Home » قصہ » کارُونجھر کا اسیر ۔۔۔ علی بابا / ننگرچنا

کارُونجھر کا اسیر ۔۔۔ علی بابا / ننگرچنا

مون سون کی ہوائیں کارُونجھر کو مسلسل گھیرا ڈالے ہوئے تھیں۔ موسلادھار بارش رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ دور شمال میں بجلی رہ رہ کر کوڑے کی مانند لہرا کر چمک اٹھتی اور کارُونجھرکی بلندترین چوٹی پر کسی بپھرے ہوئے اژدھا کی طرح اچانک جھپٹتی اوردل دہلا دینے والی کڑک کے ساتھ پہاڑ کی گھاٹی میں اُتر جاتی۔ کارُونجھرمیں زلزلہ ایسی گونج پیدا کرتی۔ یوں لگتا کہ جیسے انگریزوں کی توپیں دھاڑرہی ہوں۔
ننگرپارکر،سُوراچند،آدھیگام، بھوڈے سر، رانی پور اور انچلاشِوَر کی بستیوں میں دوردور تک خوف کی لہر دوڑ جاتی۔ سمیّوں، سومرائنوں، ٹھکرائنوں، ریبارنیوں اور کوہلائنوں کے جگر چاک چاک ہوگئے تھے ۔ توپوں کے ڈرائے ہوئے بچوں کی خوف کے مارے کپکپی چھوٹ جاتی۔ ڈر کے سبب ان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ۔ لڑکیوں کی آنکھیں پرنالوں کی مانند بہہ رہی تھیں اور ان سب کے چہرے پیلے پڑ چکے تھے ۔ پورے کارُونجھر کے ہرجھروکے ،ہردرّے میں درد تھا۔ہر ہر جھونپڑے میں آہ و بکا تھی۔ مردوں میں سے کوئی نہیں بچاتھا جو انہیں تسلی کے دو حروف کہتا۔ کارُونجھر کے تمام رانا ، ٹھکر، کھوسہ، راٹھوڑ، سمہ ، سومرہ، پرمار اور کوہلی، انگریزوں کی توپوں کے سامنے سینہ سپر ہوتے ہوئے کارُونجھر پر نثار ہو چکے تھے ۔ کارُونجھر کی گھاٹیاں اور بھٹیانی اور گوڑدھرو ندیاں اور ان کی تمام شاخیں جانثاروں کی لاشوں سے اٹی پڑی تھیں۔ بڑی جنگ کے بعد انگریزی افواج کے افسروں نے کوہلائنوں پر صرف اتنا رحم کھایا کہ انہیں کارُونجھر کی گھاٹیوں سے اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھا لے جانے کی اجازت دی تھی۔ کتنوں کو دفن کیا جائے اور کتنوں کے لیے شمشان گھاٹ جلائے جائیں ؟ ساڑدھرو کے پاک پوتر جھرنے میں کس کس کی راکھ بہائی جائے ، کس کس کے لیے سینہ کُوبی کی جائے ؟؟ پورا کارُونجھر لاشیں ہی لاشیں تھا، خون ہی خون تھا۔ لیکن خداوند کو ترس آگیا۔ کارُونجھرپر کڑکتی بجلیاں اور برستے سیاہ کالے بادل اُمڈ آئے اور برکھا نے ندی نالے پُر کردیے ۔ گوڑدھرو اور بھٹیانی ندیوں کی آوازیں کارُونجھر کی چوٹیوں سے اوپر آسمان تک جارہی تھیں۔ کوہلائنوں نے بڑی ہمت کا کام کیا۔ ایک ایک ساتھی کی لاش کو چُوم چُوم کر گوڑدھرو اور بھٹیانی میں بہادیا اور ان کے جمے ہوئے خون کے لوتھڑوں کو دھوڈالا۔
بادل یوں لگتا تھا کہ جیسے کارُونجھر میں اٹک گئے ہیں ۔ پانچ دنوں سے مینہ مسلسل چھاجوں برس رہاتھا۔ گوڑدھرو اور بھٹیانی دھاڑتی ہوئی بہہ رہی تھیں۔ راتوں کو ، ایک طرف کارُونجھر میں وقفہ وقفہ سے بادل گرجتے رہتے تو دوسری طرف انگریزی توپوں کے دہانے کھل کھل جاتے ، کیوں کہ راناؤں نے ابھی تک ہار نہیں مانی تھی۔ کارُونجھر کی پوشیدہ گھاٹیوں اور غاروں میں ابھی ہزاروں کوہلی، بھیل، راٹھوڑ، سمہ اور کھوسہ تیز دھار تلواریں اورلمبی توڑے دار بندوقیں لیے پھر رہے تھے ۔ وہ راتوں کو رہ رہ کر اچانک کارُونجھر کی خفیہ گھاٹیوں سے انگریزی چوکیوں پر بھیڑیوں کی طرح جھپٹتے اور انگریزوں کے سپاہی ہلاک کرکے پھر اپنی انہی تنگ گھاٹیوں میں غائب ہوجاتے ۔ کارُونجھرمیں دھماکوں پر دھماکے ہورہے تھے ۔ پتہ نہیں چلتا تھا کہ بادل گرج رہے ہیں یا توپوں کے دہانے کھل گئے ہیں؟ کہیں بجلی گری ہے یا کسی کوہلی کی بندوق چلی ہے ؟یا پھر کارُونجھر کی کسی چوٹی پر کوئی مور چیخ اٹھا ہے یا اسی چوٹیوں سے کوئی بانکا بہادر للکارتے ہوئے نیچے گوڑدھرو کے ندی نالے میں آگرا ہے !!؟ اسی طرح کوہلائنوں، ربارنیوں اور سوڈھائنوں کے دلوں میں ہزاروں برے اندیشے آتے رہے اور ان کے جگر چاک چاک کرتے رہے ۔شب خون مارنے والے کوہلیوں نے انگریزی افواج کی نیندیں حرام کردی تھیں ۔ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ وہ آج کارُونجھر کی کس گھاٹی سے حملہ آور ہوں گے ؟ رات ہوتی اور کوہلیوں کی لاٹری کھل جاتی۔ وہ انگریزی افواج کی چوکیوں پر اچانک ٹوٹ پڑتے اور موسلا دھاربرسات میں گولیوں کی بوچھاڑیں کرتے ہوئے پھر سے کارُونجھر کی تاریک گھاٹیوں میں گم ہوجاتے ۔ رات ہو یا دن ، کس کی مجال ہے کہ کارُونجھرکے اندر جانے کا سوچے ! انگریزوں کو ہندستان بھرمیں ایسی بغاوت کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا ۔ انہوں نے ایسی مشکل لڑائی برِصغیرمیں کہیں بھی لڑی نہ تھی۔جب کیپٹن تَروَٹ کو سَرچارلس نیپئرکی طرف سے سخت زبان میں حکم نامہ موصول ہوا تو اس نے جواب میں صرف اتنا لکھ بھیجا کہ، ” مجھے بہت افسوس ہے کہ ہم یہاں آدمیوں کے ساتھ نہیں بلکہ ایک خوف ناک ابلتے ہوئے آتش فشاں کے ساتھ لڑرہے ہیں” بچارے کیپٹن تَروَٹ کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ راناؤں اور کوہلیوں کو کیسے قابو کیا جائے ؟
ایک رات جیسے ہی کوہلیوں نے اچانک شب خون مارا تو جوابی حملہ میں انگریزی توپوں کے دہانے آگ برسانے لگے ۔کوہلیوں کے آٹھ دس جوان کٹے شہتیروں کی طرح ڈھیر ہوگئے اور ایک کوہلی کو زندہ گرفتار کرلیا گیا۔وہ کوہلی اپنے ایک زخمی ساتھی کو کندھوں پر اٹھاکر بھاگنے کی کوشش کررہاتھا کہ تَروَٹ کے سپاہیوں نے اسے سنگینو کے سائے میں گھیرلیا۔ اس کوہلی نے اپنا نام رُوپا بتایا۔ اسے فوراً ننگرپارکر کے فوجی کیمپ میں کیپٹن تَروَٹ کے سامنے پیش کیاگیا۔ کیپٹن تَروَٹ نے ایک نیا سگار جلاتے ہوئے قیدی پر نظر ڈالی ۔ وہ کوہلی ہندوؤں کے پوترشاستروں والے شری کرشن مہاراج ایسا گہرا سانولا اور لانبے قد والا تھا اور یودھا ارجن کی طرح اَٹل اور نڈر نظرآرہاتھا۔
” ٹمارا نام ؟ ” یہ کیپٹن تَروَٹ کا پہلا سوال تھا۔
” رُوپا۔”
” ٹم کس کے زور پر لررہاٹا ؟”
” ہر آدمی اپنے بازوؤں کے بل پر لڑتا ہے ۔”
” میرا مٹلب ہے ، ٹمارا پشٹ پناہ اور لیڈر کون ہے ؟”
” کارُونجھر کا پہاڑ۔”
” ٹم کس لیے لررہا تا ؟”
” میں اپنے پہاڑ کے لیے لڑرہا ہوں۔”
” ٹمیں پٹا ہے ، اس کا سزا کیا ہے ؟” کیپٹن نے سخت غصہ دکھاتے ہوئے کہا۔
” ہاں، زیادہ سے زیادہ موت۔”
کیپٹن تَروَٹ ایک لمحہ کے لیے خاموش ہوگیا اور ترچھی نظروں سے رُوپا کی طرف دیکھتا رہا اور پھر کچھ سوچ کر، سَر کو ہلکا سا جھٹکا دیتے ہوئے کہا، ” رُوپا ! ہم ٹم کو مارنا نہیں مانگٹا۔ ٹم ہم کو صرف رانا لاڈے سِنگ اور اس کا ساٹیوں کا پٹا بٹادو،ٹم جٹنا کہے گا ہم اٹنا جاگیر دے گا۔”
کیپٹن تَروَٹ کی بات پر کوہلی تلملااٹھا۔ غصہ میں پھنکارتے ہوئے اس کی ناک پھیل گئی اور اس نے کہا، ” یہ پوری دھرتی میری ہے ۔ تم کون ہوتے ہو مجھے جاگیر دینے والے ۔”
کیپٹن تَروَٹ چارسوالوں میں ہی قیدی کو جان گیا ۔ اس نے مزید سولات کرنا بیکار سمجھتے ہوئے سگار کا ایک کش لے کر اسے ایش ٹرے میں مسل دیا اور سپاہیوں کو حکم دیا کہ قیدی کو بندی خانہ میں ،خاص پہرے میں رکھا جائے ۔ سپاہی، دست بستہ اور پا بجولاں قیدی کو گھسیٹتے ہوئے لے گئے ۔
اس دن سپاہی ،قیدی سے سچ اگلوانے کے لیے سارادن طرح طرح کا تشدد کرتے رہے ،لیکن قیدی نے اُف تک نہیں کی۔ وہ ہر تکلیف کوبڑے حوصلہ کے ساتھ دانت بھینچ کربرداشت کرتارہا۔ سپاہی اب کیپٹن کے حکم پر رات کے وقت قیدی کی بیوی کو بھوڈے سَر نامی گاؤں سے لے آئے ۔ وہ ایک نوجوان عورت تھی اور وہ بھی چھ سات ماہ کے حمل کے ساتھ۔ اس نے مٹیالے شیشوں کی جڑاوت والا پولکا اور لہنگا پہنا ہوا تھا۔ وہ شاید شوہرکا سُنتے ہی ننگے سَر اور ننگے پاؤں چلی آئی تھی یا پھر سپاہیوں نے اسے اتنا وقت ہی نہیں دیا تھا کہ وہ پاؤں میں جُوتیاں ڈال سکے اور سَر پہ چادر۔اُس کا رنگ ،قد اور شکل اپنے شوہر کے ساتھ اتنے مشابہہ تھے کہ جیسے انہوں نے جنم ہی ایک دوسرے کے لیے لیا تھا۔وہ خوف زدہ تو بالکل بھی نہ تھی، ہاں صرف تھوڑی سی پریشان ضرور دکھائی پڑتی تھی۔ کیپٹن کو اُس کا اُبھرا ہوا پیٹ ، عامیانہ ہاتھی دانت کی چوڑیاں اور کنگن بہت پسند آئے ۔ اُس نے اُس کے ساتھ بڑی عاجزی کے ساتھ بات چیت کی:
” ڈیکو ! ہم ٹمارے شوہر کو مارنا نہیں مانگٹا۔ ٹم اسے پیار سے سمجھاؤ کہ انگریز سرکار کے ساٹ وفاداری کرے ۔ ہم ٹم کو اور ٹمارے شوہر کو ویراواہ کی زمین انعام میں دے گا۔ آج کی راٹ ٹم اس کے ساٹ گذارو۔ ٹمارا کوٹری میں اور کوئی نہیں آئے گا۔ ٹم اندر سے کنڈا لگا دینا۔”
وہ کوہلائن کو قیدخانہ میں لے آیا ،جہاں اس کا شوہرزنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔ وہ اندر آتے ہی خون میں نہائے ، زخموں سے چور شوہر کے آگے کچھ دیر تک یونہی منہ کھولے حیران وپریشان کھڑی رہی۔ اس کے تَرسے ہوئے نَین شوہر میں گڑے ہوئے تھے ۔ وہ کچھ دیر سانس لینا بھول گئی۔ یوں لگ رہا تھا کہ بس ابھی اُس کی ایک چیخ نکلے گی اور وہیں ڈھیر ہو جائے گی ۔ کیپٹن تَروَٹ نے آنکھ کے اشارے سے سب سپاہیوں کو باہر نکل جانے کا کہا اور خود بھی کوہلائن اور قیدی پر آخری نظرڈالتاباہر آگیا۔
” رُوپا۔۔۔۔ ہے ، رُوپا ۔۔۔۔!” کوہلائن کا جگر پھٹ گیا۔ جیل یادرہی نہ ہی کھلا دروازہ۔ کنڈی نہ ہی کھڑکیاں۔ وہ بھاگتی ہوئی آگے بڑھی اور شوہر کو بازوؤں میں بھرلیا اور دھاڑیں مارکر رونے لگی،” رُوپا۔۔۔ ہے رانا !۔۔۔ ہے مہندرا ۔۔۔۔! ”
” کیوں آئی ہو ؟” زنجیروں میں جکڑے اور خون میں لتھڑے ہوئے رُوپا نے سَر جھکائے بغیر اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
” رُوپا ! تجھے آخری بار دیکھنے آئی ہوں۔ مجھ پر کارُونجھر کی کوہلائنوں کو مت ہنسانا۔ زبان نہ کھولنا۔نہیں تو پھر میں بھی مُکر جاؤں گی اور پیٹ پر ہاتھ مارکر کہوں گی کہ یہ بچہ رُوپلے کا نہیں کسی اور کا ہے ۔ رُوپا ! اپنا منہ کبھی نہ کھولنا۔” کوہلائن شوہر کی چوڑی چھاتی میں منہ چھپائے سسکیاں بھرتی اور روتی رہی۔ رُوپلونے پہلی مرتبہ سَر اٹھا کر بیوی کی طرف دیکھا،اس کی گھنیری کالی لٹوں کی اور، ہاتھی دانت کی چوڑیوں کی اور، بھری چھاتیوں کی اور، اور ابھرے ہوئے پیٹ کی طرف ۔ اس کا خون میں لال چہرہ چمک اٹھا۔
کوہلائن اپنے قیدی شوہر کو بانہوں بھرکر چُومتی ، چاٹتی اور روتی رہی۔ کیپٹن تَروَٹ کچھ دیر تک کھڑا انہیں دیکھتا رہا اورپھر دروازہ باہر سے بند کرکے ،لمبے لمبے ڈگ بھرتا اپنے دفترکی طرف چلا گیا۔
صبح کی اولین کرنیں کارُونجھر کی صدرنگ چوٹیوں سے ٹکراکرپوری دھرتی کو روشن کرتی چلی گئیں۔ بادل کارُونجھرکی چوٹیوں میں آتش فشانی غبار کی طرح پھنسے ہوئے تھے ۔ جس طرح شیر ایک جست لگا کر سانڈ کی گردن میں دانت گاڑکر اسے گرالیتا ہے اور پھر اس کا پورا خون چُوس کر ہی چھوڑتا ہے ، اسی طرح کارُونجھربھی بادلوں کی تمام قوّت جذب کرکے ، انہیں کھوکھلا بنا کر چھوڑتا ہے ۔اُس وقت بھی کارُونجھر کی چوٹیوں پر بادلوں کے ساتھ وہی ازلی عمل جاری وساری تھا۔ ہر گھٹا اپنا تمام تر پانی بھٹیانی اور گوڑدھرو کو بھینٹ چڑھا کر، ننگرپارکر پر صرف بوندبوند برساکرچلی جارہی تھی۔ برکھا کے بعد کارُونجھر کا سرخ، سبز، سیاہ،سرمئی، خاکستری اور گہرا بادامی سنگ مرمر، مورپنکھ سے بھی زیادہ خوبصورت اور پُرکشش لگتا ہے ۔اس گھڑی پہاڑ نے کیپٹن تَروَٹ کے دل کو اپنے سحرمیں جکڑلیا تھا۔ اتنا خوب صورت پہاڑ تو اس نے پورے یورپ میں نہیں دیکھا تھا۔ پتہ نہیں اسے کیا یاد آگیا کہ اپنے کوٹ کی جیب سے چمڑے کی جلد والی ایک چھوٹی سی نوٹ بُک نکالی اور اس میں لکھا،” اگر روئے زمین پر کہیں کوئی جنت ہے تووہ فقط کارُونجھر کا پہاڑ ہے ، اور اگر کہیں پر کوئی دوزخ ہے تو وہ بھی فقط کارُونجھر کا پہاڑ ہی ہے اور مجھے اس کے ان دونوں پہلوؤں سے پیار ہے ۔اگر مجھے اس پہاڑے الگ کیاگیا تومیں یقیناً خوش نہیں رہوں گا ۔”
کیپٹن تَروَٹ ابھی تک ریزیڈنسی ہاؤس کے خوبصورت آنگن میں کرسی ڈالے کارُونجھر کا دل موہ لینے ولانظارہ دیکھ رہا تھا کہ سپاہی کوہلائن کو لے آئے ۔تَروَٹ نے گہری نظروں سے کوہلائن کا جائزہ لیتے ہوئے سَر ہلکا سا خم کرتے ہوئے سلام کیا اور کہا،” ڈا ٹن ! ٹم اور ٹمارے شوہرکے درمیان کیا باٹ چیٹ ہوا؟ ٹم نے اسے سمجھایا ؟”
کوہلائن نے تَروَٹ کو سَراٹھاکردیکھا تک نہیں ، اُس نے دوسری طرف دیکھتے ہوئے کڑک آوازمیں جواب دیا،” تیری باتیں تو مجھے یاد بھی نہ رہیں یا ہوسکتا ہے کہ میں نے کل سنی ہی نہ ہوں۔” کوہلائن کیپٹن تَروَٹ کو حیران و پریشان چھوڑکر اترائی کی طرف اپنی رو میں بڑھتی چلی گئی،لیکن دس بارہ قدم اٹھانے کے بعد اچانک ٹھہرگئی اور بڑے غصہ کے ساتھ نتھنے پھلاتے ہوئے تَروَٹ کو دیکھا اور کہا:
” گورے ! تم بھلے ہمارے مرد مروادو۔ میں دیکھوں گی کہ تم کارُونجھرمیں کتنے دنوں تک راج کرتے ہو ! ابھی تک کوہلائنوں کی کوکھیں بانجھ نہیں ہوگئی ہیں ، ایسا نہ ہو کہ ہم کہیں حلالی یا حرامی بچے پیدا کرکے تجھے مروا نہ دیں۔ وہ بزدل لادھے سِنگھ اور رُوپا تھے کہ جن سے تم سوچیوں (ہندو موچی) کی رکھی کھالوں میں چھپ کر بچ گئے تھے ۔ ہمارے بچے تجھے نَرک میں بھی نہیں چھوڑیں گے ۔ شاہ بیگڑے کی طرح بھاگ جاؤ۔ گورے ! بھاگ جاؤ، مرجاؤ گے ۔”
تَروَٹ دنگ رہ گیا۔ کوہلائن پیرپٹختی، بھرے پیٹ کے ساتھ لہنگا لہراتی، نیچے اتری اور بھوڈے سَر کی طرف چلی گئی۔
قیدی کو الٹا لٹکاکر،اس کی ننگی پیٹھ پر چابک برسائے گئے ،اس کی انگلیوں اور گھٹنوں کے بیچ لکڑی دے کر،انہیں پوری قوت کے ساتھ بھینچا گیا۔رات کو اسے فولادی دروازے کے ساتھ اس طرح باندھا گیا تھا کہ وہ ہلنے جلنے کے لائق ہی نہ رہا تھا۔ اس کی گردن میں ایسا پھندا کس کر ،اسے دروازے کے ساتھ یوں باندھا گیا کہ دروازے میں لگائی گئی چھوٹی چھوٹی نوکدار لکڑیوں کا رخ اس کی گردن کی طرف تھا اور تھوڑاسا بھی ہلنے پر وہ لکڑیاں گردن کُھب جاتیں۔ اس کے تالُو والے حصہ کے بال اُتارکروہاں موم بتی جلادی گئی ۔موم بتی جوں جوں پگھلتی گئی اور اس کا گرم موم جمع ہوتا گیا ،توں توں کوہلی کا تانبے ایسا بدن پسینہ پسینہ ہوتاچلاگیا۔لیکن وہ ابھی تک ایک پتھرکی طرح خاموش تھا۔ کیپٹن تَروَٹ شاید اسے زیادہ عذاب نہیں دینا چاہتا تھا:
” میرا خیال میں ٹمارا بیوی کے پیٹ میں یہ ٹمارا پہلا بچہ ہے ؟”
” کیا ٹم کو چوٹا بچہ کو دیکھنے کا ٹمنا نہیں ہے ؟”
” میں غلام بچے کو دیکھ کر کیا کروں گا، مجھے کیا خوشی ہوگی ؟”
” کیا ٹم رانا لاڈے سِنگ کا غلام نہیں تھا؟”
” نہیں ، اگر میں محسوس کرتا کہ میں لادھے سِنگھ کا غلام ہوں تو میں اسے بھی بندوق کی بھینٹ چڑھادیتا۔”
کیپٹن تَروَٹ تو کیا تمام سپاہی بھی حیران اور متعجب ہوکر قیدی کی طرف دیکھتے رہے ۔ لمحہ لمحہ پگھلتی شمع کی لو اب قیدی کے تالُو تک پہنچ چکی تھی۔ قیدی کے چہرے اور بدن سے پسینہ، ریلوں کی صورت بہہ رہا تھا۔ اچانک کیپٹن تَروَٹ چیخ اٹھا:
” ٹم آدمی ہے یا جِن ! کیا ٹم ٹکلیف محسوس نہیں کرٹا ؟”
قیدی کا چہرہ لال بھبھوکا ہوگیا،اس نے دانت بھینچ لیے ، ہونٹ سختی سے بند کرلیے اور آنکھوں کے پپوٹے ایک دوسرے کے ساتھ یوں ملا دیے کہ جیسے اب وہ کبھی نہ کھلیں گے ۔ قیدی لکڑی کی طرح تن گیا اور چیختے ہوئے کہنے لگا:
” تکلیف۔۔۔ ! تکلیف ۔۔۔۔!! پتہ نہیں تکلیف کیا ہوتی ہے ۔۔۔؟”
پتہ نہیں قیدی کی قوتِ برداشت جواب دے گئی تھی یا پھر جینے کی تمنّا۔ اس کے تانبے ایسے پگھلتے ہوئے مضبوط بدن نے ایک دو مرتبہ زوردار جھٹکا کھایا، گردن ہلتے ہی نوک دار لکڑیاں اس کی گردن میں دھنستی چلی گئیں۔ ہاتھوں پیروں کی زنجیریں کھڑک اٹھیں اور قیدی کا خون اور پسینہ باہم مل کرایک ہوگئے ۔ کیپٹن تَروَٹ ایک جست میں اس کے پاس پہنچا۔ شمع کے جلتے دھاگے نے قیدی کے تالُو کو جلانا شروع کردیاتھا۔ قیدی ایک اور جھٹکے کے ساتھ اکڑا اور پھر ٹھنڈاپڑگیا۔ تَروَٹ کے جگرمیں جیسے کوئی برچھی اترتی چلی گئی اور وہ صرف اتنا کہہ سکا:
” مجھے ۔۔۔۔۔ مجھے کیا پٹا کہ یہ اٹنا جلدی۔۔۔”
جب تَروَٹ بندی خانہ سے باہر نکلا تو کارُونجھرمیں ہرطرف گونجیں ہی گونجیں تھیں۔ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ بادل گرج رہے ہیں کہ توپوں کے دہانے کھل گئے ہیں۔ بجلی کڑکی ہے کہ کوہلیوں کی بندوقوں نے آگ اُگلی ہے ۔ پورا کارُونجھر دھواں دھواں ، شعلہ شعلہ تھا۔ زندگی میں پہلی مرتبہ تَروَٹ کو احساس ہوا کہ کوئی بھی اجنبی قوم کسی کے وطن پر، کسی کی دھرتی پر زیادہ سے زیادہ پچیس برس قبضہ برقرار رکھ سکتی ہے ، لیکن کارُونجھرتو شاید بارہ برس سے بھی پہلے ہی خالی کرنا پڑے گا۔

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *