Home » کتاب پچار » تُن ۔۔۔ تبصرہ: ڈاکٹر علی دوست بلوچ

تُن ۔۔۔ تبصرہ: ڈاکٹر علی دوست بلوچ

ناول کا نام: تُن
مصنف: نثار احمد
تبصرہ: ڈاکٹر علی دوست بلوچ

بلوچی زبان میں فکشن نگاری کے میدان میں ایک معتبر اور کمیٹڈ نام نثار احمد ہیں ۔ اُن کی تین کتابیں ’’بے زبانیں کشک ‘‘ ’’چول ‘‘ اور ’’جون‘‘ بالترتیب 2010ء 2011ء اور 2014ء میں شائع ہوئی ہیں ۔ جنہیں ادبی حلقوں میں بڑی پذیرائی ملی ہے۔۔۔ اس وقت ’’تُن ‘‘ کے نام سے اُن کی نئی کتاب (ناول ) ہمارے پیش نظر ہے۔ جو 2015ء میں ’’زبان بحرین‘‘ کے زیر اہتمام شائع کی گئی ہے۔ جو زبان و ادب خاص طور پر ناول کے حوالے سے ایک ایسی پیش رفت ہے جو موضوع ، تکنیک اور زبان و بیان کے میدان میں نئی راہیں کھولنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔
’’تُن‘‘کے معنی ہیں : پیاس تشنہ لبی، ۔ مصنف نے انتساب ۔ اُس پیاس کے نام کی ہے جو مرے ہوئے لوگوں کو زندگی بخشتی ہے اور زندہ لوگوں کی پیاس کو اور بڑھاتی ہے۔
کہانی میں مکران کا علاقہ ہے ۔جہاں گرمیوں میں سورج سوا نیزے پر آٹہر جاتا ہے۔ جہاں انسان ، جانور ، چرند پرند ، لُو اور دھوپ کی شدت میں نڈھال ہو جایا کرتے ہیں۔ تُن کا کردار، راہی کچھ کتابیں اور اپنے دوساتھی ایک کُتا ، اور ایک ایک کُروس (مرغا) کے ساتھ مغرب سے مشرق کی طرف محو سفر ہے۔ سفر کی دشواریوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اُس نے اپنے ساتھیوں تک کسی نہ کسی طرح پہنچنا ہوتا ہے۔ لیکن ایک وقت ایسا بھی �آتا ہے کہ خوردونوش کیلئے تھوڑی بہت چیزیں جو وہ جووہ اپنے ساتھ لایا تھا، ختم ہو جاتی ہیں ۔ بھوک اور پیاس کی شدت سے زندگی غائب ہونا شروع ہو جاتی ہے لیکن اُسے اس طرح سے مرنا قبول نہیں ۔ اُس کے خیال میں ہر چیز مر جاتی ہے۔ فنا ہوتی ہے لیکن اُمید ، اور ’’تن‘‘ یعنی پیاس کبھی نہیں مرتی ۔ اور شدت پیاس میں مرنے والا خود توتشنہ لبی سے ہمکنار ہوگا ہی۔ لیکن دوسروں کو بھی تشنگی سے دو چار کر دیتا ہے۔ اور وہ چاہتا ہے کہ وہ اور اُس کی آنے والی نسل اسی تشنگی سے اِسی طرح دوچار رہیں۔ اور وہ خواب کے دوران اس لیے مرنا نہیں چاہتا جس سے انسان اپنے عقل و فہم سے محروم ہو جاتا ہے۔ ایک لمحہ ایسا بھی آ تا ہے کہ وہ کیڑے مکوڑے کھانے پر سوچنا شروع کر دیتا ہے۔
ابتدا سے لے کر آخر تک اس کہانی کا تجسس بر قرار رہتا ہے جہاں تکنیک اور موضوع نئی ہونے کے ساتھ ساتھ منظر نگاری ، اسلوب اور زبان و بیان کی ایک خوبصورت دنیا موجود ہے۔ راہی ایک ایسا شخص ہے جو بہت کچھ جانتا ہے ۔ جانور ، چرند پرند ، کیڑے مکوڑے ، درخت ، جڑی بوٹیاں ، موسموں کی شدت ، علاقہ کی شنا سائی ، غرض وہاں کی ہر چیز کے بارے میں اُس کے تجربات اور مشاہدات اپنی مثال آپ لگتی ہیں ۔۔ وہ اپنے آپ سے خود کلامی بھی کرتا ہے فلش بیک میں جاتا ہے۔ اپنے دونوں ساتھیوں سے بھی ہم کلام رہتا ہے۔ اپنی تکلیف اور درد کی کیفیت بھی اُن کو بتاتا ہے۔ اُن کی تکلیف بھی اُس پر گران گزرتی ہے۔ وہ ایٹم ، پروٹان اور نیوٹران کے ساتھ ساتھ ایٹم کی تباہ کاریوں پر بھی بات کرتا ہے ۔ کیونکہ انسانیت سے پیار کرنے والے انسان ہوتے ہیں ۔ تاریخ کے اوراق پلٹتے ہوئے الجزائر ، ویت نام ، کیوبا کے لوگوں کی باتیں بھی کرتا ہے۔
راہی نے مکڑی کھانے کا سوچا اور پھر اُسے یہ کھانا بھی تھا۔ کیونکہ یہ ضروری ہوگیا تھا۔ اس حوالے سے مصنف کیاکہتا ہے۔ اُس کے مطابق جب کہانی اس نقطے پر پہنچی تو وہ حیران ہوا۔کہ انسان ایک مکڑی کو کیسے اور کس طرح کھا سکتا ہے؟ اس کا ذائقہ کیسا ہوگا ؟ اُ س کے کھانے کے بعد جسم میں کس طرح کا درد پیدا ہوگا ؟ کس قسم کی بیماری لاحق ہوگی؟ اگر انسان مر جائے تو یہ کیسے پتہ چلے گا کہ مکڑی کے زہر سے مرا ہو گا۔
اُس کے مطابق ان سوالوں کے جوابات اُس کے پاس نہیں تھے ۔ اور نہ ہی ایسے ساتھی تھے جو مکڑی خور تھے۔ لیکن راہی نے مکڑی کو کھانا تھا۔ تب اس نے اس حوالے سے گیمبیا(Gambia)کی ایک خاتون
Dr. Salla Ndim ballanکو ایساایس ۔ ایم ۔ ایس کیا ۔جس میں یہی سوال درج تھے ۔ اس نے ایس۔ ایم ۔ایس کا جواب دیتے ہوئے پوچھا اِس کی ضرورت کیوں پڑی ۔ تو مصنف ’’تُن ‘‘ ناول کے حوالے سے اسے بتایا اور اس نے نجوشی جوابات سے نوازا ۔ اور بتایا کہ ۔ You Should Read ”to build a fire ” Jack London۔
جب تُن مکمل ہواتو اس نے جیک کی کہانی کا مطالعہ شروع کیا۔ جو دوحصوں پر مشتمل ہے۔
اور اسے یہ گمان ہوا کہ وہ اُنہی کے رنگ میں رنگا ہوا ہے۔ مصنف کے مطابق جیک اور اُس کی زندگی ، اور معاشرہ الگ الگ ہیں ۔ درد الگ الگ ہیں ۔ لیکن حقیقت میں ہم ایک ہی راستے کے راہی ہیں ۔ راستہ ایک ہی سے جس پہ ہم رواں دواں ہیں ۔
دیکھا جائے تو مکڑی نے مصنف کو مجبور کیا کہ وہ ڈاکٹر Sallaسے رابطہ کرے۔ اور پھر اُنہی کے ذریعے وہ جیک کی تخلیقات سے مستفیض ہوا ۔ لیکن ڈاکٹر Sallaکے بارے میں اسے جانکاری کہاں سے ملی ہے؟ اس نے اس حوالے سے کچھ نہیں لکھا ہے۔ ویسے انٹرنیٹ نے معلومات کے حوالے سے بہت ساری آ سانیاں پیدا کردی ہیں ۔
بہر حال راھی اپنے ساتھیوں کے قریب تو پہنچ چکا تھا لیکن اُس کی حالت اتنی غیر ہوچکی تھی کہ اُس کی سانسیس بھی جواب دے گئی تھیں ۔ وہ جان چکا تھاکہ اگلے لمحے کیا ہونے والا ہے لیکن اُسے یہ اطمینان تھا کہ کل کوئی یہ نہیں کہے گا کہ راھی اپنی خواہشات کا غلام تھا اور اُس نے اِس حوالے سے جاں دی ہے جبکہ اُس نے ایک فکر اور خیال کو زندہ رکھنے کی خاطر جدوجہد کی ہے۔
رات کو سیاہ بادل اُمنڈ آتے ہیں خوب برسات ہوتی ہے ندی نالے بھر جاتے ہیں ۔ کئی سال بیت جاتے ہیں لیکن یہ پتہ نہیں چلتا کہ راھی نے داعی اجل کو لبیک کہا یا وہ اب بھی زندہ ہے ۔نہ کہیں قبر کی نشانی ، نہ ہی آس پاس کے گاؤں میں اُس کے نام کی باز گشت ۔ اور حیرانگی کی یہ بات بھی کہ راھی کون تھا؟ کہاں سے آ یا تھا ۔ ؟ کس لوگوں سے تھا؟ اور وہ کیا چاہتا تھا؟
لوگوں کا کہنا ہے کہ ’’شاید یہی تشنہ لب راھی ہے۔۔ ۔ جو گلزمین سے ہمکلام ہوتے ہوئے اپنے ساتھیوں سے ملنے جا رہا ہوتا ہے ‘‘

Spread the love

Check Also

فلم بازار اور عورت کی منڈی۔۔۔ مریم ارشد

ہمیشہ سے یہی سْنتے آئے ہیں کہ زندگی مشکل ہے۔ لیکن زندگی مشکل نہیں ہے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *