Home » پوھوزانت » ماما عبداللہ جان ۔۔۔ سرور آغا

ماما عبداللہ جان ۔۔۔ سرور آغا

بلوچستان میں نوشکی عجیب مردم خیز خطہ ہے۔ یہیں ملک الشعراء میر گل خان نصیر نے جنم لیا۔ یہی نوشکی میر آزاد جمالدینی، میر عاقل خان مینگل اور محترمہ گوہر ملک جیسے علم دوست شعراء اور افسانہ نویسوں کی جائے پیدائش ہے۔ اسی سرزمین نے مولانا غلام حیدر نوشکوی جیسا قوم پرست، مولانا محمد افضل اور مولوی عبدالمجید مینگل جیسے عالم فاضل اور حاجی صالح محمد جیسا مردِ درویش پیدا کیے۔ یہیں میں داناانسان چوہدری بھول چند سے روشناس ہوا ۔ اسی نوشکی میں دشنداس اور پربھداس میرے قریبی دوست بنے۔
یہیں ہمارے رہبر ماما عبداللہ جان 8 مئی1922 کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی دینی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی ۔ 1932 میں نوشکی پرائمری سکول میں داخل ہوئے۔ پرائمری میں اِن کے اساتذہ میں میر مٹھا خان مری اور ہاشم خان غلزئی جیسے باوقار اور علم دوست حضرات شامل تھے۔پرائمری سکول نوشکی سے سکالر شپ ملنے کے بعد سنڈیمن ہائی سکول میں داخل ہوئے جو کوئٹہ میں1935 زلزلے کی وجہ سے پشین منتقل ہوگیا تھا۔ یہاں علامہ عبدالعلی اخندزادہ کے بھتیجے عبدالصمد کے گروپ میں شامل ہوئے۔ یہیں ماما فکر اقبال اور شاعری سے ایسے متاثر ہوئے کہ زندگی بھر اقبال کے دامِ اثر سے نکل نہیں پائے۔ پشین ہی میں زندگی بھر کے ساتھی اور دوست سائیں کمال خان شیرانی اور ڈاکٹر خدائیداد سے تعلق بنا۔
1940 میں میٹرک کرنے کے بعد1941 میں سائیں کمال خان شیرانی کے ہمراہ اسلامیہ کالج پشاور میں داخلہ لیا۔ یہاں آسمان کا ایک درخشندہ ستارہ صاحبزادہ ادریس استاد کی صورت میں ان کو ملا۔ صاحبزادہ صاحب پشتو کے اچھے شاعر اور ناول نگار تھے ۔ ان دونوں شاگردوں کو گوہر بنانے میں اس عظیم استاد کا بڑا ہاتھ ہے۔1945 میں دونوں دوست گریجویشن کرکے واپس کوئٹہ آئے۔ کچھ ہی عرصہ بعد سائیں اور ماما نائب تحصیلدار بھرتی ہوئے۔ سائیں کی پوسٹنگ گلستان میں اور ماما کی تعیناتی نصیر آباد میں ہوئی۔ سالہا سال کے غور وفکر کے بعد ماما نے ایک واضح نظریہ اور سوچ اپنالیا۔ جو جدلیاتی مادیت اور طبقاتی جدوجہد پر مبنی تھا۔ سما ج میں اپنے فکر اور نظریے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے نوکری اُن کے پاؤں کی زنجیر تھی۔ ماما نے اس زنجیر کو کاٹنے میں دیر نہیں لگائی۔ سائیں کمال خان اور دوسرے دوست بھی اسی نتیجے پر پہنچے۔ بعد ازاں 1950 میں ماما سائیں کمال خان شیرانی اور ڈاکٹر خدائیداد نے اپنے دوسرے دوستوں کے ساتھ مل کر بلوچی سٹریٹ کوئٹہ میں ایک مکان کرایہ پر لیا۔ یہی مکان بلوچستان میں ’’ لٹ خانہ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ لٹ خانہ ترقی پسند ی اور روشن فکری کی پہلی درسگاہ بنی۔ دوستوں نے سورج گنج بازار میں ایک دکان کرایہ پرلی۔اس میں سٹیشنری کا سامان رکھا۔ نام تجویز ہوا۔’’ فی الحال سٹیشنری مارٹ‘‘ ۔ سکول کی کتابیں کاپیاں اور قلم پنسل کے ساتھ ساتھ یار لوگوں نے کارل مارکس ۔اینگلز،لینن ا ور دیگر انقلابی مفکرین کی کتابیں بھی رکھیں۔ تھوڑے عرصے میں کوئٹہ اور اطرف میں مشہور ہوا کہ ’’ فی الحال سٹیشنری مارٹ‘‘ پر مارکسسٹ لٹریچر بھی دستیاب ہیں۔ سرکار خواب غفلت سے بیدار ہوئی۔ فی الحال سٹیشنری پر چھاپہ پڑا او رتمام لٹریچر ضبط ہوا۔
1951میں ایک تنظیم ’’ بلوچی زبان و ادبئے دیوان ‘‘ بنی جس کے صدر گل خان نصیر اور جنرل سیکرٹری ماما عبداللہ جان بنے۔ اسی تنظیم کے پلیٹ فارم سے گل خان نصیر کا بلوچی کلام ’’ گل بانگ‘‘ شائع ہوا۔
روشن فکر اساتذہ کی تعلیم ،دوران نوکری سرکاری افسروں کی رشوت خوری اور جاگیرداروں کی کسانوں پر ظلم و جبر کا مشاہدہ ،اور لٹ خانہ میں مطالعۂ کتاب و دوستوں کے ساتھ تبادلۂ خیال نے ماما کو’’ کمیونسٹ‘‘ بتادیا۔ مقصد واضح تھا۔ سماج سے جاگیرداری ، غربت اور اونچ نیچ کا خاتمہ ہو۔ صنفی امتیاز نہ رہے۔ انسانوں کو آزاد فضا میں اپنی صلاحیتیں آگے بڑھانے کا موقع ملے۔
بیروزگاری اور تنگدستی نے ماما کو کراچی دھکیل دیا۔ جہاں سوویت انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں انہیں پروف ریڈر کی نوکری ملی۔بعد میں یہاں ماما رسالہ’’ طلوع ‘‘ کے 1970تک جوائنٹ ایڈیٹر رہے۔ طلوع کی جوائنٹ ایڈیٹری سے مستعفی ہوکر ماما دوبارہ عازم کوئٹہ ہوئے۔ یہاں بلوچی اکیڈمی سے منسلک ہوئے۔ ایک سال تک بطور ’’ ریسرچ سکالر‘‘ خدمات سرانجام دی۔
بلوچستان یونیورسٹی کے قیام کے بعد اس میں ’’مطالعۂ پاکستان‘‘کا شعبہ بھی بنا۔ جس کے تحت بلوچی، پشتو اور براہوئی زبانوں میں کلاسوں کا اجراء ہوا۔ ان زبانوں کے اساتذہ کے لیے ماما امیدواروں کی فہرست میں شامل تھے۔ رکاوٹ یہ تھی کہ ماما گریجویٹ تھے۔ جبکہ لیکچرار کے لیے تعلیمی معیار ماسٹر مقرر تھا۔ڈاکٹر عبدالمالک کاسی اس زمانے میں سنڈیکیٹ کے ممبر تھے۔انہوں نے دیگر ممبران پر واضح کیا کہ پشتو میں آپ کو پی ایچ ڈی مل جائینگے۔ لیکن بلوچی براہوئی کے لیے ماسٹرز کا ملنا دشوار ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ماسٹر کی غیر موجودگی سے خطے کی قومی زبانوں کو ترقی کا موقع نہ ملے۔ بہتر یہ ہے کہ بلوچی براہوی زبانوں میں تعلیم کے لیے اساتذہ کے تعلیمی معیار کو کم کیا جائے۔ سنڈیکیٹ کے دیگر ممبران بھی ڈاکٹر کے زور بیان سے متفق ہوئے۔ اس طرح ماما1971 میں بلوچستان یونیورسٹی میں بلوچی کے استاد مقرر ہوئے۔ماما نے بعد میں ماسٹر کیا۔
یہاں ضمناً یہ واقعہ بھی بیان کردوں کہ جئیند خان جمالدینی کا بڑا بیٹا جب پیدا ہوا تو وہ ماں کا دودھ پینے پر آمادہ نہیں تھا۔ والدین بچے کو ڈاکٹر عبدالمالک کے پاس جو اُن دنوں اپنے گھر میں پریکٹس کیا کرتے تھے،لے گئے۔ ڈاکٹر صاحب بچے کو اپنی بیگم کے پاس لے گئے اور بیگم سے کہا ’’ بچے کو دودھ پلا کر دیکھو‘‘۔ فریدون نے پہلی مرتبہ ماں کا دودھ پیا۔ اس طرح ماما کا پوتا فریدون جمالدینی اور ڈاکٹر عبدالمالک صاحب کا بیٹا داود خان کاسی دودھ شریک بھائی بنے۔ آٹھ اگست2016 کو دہشت گردوں نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر وکیل بلا ل انور کاسی کو منو جان روڈ پر قتل کیا۔ جیسے دوسرے وکلاء کو اس واقعہ کی خبر ہوئی وہ خیریت معلوم کرنے سول ہسپتال کوئٹہ کے شعبہ ایمر جنسی کے باہر اکٹھے ہوئے۔ اس دوران دہشت گردوں نے اپنے ناپاک منصوبے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے خودکش دھماکہ کیا۔ دھماکے میں70 (ستر) افراد شہید ہوئے ۔ جن میں54 نامور وکیل تھے۔ فریدون جمالدینی کا دودھ شریک بھائی داؤد خان کاسی بھی اس دھماکے میں شہید ہوئے۔ سب شہیدوں کے درجا ت بلندہوں۔
ماما نے بطور استاد بلوچی زبان و ادب کی بڑی خدمت کی۔ انہوں نے بڑی جانفشانی اور محنت سے نوجوانوں کو بلوچی زبان و ادب کی طرف راغب کیا۔آج سینکڑوں ایسے حضرات موجود ہیں جن کو ماما کی شاگرد ی پر ناز ہے۔ ماما نے بلوچی میں بہت لکھا اور خوب لکھا۔
وہ آسان اور عام فہم بلوچی لکھتے رہے۔ ہمیشہ عوم کے لیے عوامی انداز میں لکھتے رہے۔ ماما کی تحریر کردہ کتابیں مندرجہ ذیل ہیں۔
-1 بلوچستان میں سرداری نظام۔-2 دیہات کے غریب (لینن کی کتاب کا ترجمہ)۔ -3 مرگ و مینا۔-4 لٹ خانہ۔-5 شمع فروزاں
مختلف موضوعات پر پمفلٹس اس کے علاوہ ہیں۔ ماما نے ادبی اور سیاسی شخصیات پر بھی لکھا۔ مثلاً غوث بخش بزنجو، شورش بابو، سوبھو ، میر مٹھا خان مری، پروفیسر کرار حسین، آزات جمالدینی، قاضی نذر الاسلام اور غلام محمد شاہوانی۔
ماما نے متعدد کتابوں پر بہت خوبصورت اور جامع تبصرے بھی لکھے۔ ماما کے اور بھی بہت سے مضامین ہیں جو ابھی زیورِ طباعت سے آراستہ ہونا باقی ہیں۔ کتاب بینی کا شوق دیوانگی کی حد تک تھا۔ بلوچی نثر و شاعری کے ساتھ ساتھ پشتو میں رحمان بابا اور بیٹ نیکہ بہت پسند تھے ۔ فارسی شاعری پر تو دل و جان سے فدا تھے۔ خاص کر حافظ شیرازی اور شیخ سعدی کے عاشق تھے۔ سنڈے پارٹی میں جب کبھی ڈاکٹر علی کمیل قزلباش، شاہ محمود شکیب اور ڈاکٹر بلال ساسولی جیسے فارسی دان موجود ہوتے تو ماما فارسی شاعری کے علاوہ اور کسی موضوع پر بولنے کے روادار نہ تھے۔ اردو میں اقبال اور فیض زیادہ پسند تھے۔ بلوچی میں شہ مرید اور مست توکلی کے گرویدہ تھے۔ بلوچی اکیڈمی کے چیئرمین رہے۔اکیڈمی ادبیات کے بورڈ آف گورنرز کے ممبر رہے۔ ماہنامہ ’’ سنگت ‘‘ کے تاحیات چیف ایڈیٹر اورسرپرست اعلیٰ رہے۔ انہیں1990 میں صدرتی ایوارڈ 1991میں نیشنل بک کونسل کا ایوارڈ اور1992میں باچا خان ایوارڈ ملا۔
ماما انتہائی برد بار اور وجیہ انسان تھے ۔ ملنسار اور ہنس مکھ۔ کبھی کسی کے بارے میں نہ برا سوچا نہ کیا۔ نظریاتی طور پر سچے اور سُچے کمیونسٹ رہے۔ نیشنل عوامی پارٹی کے پلیٹ فارم سے عملی سیاست میں حصہ لیتے رہے۔ لیڈر شپ سے ناراض بھی ہوئے اور بھرپور تنقید بھی کی۔ خود بھی سیاسی غلطیاں کیں۔ عمر بھر فرسودہ رسوم و رواج کے خلاف جدوجہد کی۔ صنفی امتیاز کے سخت مخالف تھے۔ معاشی انصاف اُن کا مشن تھا۔ انسان دوستی میں اُن کا کوئی نہیں ثانی نہ تھا۔ انہوں نے رنگ، نسل ، زبان اور عقیدے کی بنیاد پر کبھی کسی سے نفرت نہیں کی۔ کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ دوستوں کی پریشانی اور بیماری پر مضطرب ہوجایا کرتے۔ سنڈے پارٹی میں اُن کی خوشی دیدنی ہوتی۔
افسوس! حیات کو وفا نہیں ، ہر شخص زندگی کی سٹیج پر اپنا کردار ادا کرکے پردے کے پیچھے اوجھل ہوجاتا ہے۔ ماما بھی19 ستمبر2016 کی رات زندگی کی سٹیج پر 94 سال بہترین اور باوقار پرفارم کرکے ہم سے رخصت ہوگئے۔ ہمیں حوصلہ دینے والا اور محبت کرنے والا ہمارے سروں پر درخت کی طرح سایہ کرنے والا، ہمارا استاد رہبر یہ شریف النفس انسان ہم میں نہ رہا۔ ہمارا فرض بنتا ہے کہ غم و الم کے موقع پر مایوس اور گم کردہ راہ ہونے کی بجائے ماما کے فکر اور ادرشوں کو اپنی زندگی کا مشعل بنائیں۔ آئیے ہم سب عہد کریں کہ کبھی جھوٹ نہیں بولیں گے۔ کبھی کسی انسان سے رنگ ، نسل ، زبان اور عقیدے کی بنیاد پر نفرت نہیں کریں گے۔ انسانوں کے اخوت اور محبت کا پرچار کریں گے۔ ہم کو نفرت ہے جنگ سے قتل انسان سے جہالت سے اور خرد دشمنی سے۔ ہمارے اسی طرز عمل سے ماما ہمارے دلو ں میں زندہ رہیں گے اور آئندہ آنے والی نسلوں کے دلوں میں بھی ،تاقیامت ۔
اس موقع پر اس وفا شعار اور نیک سیرت خاتون کا ذکر نہ کرنا بے ادبی ہے جو 70 سال دکھ سکھ میں ماما کی ہمسفر رہی۔ مامی بہت ہی مہمان نواز اور محبت کرنے والی خاتون تھی۔
25 سال تک وہ جمعہ پارٹی بعد میں سنڈے پارٹی کی خدمت پسِ دیوار رہ کر کرتی رہی۔ دنیا میں بعض اوقات ایسے اتفاقات ظہور پذیر ہوتے ہیں جن پر دیو مالا کا شبہ ہوتا ہے۔ دیکھیے ایک کمرے میں ماما اس دارفانی سے رخصت ہوگئے۔ جبکہ دوسرے کمرے میں ماما کی موت سے بے خبر مامی موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا تھی۔ 20 ستمبر2016 کو علی الصبح ہم ماما کا جنازہ لے کر نوشکی کی طرف محوِ سفر تھے۔ لک پاس کے قریب اطلاع ملی کہ مامی بھی اس جہاں میں نہ رہی۔ اس طرح نوشکی کے کلی بٹو میں سینکڑوں انسانوں نے 2 جنازوں کا استقبا ل کیا۔قبرستان میں پہلو بہ پہلودو عظیم اور اچھے انسانوں کی تدفین ہوئی۔ شاید ایسے موقع کے لیے حافظ شیرازی نے کہا تھا۔
ہر گز نمیردآں کہ دلش زندہ شد بہ عشق
ثبت است بر جریدۂ عالم دوام ما

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *