاکہ اُن پر انگریزی فوج کا حملہ نہ ہو۔ اسی طرح مشوخان اور اُن کے خاندان کے لیے بھی شاہ جوئی میں زمین الاٹ کرائی گئی۔ یہ پیغام ازمیر خان مندوخیل او ر سردار شیرک اور مشو خان کو4اکتوبر 1919کو ملا۔ شیرک خان نے ازمیر خان پر اگلے ہی دن یعنی 5اکتوبر 1919سے ہر طرح کا دباؤ ڈالا کہ مخبری کرنے والے بار بار اِس علاقے میں خفیہ طور پر آجارہے ہیں جو کہ راتوں کو دیکھے گئے ہیں اور جنکی حرکتیں مشکوک ہیں۔ لہذا جلد سے جلد سرحد کوپار کر کے عورتوں ، بچوں اور خاندانوں کو محفوظ مقام پرمنتقل کر کے فیصلہ کیا جائے کہ کن کن خاندانوں کو قلات غلزئی اور کن کن کو شاہ جوئی میں افغان حکومت کی عطا کردہ زمینوں پر آباد کیا جائے۔
چونکہ افغانستان نے آزادی کے بعد انگریزوں سے معاہدہ کر لیا تھا یعنی 20اگست 1919کو غازی امان اللہ خان بادشاہ آزاد افغانستان بن گئے تھے۔ تمام ملک اور افغان عوام نے اُن کو غازی کا لقب دے کر افغانستان میں جشن آزادی منایا جو کہ 30اگست1919تک جاری رہا۔ انگریز حکمران افغانستا ن کے معاملے سے فارغ ہوئے اور ہزیمت ( رسوائی)اٹھائی تو طیش میں آئے ہوئے وائسرائے نے صوبہ سرحد اور خاص کر بلوچستان کے AGGمسٹر ایچ آرسی ڈوب HRC Dhobbکو خصوصی ہدایات دیں کہ لڑائی سے متاثرہ علاقے ژوب کا تفصیلی دورہ کیا جائے اور صوبہ سرحد کے AGGکو وزیرستان میں لوگوں کی ہمدردیاں اور آزادی پسندوں کو کچلنے کے احکامات دیئے گئے ۔ مسٹر Dhobb 31اگست تکAGGرہے اور اس کے بعد سیکریٹری فارن آفس انڈیا میں تعینات ہوئے۔ اس کے بعد 3ستمبر 1919کو AGGکا چارج مسٹر کرنل اے بی ڈیو (Col. AB. Dev) نے سنبھال لیا۔ یہاں یہ ذکر بے جانہ ہوگا کہ جس طرح واضح طور پر Under Balochistan Agencyکی شائع شدہ رپورٹ سال 1919-20 میں Appendix.IVکے ژوب ڈسٹرکٹ کے صفحہ 13میں پیراگراف 3اور پیراگراف 4واضح کرتا ہے کہ مقامی آبادی نے وزیر ، محسود افغان آزادی پسندوں سے متاثرہ ہو کر مکمل بغاوت کو اختیار کرلیا تھا کیونکہ اُن کو اطلاع تھی کہ آئندہ 24گھنٹوں میں وزیروں اور محسودوں کا لشکر ژوب شہراور چھاؤنی پر حملہ آور ہورہا ہے جہاں پر مقامی آزادی پسند ، غازی ازمیر خان ، سردار شیرک خان ،مشو خان شیرانی اُن کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔ پیرا گراف نمبر 14بلوچستان ایجنسی 1919-20میں اس طرح بیان کیا گیا ہے جب سب شیرانی ، عبداللہ زئی اور مندوخیل قبائل ( کبزئی کے صرف چند ایک ) نے انگریزوں کے خلاف کھلی جنگ کے نام پر لڑائی شروع کر دی اوراُس وقت تک لڑتے رہے جب تک فرنگیوں نے افغانستان سے امن کا معاہدہ نہ کیا اُس وقت چند ایک چالاک اشخاص نے بہترین وفاداری اور بہترین خدمات انجام دیں تاوقتیکہ لڑائی ختم ہوئی۔ ان میں سے شیخ باز گل خان کلی شیخان نے انگریزوں کی بہترین تابعداری اور خدمات انجام دیں ، ان بہترین خدمات کی مزید وضاحت نہیں کی گئی ہے مگر ژوب کے پرانے لوگ اچھی طرح باخبر ہیں کہ وہ بہترین خدمات کیا تھیں۔ محصور فرنگیوں کو کس نے پانی پلایا تھا۔ ایک میر جعفر نے ہی پی اے ژوب مسٹر جیکب کو مشورہ دیا تھا کہ غازی ازمیر خان اور اُن کے والد سردار اختر خا ن کو کسی بھی طرح افغانستان میں آباد نہ ہونے دیا جائے اور ہر قیمت پر اُن کو افغانستان میں آباد ہونے سے روکا جائے ورنہ فرنگی کبھی ژوب میں چین سے نہیں بیٹھ سکتے اور نہ کبھی یہاں امن آئے گا۔ پی اے ژوب کو یہ مشورہ دیا گیا کہ ایرب زئی مندوخیل کے ذریعے ہی بات ہوسکتی ہے جو کہ رشتہ میں سردار اختر خان کے داماد تھے ۔ اگراُن کو انعامات اور لالچ دی جائے تو وہ فرنگیوں کی خدمات سرانجام دینے کے لیے تیار ہوگا اور یہ کام اُسی میر جعفر نے ہی اپنے ذمے لے لیا تھا۔ افغانستان سے امن معاہدے کے بعد ستمبر کے مہینے میں AGGمسٹرA. B Dhobbنے ژوب دورہ کیا ۔ ایک اعلیٰ سطحی وفادار جرگہ ممبران کے ساتھ۔ جہاں مقامی آزادی پسندوں کو اس جرگہ نے اُن کی غیر حاضری میں مختلف سزائیں سنائیں وہاں ہندو دکانداروں اور حکومت کے دیگر مخبروں اور وفاداروں کو سرکار انگریز کی حمایت کرنے پر ہر طرح کی مالی امداد اور انعامات سے نوازا گیا۔ اسی میر جعفر کووفاداروں کے اجلاس یا جرگہ سے خطاب بمقام شینہ باغ ژوب انعامات اور خان بہادر کا لقب بھی عطاکیا ۔ اسی جرگہ میں مسٹر Dhobbنے اعلان کیا کہ ازمیر خان ، سردار شیرک خان ، مشو خان شیرانی ، رئیس قائم خان ، صوبیددار خان محمد ولد شادی خان ، جمعدار موسیٰ خان ولد مرحوم خانصاب تاندے خان کو جلد ہی عبرت کا نشان بنایا جائیگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جلد سردار شیرک خان ، مشو خان اور ازمیر خان کو زندہ یا مردہ انگریز سرکار کے سامنے پیش کر دیا جائے گااور ژوب کے لوگوں کو بتایا جائیگا کہ تاج برطانیہ سے بغاوت کی کیا سزا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں نے پی اے ژوب مسٹر جیکب سے بات کر لی ہے کہ اِن کو ایسی سزا دینی ہے کہ آئندہ ایسی جرا ت کوئی نہ کرے ۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *