Home » پوھوزانت » پدرسری نظام ۔۔۔ نورین صلاح الدین

پدرسری نظام ۔۔۔ نورین صلاح الدین

قدرت ہمیں مرد اور عورت بناتی ہے جبکہ معاشرہ ہم میں مردانہ خصوصیات (Masculine) اور زنانہ خصوصیات (Feminine) پیدا کرتا ہے۔ Musculanityجسمانی نہیں بلکہ یہ وہ طریقہ اور سوچ ہے جو معاشرہ واضع کرتا ہے ۔ مردانگی (Masculininty) کو مختلف معاشرے مختلف طرح بیان کرتے ہیں ۔ مردانگی کے لیے لغت میں جو لفظ ہیں وہ طاقت ور ، بہادر ، مضبوط،بولڈ ، Macho اور جری ہیں۔ Masculineکا الٹ Feminine ہے ۔ گویا یہ ایک دوسرے کا عکس ہیں اور یہ معاشرے نے بنائے ہیں۔ دنیا میں ساڑھے تین بلین مرد ہیں ، ہر ایک دوسرے سے فرق ہے مگر پدرسری سوچ کہتی ہے کہ تمام مردوں کو ایسا ہونا چاہیے یعنی اُن کو طاقتور، بہادر ، مضبوط ہونا چاہیے۔ جبکہ تمام عورتیں نازک ، حساس ، جذباتی اور کم عقل ہوتی ہیں۔
مردانگی اور نسوانیت کوئی ایک مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک مسئلے کی وجہ سے ہیں اور وہ مسئلہ پدرسری رویے اور سوچ پر مبنی ہے ۔ یہی سماجی تقسیم کا باعث ہے ۔ جیسے ذات ، برادری ، رنگ ونسل ، لسانی اور علاقائی بنیادوں پر انسانوں اور انسانی سماج کو بانٹ رکھا ہے، ویسے ہی پدرسری نظام کا یہ سب کیا دھرا ہے ۔ یہ ایک سماجی نظام ہے جو کہتا ہے کہ مرد اعلیٰ ہے ۔ عورت مردوں کو پیدا کرتی ہے ۔ لیکن عورت کو ہی کمتر سمجھا جاتا ہے ۔ کہا جاتا ہے برہمن برہمن کے سر سے نکلے ہیں ، شود ر پیر سے نکلے ہیں حالانکہ سب انسان ایک ہی طرح سے پیدا ہوئے ہیں ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ پدرسری نظام مرد کو حاکم مانتا ہے جس میں مرد کے پاس تمام وسائل پر اختیار ، فیصلہ سازی کا اختیار حتیٰ کہ عورت کی نقل وحرکت اور سوچ پر کنٹرول کا اختیار بھی ہے ۔ یعنی عورتیں کیا مانیں گی، کیا سو چیں گی ، کیسے سوچیں گی، کہاں جائیں گی ، کیا پہنچیں گی، کیسے رہیں گی ، کس سے علاج کرائیں گی ، تعلیم حاصل کریں گی اور ملازمتیں کریں گی یا نہیں ، کس سے شادی کریں گی ، کب کریں گی وغیرہ وغیرہ وہ مرد طے کرتا ہے ۔ پدرسری نظام کی وجہ ہی سے معاشرے نے فیصلہ کیا ہے کہ عورت ایسی ہوگی مرد ایسا ہوگا۔ طاقتور تمام لوگ مرد ہیں اور کمزور تمام عورتیں ۔ جینڈر کا مطلب عورت نہیں بلکہ اس سے مراد دونوں اصناف ہیں۔ جینڈ ربتا تا ہے کہ تم لڑکی ہو ،تم نے یہ یہ کرنا ہے۔ اور تم لڑکے ہو تم نے یہ یہ کرنا ہے۔جینڈ ر دونوں کے لیے ہی جیل بناتا ہے ۔ مرد پر معاشرے کا زیادہ کنٹرول رہتا ہے۔ وہ کالے ، براؤن رنگ کے ہی پہن سکتا ہے ، لڑکا رو نہیں سکتا ، باپ بولتا ہے کہ باہر سے جاکر سگریٹ لے آؤ ، وہ بولتا ہے اندھیرے سے ڈر لگتا ہے ۔ باپ اُسے ڈانٹتا ہے اور زبردستی بھیجتا ہے کہ مرد ڈرپوک نہیں ہوتے۔
مرد بہت جذباتی ہوتا ہے ، پر آہستہ ہستہ اُس کے اندر سے یہ جذبات ختم یا کم کردئے جاتے ہیں ، لڑکے کو دو تین سال کی عمر سے ہی کھلونا بندوق دے دی جاتی ہے ، اُن کے سارے کھیل مقابلہ بازی یعنی ہار اور جیت پر مبنی ہوتے ہیں جبکہ لڑکیوں کے تمام کھیل تعاون والے ہوتے ہیں۔ پندرہ سے سولہ سال کی عمر کے لڑکوں کے گروپ میں اگر کوئی لڑکا سگریٹ نہ پیئے تو باقی لڑکے اُس پر ہنستے ہیں کہ تم لڑکے ہو یا لڑکی ۔ گویا ان میں آہستہ آہستہ غصیلہ پن پیدا کیا جاتا ہے۔ قدرت نے نہیں کہا کہ عورت ہی کھانا پکائے گی، گھر میں جھاڑو لگائے گی، عورت ہی بچوں کو پالے گی، یہ سماج نے کہا۔اس کا مطلب قطعاً یہ نہیں کہ تمام عورتیں مردوں کی طرح ہوجائیں یا مرد عورتوں طرح بن جائیں ۔مقصد برابری ہے ، ایک جیسا بننا نہیں ۔ عورتیں مردانہ ہوسکتی ہیں اور مردوں میں بھی نسوانیت ہوسکتی ہے ۔ گویا مرد انگی اور نسوانیت دونوں سماجی خصوصیات ہیں جو کہ کوئی بھی رکھ سکتا ہے ، جیسے کہ ، صوفی ، درویش مرد تھے ، جن کے رویوں سے مردانگی نہیں ممتا ٹپکتی تھی۔ ان میں عورتوں ہی کی طرح ہمدردی ، رحم دلی ، برداشت ، صبر اور محبت کا جذبہ پایا جاتا ہے ۔
پوری دنیا میں تقریباً 50%مرد ہیں اور 90%مرد پوری دنیا کی پارلیمنٹری سیٹوں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ 95سپریم کورٹ کے جج ہیں ۔ زیادہ تر اعلی عہدوں پر مرد فائزہیں ۔ دنیا میں ہونے والے تمام کام کا 66%عورتیں کرتی ہیں۔ گھر کا کام تو گھر پہ ہوتا ہے وہ تو مفت ہے ، جو کام وہ باہر جاکر کرتی ہیں اُنہیں اُس کے پیسے ملتے ہیں اور یہ معاوضہ مردوں کی نسبت خواتین کو کم ملتا ہے ۔ دنیا میں جائیداد کے صرف 1%کی مالک عورتیں ہیں۔ مرد دفتر میں 8گھنٹے کام کرنے کے بعد اتنا تھک جاتا ہے کہ آتے ہی اُسے خدمت چائیے۔ وہیں عورت بھی کام کر کے آتی ہے تو آتے ہی کچن میں کام کرنے لگ جاتی ہے اور چھٹی والے دن گھر کا کام ڈبل ہوجاتا ہے ۔یہ وہ فائدے ہیں جو مرد اپنی مردانگی سے اُٹھاتا ہے ۔
مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ اس کے نقصانات بھی بھگت رہا ہے جس کا اُس کو احساس ہی نہیں ہوپاتا ۔ آج دنیا کو جو بھی خطرات لاحق ہیں اُن کے پیچھے جارحانہ مردانگی (ایگرسیومیسکولینٹی) ہے ۔ دنیا میں سو فیصد مرد ہیں جو جنسی زیادتی کرتے ہیں۔ 99%مرد دہشت گرد ہیں، 95فیصدمرد ٹریفک کی خلاف ورزی کرنے والے ہیں۔ ہم فطرت کی پر واہ نہیں کرتے اس کے پیچھے وہی مردانہ سوچ ہے اور یہ سوچ عورتوں میں بھی ہے اور مردوں میں بھی ، اور اس کی وجہ جارحانہ مردانگی ہے ۔ یہ چیزیں دنیا کے لیے چیلنج بھی ہیں اور یہی ہمیں مل جل کر رہنے کی اجازت نہیں دیتیں۔
عورت نے پدرسری نظام کی وجہ سے بہت نقصان اُٹھایا ہے ،بہت مار کھائی ہے پر وہ اس کی ذمہ دار نہیں ہے، جبکہ مرد وجہ بھی ہے اور اس کا شکار بھی ہے ۔ جیسا کہ مرد کا جذبات سے رشتہ کا ٹ دیا گیا ہے اور مرد کو رونے نہیں دیا ۔ یہ جارحانہ مردانگی سب سے پہلے لڑکوں کے لیے ، مردوں کے لیے ، خاندان کے لیے ، معاشرہ کے لیے حتیٰ کہ پوری دُینا یا اس سیارہ کے لیے خطرناک ہے ۔ دوہاتھ مردو ں کے ہیں دو ہی عورتوں کے۔ قدرت نے یہ فیصلہ نہیں کیا کہ یہ کام مردوں نے اور یہ کام عورتوں نے کرنے ہیں ۔ عورتیں بھی ظالم ہوسکتی ہیں۔ جہاں طاقتور عورت باس کے سامنے مرد بھیگی بلی بن جاتا ہے وہی مرد گھر جاکر بیوی کے سامنے شیر بن جاتا ہے ، اِس کا قدرت سے کوئی لینا دینا نہیں ، اس کا تعلق سوچ سے ہے ،طاقت کے غلط استعمال سے ہے۔
غورکرنے کی بات ہے کہ جو مرد تشدد کرتا ہے ، اُس کا کتنا نقصان ہوتا ہے ، اُس کے اندر کا انسان مرجاتا ہے وہ انسانیت کھودیتا ہے ۔ دنیا میں جتنی جنگیں چل رہی ہیں اُن کے پیچھے یہی مردانگی ہے ۔ اگر گھروں او رسماج میں تشدد کو ختم کرنا ہے تو مردوں کو بدلنا ہوگا، اس کے لیے مردوں کو خیال رکھنے والے کاموں میں زیادہ سے زیادہ شامل کیا جائے جیسے بچوں کے خیال سے متعلقہ کام، بوڑھے لوگوں کا خیال رکھنا۔ ہتھیار اُٹھانے کا وقت ہی نہیں ملے گا۔ عورتیں بدلی ہیں اور بدل بھی رہی ہیں ۔ اب وقت آگیا ہے کہ مرد کو بدلا جائے جب تک وہ نہیں بدلیں گے ، برابری نہیں آئے گی۔ کملا بیسن کہتی ہیں کہ ’’اصل مردانگی یہ ہے کہ طاقت سے محبت نہ کرو بلکہ محبت کی طاقت کو سمجھو‘‘۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *