میری سکونت ہے جس زمیں پر
یہاں تو لہجے ہیں برف جیسے
گلیشیئر سا سماج ہے یہ
میں روز سورج سے کھیلتا ہوں
میں روز آنکھیں نچوڑتا ہوں
جو خواب دیکھے تھے میں نے برسوں
اب اُن کی تعبیر مُنجمد ہے
سو اب ضرورت کے سارے بندھن
وہ جورتے ہیں میں توڑتا ہوں
Check Also
سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید
روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...