لوگ جاتے ہیں جہاں سے وہ جہاں باقی ہے
جب مکیں ہی نہ رہے ، کیسے مکاں باقی ہے
یہ جو منظر ہیں دھواں،اور بھی دھند لائیں گے
دھند باقی ہے ابھی اور دھواں باقی ہے
ایک اک کر کے یہ دنیا ئیں فنا ہو جائیں گی مگر
جب تلک آسماں باقی ہے سماں باقی ہے
موت بازار میں نکلی ہے تماشا کرنے
زندگی کے لئے سرکس کا کنواں باقی ہے
چو منے کے لئے میڈل ہے سرہانے ، ماں کے
کیا ! جو حیدر نہ رہا،اس کا نشاں باقی ہے
گم گئی مجھ سے زمیں ، مجھ سے فلک ، مجھ سے خدا
تیرے گم ہونے تلک ، میرا گماں باقی ہے
اس قدر سرد رویّوں نے جمایا اسود
بات کرنے کی حرارت کہاں باقی ہے
Check Also
سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید
روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...