Home » پوھوزانت » از میر خان مندوخیل ۔۔۔ منور خان مندوخیل

از میر خان مندوخیل ۔۔۔ منور خان مندوخیل

غازی ازمیر خان شہید نے 1893میں مندوخیل قبیلہ کے سید ال خیل کے خانصاب اختر خان کے گھر آنکھ کھولی۔ خان صاحب ا ختر خان کو خان صاحب کا خطاب امیر افغانستان حبیب اللہ خان نے کابل میں اُن سے پہلی ملاقات میں عطا کیا۔ اس موقع پر امیر افغانستان حبیب اللہ خان نے اُن کو اپنی ذاتی بندوق (ایک فائر کرنے والی بولٹ ایکشن والی جرمن بندوق جو کہ جرمنی کے حکمران نے اُن کو تحفہ میں دی تھی) سردار اختر خان کو تحفہ میں دے دی۔ یہی بندوق سردار اختر خان مندوخیل نے سبی دربار کے موقع پر 1915 میں نواب محراب خان بگٹی (نواباکبر خان بگٹی کے والد محترم ) کو تحفہ میں پیش کی تھی اور نواب محراب خان نے اُن کو دو عدد گھوڑے تحفے میں دیئے تھے اور وہ دونوں پگڑ بدل بھائی بنے تھے ۔ سال 1917 میں سبی دربار کے موقع پر ان دونوں حریت پسند پگڑ بدل بھائیوں نے وائسرا ئے ہندسے شاہی بگھی میں بیٹھ کر ہاتھ ملانے سے ا نکار کیا تووائسرائے ہند کے غیض و غضب کی انتہا نہ رہی اور دو نوں سے AGGکے ذریعے کہا گیا کہ تاج برطانیہ کی بے عزتی کی گئی ہے اور اِ ن دونوں حریت پسندوں کوعبرت کا نشان بنایا جائے گا اور بعد میں وہی ہوا جس کی دونو ں کو دھمکی دی گئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ سردار اختر خان کی یہ تحفہ میں دی گئی بندوق نواب اکبر خان بگٹی کے قلعہ ڈیرہ بگٹی سے آپریشن کے وقت نکال کر ضبط کی گئی ہے جس کی تصدیق نہ ہوسکی ہے ۔
جب وزیرستان اور افغانستان کے قبائل آئے روز وارداتوں اور لوٹ مار سے مندوخیل ، کاکڑ ، لوونڑ ، بابڑ اور شیرانی تنگ آگئے تو مشترکہ طور پر مقامی قبائل نے مشورہ کے بعد انگریزی حکومت کو کوئٹہ آکر دعوت دی کہ وہ ژوب آکر اپنی حاکمیت قائم کردے ۔ اِ ن شرائط پر کہ مقامی قبائل کے جان ومال کی حفاظت کے جائے گی اور اُن کے رسم ورواج کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائیگا۔ اس کے بدلے مقامی قبائل انگریزی حکومت کے ساتھ بھر پور تعاون کریں گے جس کا مقصدافغان قبائل اور وزیراور محسود سے سرکاری تحفظ درکار تھا ۔لہذا انگریزوں نے پہلی بار 1887 میں ژوب آکرٹینٹ لگا کر حکومت ہند کی عمل داری شروع کی ۔ ژوب ملیشیاء اور ژوب لیویز قائم کیے گئے تاکہ امن وامان قائم کیا جاسکے اور قبائل کو سرکاری نوکری دی جائے ۔ سامراجی ذہن والے فرنگی کہاں معاہدوں کی پاسداری کرتے تھے اُن کا فلسفہ تو یہی تھا کہ معاہدے کئے جائیں اور پھر فریق ثانی کو اتنا تنگ کیا جائے کہ وہ مجبور ہو کر معاہدوں کو توڑنے لگے تو فرنگی اُن پہ معاہدوں کی خلاف ورزی کا الزام لگا کر اُن کی سر کوبی کرسکیں۔ 1899میں انگریزوں نے اپنے کئے ہوئے معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ژوب شہر جو کہ اُس وقت فورٹ سنڈیمن کے نام سے مشہور تھا انگریزوں کے ایک مشہور مخبر جو کہ صوبہ سرحد سے یہاں آکر آباد ہوا تھا کو افغانستان کی 2عدد تو پوں سے متعلق جو کہ کابل شہر کی حفاظت کے لئے پہاڑ پر نصب تھیں کی مخبر ی کے لئے پیر بنا کر روانہ کیا گیا۔اس صاحب نے مکاری سے اپنے سینے پر پلا سٹر آف پیرس لگا کر اوراُن اسلامی توپوں کو چومنے کا ڈرامہ رچایا تاکہ اُن کا Diameterمعلوم کر سکیں پھر اُن کے متعلق مواد جمع کر کے لوگوں کے بقول قرآن پاک میں چھپا کر کوئٹہ لایا گیا اور AGG دفتر میں داخل کرایا گیا ۔ انگریزوں کی خوشی کی انتہا ء نہ رہی ۔اِن توپوں میں سے ایک اب لاہور کے شاہی قلعہ کے عجائب گھر میں میں دستیاب ہے جو کہ امیر شیر علی خان کے زمانے کی تھیں ۔ انگریز AGGنے اِس مخبر سے پوچھا کہ انعام میں کیا چاہتے ہو تو اُس نے ژوب شہر میں جائیداد اور ایک بازار حسن بنانے کے لئے پر مٹ کی خواہش ظاہر کی جو کہ اُن کی فطرت کے عین مطابق تھا۔ انگریزوں نے اُسے پرمٹ /لائسنس عطا ء کیا اور اس کی تعمیر شروع کی گئی ۔ ساتھ ہی شہر کی ایک پہاڑی پر پھانسی گھاٹ کی تعمیر شروع کی گئی ۔ قبائل کو اِن فرنگی اقدامات سے آگ لگی ، ہر طرف نفرت بڑھنے لگی اور شور شیں برپا ہوئیں ۔ قبائلی سرداروں نے سردار اختر خان مندوخیل کی دعوت پر ایک مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے کا معاہدہ کیاگیا ۔ نواب بنگل خان جو گیزئی ، سردار شیرک عبداللہ زئی ، سردار پاندڑ کبزئی ، سردار سلیم خان بابڑ، سردار شیر خان مندوخیل ( جو کہ سردار اختر خان کے بھتیجے اور داد کرم کے بیٹے تھے) اور شیرانی کے خانوں نے مل کر سردار اختر خان سے کہا کہ ایسے اقدامات کئے جائیں کہ انگریز خود مجبور ہو کر مذاکرات کی دعوت دے۔ نواب صاحب بنگل خان جو گیزئی نے سردار اختر خان پر بھروسہ کرتے ہوئے یہ کہا کہ چونکہ فورٹ سنڈیمن مندوخیل قبیلہ کی زمینوں پر بسایا گیا ہے۔لہذا یہاں پر تعمیر ہونے والے بازار حسن اور پھانسی گھاٹک کے خلاف سردار اختر خان مندوخیل کا رروائی کریں گے باقی سردار ، خان اور ملک اُن کا ساتھ دیں گے۔ سردار اختر خان کو ملک دادان خان اپوزئی کی بھی بھر پور تائید اور حمایت حاصل تھی۔ پھر سردار اختر خان نے اپنے آدمیوں کی مدد سے گیر یژن انجینئر جو کہ انگریز تھے اور اُن کے سکھ گار اور ہند وڈرائیور کو سری توئی ندی میں موت کے گھاٹ اتارا جو کہ سمبازہ اور گل کچھ کے Fortsبنانے کی نگرانی کے لئے جارہے تھے۔ نہ صرف موت کے گھاٹ اتارا بلکہ لاش کی جان بوجھ کر بے عزتی کی گئی ۔ حالانکہ اُن کا قیمتی 38بور کار یوالور تک نہ لے گئے تاکہ اِس کو چوری یاڈکیتی کا نام نہ دیا جاسکے ۔ انگریزوں نے نواب بنگل خان جو گیزئی کی سربراہی میں تمام قبائل ژوب کے سرداروں اور ملکوں کو بلایا کہ معاہدہ کی خلاف ورزی کر کے سڑک پر انگریز انجینئر ، اُن کے گارڈ اور ڈرائیور کو کیو نکر قتل کیا گیا۔ نواب جوگیزئی کی سربراہی میں ژوب کے سرداروں نے AGGسے ژوب میں پولٹیکل ایجنٹ قلعہ بمقام پہاڑی ( موجودہ پولیٹکل ایجنٹ کے دفتر میں) میں انتہائی غصے اور کرب کے عالم میں ملاقات کی۔ نواب بنگل خان نے تدبر سے AGG کو قبائل کی طرف سے اشتعال کی وجوہات سے آگاہ کیا کہ ژوب شہر میں بازار حسن اور پھانسی گھاٹ بنانے کو قبائل پسند نہیں کرتے اور اگر یہ نہ روکے گئے تو مزید بغاوت ہوسکتی ہے ۔ AGG نے نواب صاحب اور باقی سرداروں سے کافی بحث ومباحثہ کے بعد اُن سے 10دن کی مہلت طلب کی تاکہ وہ وائسرائے کو اپنی سفارشات منظوری کے لئے بھجوا کر منظوری لے سکیں۔ 10دن کے بعد اُن قبائلی سرداروں کو نواب صاحب کی سربراہی میں دوبارہ بلایا گیا اور اُن کو بتایا گیا کہ وائسرائے نے AGG کی سفارشات منظور کر لی ہیں۔ بازار حسن اور پھانسی گھاٹ بند کرائے گئے۔ یہ تعمیر شدہ بازار حسن آج بھی شہر کے وسط میں پیر غفور شاہ روڈ پر واقع ہے۔ جس میں کرایہ دار لوگ رہ رہے ہیں ۔ AGGنے نواب بنگل خان اور دیگر سرداروں سے کہا کہ آپ کے اپنے رواج کے مطابق اِ ن تینوں افراد کے قتل پر جرگہ قائم کیا جائیگا اور رواج کے مطابق اِس جرگہ کا فیصلہ حکومت ہند اور ژوب کے قبائل کو قابل قبول ہوگا۔ اِ س جرگہ میں نواب محراب خان بگٹی اور سردار اسکان خان ترین نے مندوخیل قبیلہ پر 18000روپے رائج الوقت خون بہا اور جرمانہ عائد کیا کیونکہ قتل مندوخیل کے علاقے میں ہوئے تھے۔مندوخیل قبیلہ کو 3سال میں ادائیگی کا پابند کیا گیا ( اُس وقت کے 18ہزار آج کے 18کروڑ سے زیادہ بنتے ہیں)۔سردار شیرک خان عبداللہ زئی، سردار پاندڑ خان کبزئی، شیرانی کے خانوں او رخود نواب بنگل خان نے بھی اس ادائیگی میں مندوخیل قبیلہ کے مال مویشیوں کے ذریعے مالی مددکی۔
سردار اختر خان مندوخیل کے دل میں اُسی وقت سے فرنگی حکمرانوں سے نفرت کی آگ بھڑک اٹھی اور وہ دل ہی دل میں فرنگیوں کے خلاف منصو بے بناتا رہا ۔ نواب محراب خان بگٹی بھی فرنگیوں سے سخت نفرت کرتے تھے شاید دونوں اسی بات پر پگڑ بدل بھائی بن گئے تھے۔
سردار اختر خان مندوخیل نے کئی بار کابل جا کر والئی افغانستان حبیب اللہ خان سے سردار شہاب الدین خان ( تمام خلجی اقوام کے سب سے بڑے سردار ) کے ہمراہ ملاقات کی کہ شاید وہ انگریزوں سے جہاد کرنے پر راضی ہوں۔ مگر جب ریشمی تحریک کے دوران امیر حبیب اللہ خان نے افغانستان سے روانگی اور صوبہ سرحد پہنچنے پر سید احمد شہید اور ردیگر حریت پسندوں کی اطلاع فرنگی حکومت کودی اور اُن کو سخاکوٹ میں اپنے ساتھیوں سمیت شہید کیا گیا تو سردار اختر خان والئی افغانستان حبیب اللہ خان سے بد ظن ہوئے او رمزید بھروسہ کرنے پر تیارنہ ہوئے۔ وقت کا انتظار کرتے رہے اور قابل اعتماد ساتھی تلاش کرتے رہے ۔ حبیب اللہ خان کی وفات پر اُن کے فرزندامان اللہ خان ایک پیدائشی مجاہد اور انگریز سامراج کا دشمن نکلے جب غازی امان اللہ خان والئی افغانستان بنے تو سب سے پہلے امان اللہ خان نے ملا شور بازار کے ذریعے تفتان سے چترال تک سرداروں ، علماء اور خوانین کو انگریز سے بد ظن کرنے کا Taskدیا گیا۔ سردار اختر خان مندوخیل نے اپنے فرزنداز میر خان کے دل ودماغ میں بھی انگریز حکمرانوں سے نفرت پیدا کی کہ فرنگی ہمارے دین اور رواج کے دشمن ہیں وہ غاصب ہیں۔ ہم خود معاہدہ کے تحت اُن کو یہاں لانے پر راضی ہوئے۔ اب وہ اِن معاہدوں کے پابند نہیں بلکہ وہ قبائل کو دست وگریباں کرنا چاہتے ہیں۔ملا شور بازار سے بھی وہ رابطے میں رہے سب سے پہلے انہوں نے اپنے بیٹے کو تعلیم دلوائی۔ ازمیر خان نے ژ و ب مڈل سکول سے سال 1909میں مڈل پاس کیا ۔ مڈل کے بعد مزید پڑھائی ژو ب میں ممکن نہ تھی۔ اس طرح ژوب میں سب سے پہلے ازمیر خان ولد سردار اخترِ خان نے ہی 1909میں مڈل پاس کیا ۔ پھر والد کی رضامندی سے ہی ژوب ملیشیا ء میں ملازمت اختیار کی تاکہ جنگی حکمت عملی سیکھ سکیں۔ فرنگی حکمرانوں کی عیاری سے واقف ہوں اور ژوب چھاؤنی میں رہ کر اُن کی کمزوریوں سے واقف ہوں۔ ازمیر خان نے نہایت قلیل عرصے میں اپنی اہلیت اور خاندانی شجاعت کا لوہا منوایا ۔ حکام کو یہ بات جلد سمجھ آگئی کہ اِس بہادر نو جوان کو افغانی سرحد کے ساتھ قلعہ جات میں باری باری تعینات کیا جائے کہ وہ افغان ڈاکوؤں اور وزیرستان سے ژوب میں وارداتیں کرنے والوں کا محاسبہ کر سکیں۔ اسی لئے سرحدی قلعہ جات گل کچھ ، سمبازہ ، شین بازئی ، میر علی خیل اور قمر الدین کا ریز کے مقام پرباری باری اُن کی تعیناتی کی گئی جہاں پر از میر خان نے مثالی امن وامان قائم کیا جس کی بدولت وہ ژو ب ملیشیاء کے صوبیدار بنائے گئے۔ ازمیر خان کی بہادری ، دیانت داری اور کار کردگی سے فوجی اور سول فرنگی حکام بے حد متاثر ہوئے۔ اُن کا خاندانی پس منظر بھی اُن کے سامنے تھا جس کی وجہ سے اُن کو عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ۔ حالات اِس نہج پر جار ہے تھے کہ ہر طرف قبائل میں فرنگیوں کے خلاف نفرت پھیل رہی تھی کہ 1919میں افغان امیرامان اللہ خان نے استقلال اور جنگِ آزادی کا اعلان کر کے انگریزوں کی استعماری قوت کو اللکار ا۔ امیر امان اللہ خا ن نے اپنے عوام اور علماء کے ذریعے انگریزوں کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا اور سرحد کے اِس پار کے قابل بھروسہ اور آزادی کی تڑپ سے سرشار سردار وں سے مدد کی اپیل کردی۔ لہذا نہ صرف افغانستان بلکہ سرحد اور بلوچستان کے عوام نے بھی انگریزوں کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا اور افغانستان کے مجاہد ین کا ساتھ دیا۔ انگریزوں کے سامنے ایک طرف افغان فوج جرنل نادر خان کی کمان میں افغان مجاہدین اور دوسری طرف دیگر قبائل کے سرداروں سے رشتے قائم کر کے بااعتماد لوگوں کی مدد سے انگریزوں کے خلاف بھرپور جنگ کی منصوبہ بندی کرتے رہے ۔ سردار شہاب الدین خان سلیمان خیل( جو کہ تمام خلجی اقوام کے متفقہ بڑے سردار تھے) کی بیٹی سے اپنے بیٹے ازمیر خان کی شادی1913میں کروائی ۔ اسی طرح سردارشیرک خان کی بیٹی سے اپنے بیٹے وزیر خان کی شادی کروائی اور اپنی بیٹی کا رشتہ سردار شیرک خان کے بیٹے حمزہ خان سے کرادی تھی۔
جب ر وزیر محسود قبائل نے وزیرستان کے مرکز وانا پر حملہ کر کے قبضہ کیا تو انگریز آفیسران جان بچا کر بھاگ کر ضلع ژوب کی سرحدی پوسٹ گل کچھ پہنچ گئے۔ اِن دونوں ازمیر خان ایک اور سرحدی قلعہ گستوئی میں تعینات تھے۔ انگریز آفیسر ان دوسرے ہی دن گل کچھ سے گستوئی پہنچے اور ازمیر خان سے تفصیلی ملاقات کی۔ دراصل انگریز آفیسر ان کرنل اور دو کپتان چاہتے تھے کہ ازمیر خان اپنے سسر سردار شہاب الدین پر دباؤ ڈالیں کہ وہ سلیمان خیل اور دیگر خلجی اقوام کے انقلابیوں کو جہاد سے روکیں جس کے بدلے سردار شہاب الدین کو مراعات دی جائیں گی۔ ازمیر خان کو راتوں رات گستوئی میں ترقی دیکر صوبیدار میجر بنایا گیااور وانااور گل کچھ سے آئے ہوئے سپاہیوں سے اُن کو سلامی دلائی گئی۔ دو دن کے توقف کے بعد انگریز آفسر ان نے حالات کا جائزہ لیا۔ ازمیر خان سے کہا گیا کہ اپنے رشتہ دار اور قابل بھروسہ سپاہی شہاب الدین کو سردار شہاب الدین کو پیغام کے لئے روانہ کرے ۔ ا زمیر خان نے شہاب الدین کے ذریعے اپنے سسر شہاب الدین کو پیغام بھیجا کہ جتنی جلدی ہوسکے مجاہدین گستوئی پر حملہ کردیں ۔ ہماری طرف سے اُن سے بھرپور تعاون کیا جائیگا۔ اگلے روز شہاب الدین نے آکر بتایا کہ لشکر راستے میں ہے اور عنقریب گستوئی پر اور گل کچھ پر وزیراور محسود حملہ کرنے والے ہیں۔ خفیہ پیغام ازمیر خان کو بھجوایا گیا کہ قلعہ جات خالی کر کے اسلحہ اور راشن ہمارے حوالے کیا جائے۔ ازمیر خان سے ا نگریز آفیسران نے بار بار میٹنگ کی اور اگلے لائحہ عمل کے متعلق پوچھا ۔ دراصل وہ ازمیر خان کے بارے میں تذبذب کا شکار ہوگئے۔ ازمیر خان نے فرنگی آفیسران سے کہا کہ یہ قلعہ جات غیر محفوظ ہیں اور اِ ن کو جلد سے جلد خالی کر کے سرعت سے میر علی خیل کے قلعے میں پنا ہ لی جائے جہاں سرکاری سپاہ کی تعداد زیادہ ہے۔ انگریز آفیسران حواس باختہ تھے۔ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق وہاں سے کوچ کر کے اپنے سپاہیوں کے ساتھ میر علی خیل آگئے ۔ میر علی خیل پوسٹ پر انگریز آفیسروں سے ملاقات کے بعد جب ازمیر خان اپنے کمرے میں سونے کے لئے گئے تو اپنے رشتہ دار سپاہیوں کو بلا کر اپنے ارادوں سے اُن کو آگاہ کیا کہ میں نے آج سے جہاد کا فیصلہ عملی طور پر کر لیا ہے جس کے لئے میں نے برسوں تک انتظار کیا۔ اُن کے قر یبی رشتہ دار شہاب الدین نے تجویز دی کہ سردار اختر خان کو بھی جلدسے جلد مطلع کر نا چاہیے تاکہ وہ عورتوں ، بچوں اور دیگر رشتہ داروں کے ہمراہ سرحدی مقام پر باحفاظت منتقل ہوں تا کہ انگریزی فوج کی بربریت کے شکار نہ ہوں۔ خفیہ طور پرشہاب الدین کو روانہ کیا گیا کہ سردار اختر خان کو اصل صورت حال سے باخبر کیا جائے۔ اپنی حکمت عملی اور دانائی سے شہاب الدین نے سردار اختر خان کو ازمیر خان کا پیغام پہنچایا۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *