Home » شونگال » مامی

مامی

2016-1930
مامی زبیدہ جان جمالدینی، فقیر جان اور محترمہ جہاں گل کی بیٹی تھی۔ لگ بھگ1930 کی پیدائش ہے۔ وہ پانچ بہنیں اور دو بھائی تھے۔وہ کلّی جمالدینی سے تعلق رکھتی تھی۔ ماماعبداللہ جان سے اُس کی شادی سولہ یا سترہ برس کی عمر کو ہوئی تھی۔ ان کی اولاد بالترتیب محترمہ نور جان، جئیند خان ، بالاچ ، دوستین، عابدہ، شمس النسا اور محترمہ سنگین ہیں۔
مامی نے ازادواجی زندگی کے تقریباً ستر (70)برس کا پہلا حصہ انتہائی سختی اور مشکل میں گزارا ۔ خاوند سیاسی سرگرمیوں میں ہمیشہ گھر سے باہر رہتا تھا۔ جیل، شاہی قلعہ اور لٹ خانہ اُسے گھر اور علاقے سے باہر رکھتے تھے۔ پھر روٹی روزگار کی تلاش میں وہ یہاں وہاں بھٹکتا رہتا۔
میاں بیوی کوساتھ رہنا تب نصیب ہوا جب خاوند کو کراچی میں روزگار کے امکانات میسر آئے۔ مگر یہاں بھی بہت کم آمدن کے ہاتھ تنگدستی حیات کو اجیرن رکھے تھی۔
خاوند کے انقلابی سیاسی خیالات مامی نے بھی اپنا لیے۔ میل جول بھی اُنہی افراد اور خاندانوں سے تھا جو انقلابی سیاست کرتے تھے۔ اس تبدیل شدہ جمالدینی خاتون کو ظلم اور غربت میں پسی ہوئی مخلوق کے ساتھ طبقاتی ہمدردی اور یکجہتی پیدا ہوتی گئی۔ یوں وہ خاوند کی سوشلسٹ تحریک کا حصہ بن گئی۔
سابقہ لٹ خانے کے لوگ تو فیملی کا حصہ ہی تھے۔ وہ اس گراں قدر و باوقار ساتھی کی بہت تکریم کرتے تھے۔ سائیں کمال خان شیرانی تو جب بھی عبداللہ جان سے ملتا تو احترام سے لبریز آواز میں پوچھتا’’ کامریڈہ کا کیاحال ہے‘‘؟۔ ہم عبداللہ جان کو ’’ ماما ‘‘ کہتے تھے۔ اسی نسبت سے محترمہ زبیدہ کو ’’ مامی‘‘ کہتے تھے۔
وہ ایک شکر گزار اورصابر خاتون تھی ۔ اولاد کی تعلیم یافتگی میں مامی کی محنتوں محبتوں کا بڑا ہاتھ تھا۔ وہ بیٹوں بیٹیوں اور اُن کی اولادو ں میں گھری رہنے کے باوجود خاوند اور اس کے دوستوں کی خدمت سے کبھی غافل نہ رہی۔ سراپا شفقت تھی۔ اسے انقلابی سیاست کی خوب شدبد تھی۔ وہ روایتی تعلیم تو حاصل نہ کرسکی ،محض اردو اخبار پڑھ سکتی تھی مگر آپ گفتگو کرتے تو وہ ایک باشعور سیاسی ورکر کی طرح سیاست کی موٹی موٹی باتیں وضاحت سے بیان کرتی۔ گھر میں ہمیشہ سے ایک جمہوری ماحول تھا۔ افراد ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے۔ ہر وقت ملکی اور بین الاقوامی سیاست پر باتیں ہوتی تھیں۔ بلوچی کلاسیکی ادب پر عالمی ادب کے تناظر میں بحث ہوتی تھی۔چنانچہ سار ی اولاد میں بھی ماں باپ کے سیاسی خیالات سرایت کر گئے ۔ انسان دوستی سرفہرست تھی۔ اُس پورے گھرانے میں ’’ غیبت‘‘ کا داخلہ ممنوع تھا۔ دل آزاری کفر تھی۔
مامی روایتی بلوچ عورت تھی۔ ملتی تو مخاطب کے گھر کی عورتوں بچوں کی خیریت پوچھتی ۔ کوئی بیمار ہوتا تو اُس کی خیریت اور تیماداری کو خود بھی جاتی اور ہر آنے جانے والے سے بھی پوچھتی رہتی۔ رشتہ دار خاندانوں کا خیال رکھتی۔ وہ اپنے محلے میں نیک اور صلح جو بزرگ خاتون کے بطور جانی جاتی تھی۔
وہ بہت خلاّق اور شیریں لسان تھی۔ خوبصورت رخشانی لہجے کی بلوچی بولتی تھی۔ اُس کی گفتگو عام بلوچ بزرگ عورتوں کی طرح باوقار تھی، اور بہت دلچسپ مقامی چٹکلوں اور مزاح سے بھرپور۔اس کا چہرہ ایک پُر شفقت ماں کا چہرہ لگتا تھا۔
’’کامریڈہ‘‘کو دمہ کا مرض تھا۔ ہر وقت سانس کی تکلیف میں رہتی تھی۔ ڈاکٹری نسخوں، رنگ برنگی ادویات اور انہیلروں سے ٹوکری بھری رہتی تھی۔ دمہ کی بیماری پہ جس قدر ہجو اور لعن طعن مامی کرتی تھی شاید ہی کسی اور نے کی ہو۔ وہ اپنی بیماری پہ خوب ہنستی تھی ۔معدے کے کینسر میں مبتلا عبدالرحمن پہوال جس طرح معدے کے خلاف بولتا تھا، مامی اس سے کئی گنا زیادہ پھیپھڑوں کی نا اہلی پہ پھبتیاں کستی تھی ۔ رخشانی بلوچی میں پھیپھڑے کو ’’ پُپ‘‘ اور دمہ کو ’’ ہیسک‘‘ کہتے ہیں۔ اور مامی اِن دوالفاظ کے خلاف ایک کتاب تک لکھ سکتی تھی۔۔۔۔۔۔ اور اس حوالے سے ڈاکٹروں کے خلاف بھی!!
اس بیماری نے اس کے آخری دو تین سال بہت عذاب کے سال بنا دیے۔ اوپر سے آخری چھ آٹھ ماہ ٹانگ کی ہڈی ٹوٹنے کے یکے بعددیگرے دو آپریشن ہوئے۔
جو معمر عورت گذشتہ ستر برس سے محبوب کی طرح کے اپنے خاوند کے ناز اٹھاتی رہی تھی، اب خود خدمت کی محتاج ہوکر رہ گئی۔ اسے اپنے جمہوری ، مساواتی اور انسان کی عزت کرنے والے خاوند سے بے پناہ پیار تھا۔ بیٹے جب اُسے کراچی علاج کی پیشکش کرتے تو اُس کا جانا پہچانا حسین ترین جواب یہ ہوتا ’’ تئی پسّا ایو کا نیلیں‘‘ ( تمہارے باپ کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتی) ۔
ہم دوست احباب بھی جب اس سے اصرار کرتے کہ ’’ ہمارے گھر چلیں، ہمارے بچے بہت یاد کرتے ہیں۔ انہیں ملو اور کھانا کھا کر واپس آجاؤ‘‘۔ تب بھی اُس کا یہی جواب ہوتا ’’ تئی ماما ایوکیں، مں آہتہ نہ کنیں‘‘( تمہارا ماما اکیلا ہوگا ، میں نہیں آسکتی)۔ حالانکہ گھر میں بیٹیاں ، بہوئیں اور پوتیاں نواسیاں موجود ہوتیں۔مگروہ بوڑھی خاتون اپنے بیمارخاوند کو آدھ گھنٹہ بھی اکیلا نہ چھوڑتی ۔
ماما کی گفتگو میں بھی ہمیشہ دو تین بار یہ لفظ ضرور ہوتا ’’ تئی مامی‘‘ نے یہ کہا، وہ کہا ۔۔۔۔۔۔‘‘ ۔ماما عام طور پر اُسے نو ر جانئے ماس ( نور جان کی ماں) کہہ کر پکارتا تھا اور مامی اپنے محبوب کو ’’نورجانئے پث ‘‘( نور جان کا باپ)کہہ کر پکارتی تھی۔بلوچی بولنے والے بچے اُسے ہمیشہ براہوئی لفظ ’’لُمہ‘‘ ( ماں) کہہ کر پکارتے تھے۔ ہماری تو وہ بس مامی تھی۔
19 ستمبر کو فالج کا بیمار اور چورانوے سالہ یادداشت و گویائی ترک کردہ خاوند ایک کمرے میں دنیا سے بے خبری کے ایک دو سال بعد موت کی آغوش میں تھا۔ تو ایک دوسرے کمرے میں خاوند کی موت سے بے خبر معمر بیوی آکسیجن چڑھے اور دھونکنی کی طرح تکلیف دِہ تنفسی عمل میں چار چھ کامریڈ ڈاکٹروں کی ہنگامی طبی امداد کو مسترد کرتی ،خاوند کاساتھ دے گئی۔ جیون ایک ساتھ، مرگ ساتھ۔۔۔۔۔۔
ہم دو وطن پرست اور انسان دوست کمیونسٹ بزرگوں سے محروم ہوئے۔

Spread the love

Check Also

زن۔ زندگی۔ آزادی۔ مہسا  امینی

ایرانی عورتوں کی قیادت میں آمریت کے خلاف حالیہ تاریخی عوامی اْبھار،اور پراُستقامت جدوجہد خطے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *