Home » شیرانی رلی » غزل ۔۔۔ علی زیرک

غزل ۔۔۔ علی زیرک

سامان مرا ، دشت کے اْس پار پڑا ہے
یہ عشق تو میں نے کسی ہجرت میں کیا ہے
ٹھہرے ہوئے پانی میں دْھواں پھیل چکا تھا
مٹّی کا پیَالہ بڑی مشکل سے بھرا ہے
اب دیکھئے صحراؤ ں کی نخوت کا تماشا
دریا مری آنکھوں سے روانہ تو ہوا ہے
بہتر ہے کہ دو رْویَہ سڑک ، خواب کی حد ہے
عْجلت میں مری نیند کا طوفان اْٹھا ہے
آنکھیں تو نہیں ہیں مگر اِس ہجر کے صدقے
زنجیر کی ہلچل میں تْجھے دیکھ لیا ہے

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *