Home » کتاب پچار » گندم کی روٹی ۔۔۔ وحید زہیر

گندم کی روٹی ۔۔۔ وحید زہیر

سیاست میں امیچورٹی تاریخ کی بدنامی کا باعث ہے ، جبکہ اد ب کی امیچورٹی معاشرے سے نا انصافی کے زمرے میں آتا ہے ۔ مخلص ادیب تاریخ اور معاشرے کے اعلیٰ اقدا رکو ساتھ لے کر چلتا ہے۔ عبدالستار پردلی کا ناولٹ ’’ گند م کی روٹی‘‘ ایک محبت سے دوسری محبت کو جوڑنے ،نفر ت کے خلاف بغاوت کی کہانی ہے۔ کہانی کی میچورٹی ایک نئے افغانستان پر غور کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ ظلم خواہ کسی بھی شکل میں ہو ظلم کہلاتا ہے۔ محبت اور ہمدردی سے ہٹ کر انسانی جذبات سے ہٹ کر پر کھ کی کوئی صورت نہیں۔
ناا نصافی کی میچورکہانیوں میں خوشی اور عیش پرستی کے چند امیچور لمحے یہ سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں کہ امیچور کے سامنے میچور کی بے بسی کے اسباب کیا ہیں۔’’ گند م کی روٹی‘‘ بھی ایک ایسی مضبوط کہانی ہے جس کے پڑھنے کے بعد بے شمار سوالات ا زخود پیدا ہوتے ہیں۔ اوراگر غور سے پڑھا جائے توغالباً چالیس برس قبل لکھی گئی اس کہانی کے معصوم کردار شہ پری کی ایک بہت بڑی بدعا قبول ہوتی ملے گی۔ ایک امیچور خان اور امیچور ملاٌ کے میچور ظلم و استبداد کی کہانی کا انجام ایک سپر طاقت کا وسیلہ بن کر نئی میلینم میں سب کے لیے چیلنج بن کر رہ گیا ہے۔ سوشلزم اور اصل عالم کو اپنی غلطیوں پر نظرِثانی کا وقت مل گیا ہے جو کہ اس ایک اچھی کہانی کے اختتام کے بعد ایک بری کہانی کے شروع ہونے کی اطلا ع ہے۔ کل ایک بزگر جس ظلم کی چکی میں پس رہا تھا آج کا سچا دانشور اُسی چکی میں پھنس رہا ہے۔ عالم بھی اپنے گھس بیٹھیوں سے مار کھا گیا اور ایک سچا سوشلسٹ بھی ۔۔۔۔۔۔
اس کہا نی کے تما م کر دار حاجی خان کے سر ما یہ دار انہ علا متی کر دار کے ہاتھو ں شکست کھا نے والے کر دار ہیں ۔ جس کا انجا م کہا نی کا ر کے انجا م سے آگے نکل چکا ہے۔۔۔۔ ملا عبد ل کا کر د ار محض سر مایہ دارانہ نظام کے ایجنٹ کا سا تھ دے کر ایک بڑی مصیبت کے لیے پا ؤں جمانے کا اہتما م کر تا رہا ۔ آ ج اگر ایک بڑی چیخ سنا ئی دے رہی ہے تو وہ معصو م شہ پری کی نہیں ملا عبد ل کے اپنے گھر کے افراد کی چیخ ہے ۔ مگر ملا عبد ل کے گھنا ونے کر دار کی و جہ سے اس بڑی چیخ سے کسی کو ہمدردی نہیں ۔ میچو ر ملا ، میچو رطالب ، میچو ربز گر ، میچو ر دانشو ر کو ’’گندم کی روٹی ‘‘ کو پڑ ھ کر اپنی اصلا ح کر نی چا ہیے ۔ اور 70سا ل کی عمرمیں شا دی کی بے مقصد خواہش ، میک اپ زدہ بد صورت بیو یو ں کے انصا ف پسند جذ بات سے خو ف کھا نے کا ازالہ ضروری ہے۔ طا قت کو نا مراد لو گوں اور بز دلو ں کی غلا می سے آزاد کر نا چاہیے ۔ ایک دکھی ماں کے اپنے بچو ں کو وحشی انسانوں سے بچا نے کی کسک کا احسا س پید ا ہو نا چا ہیے ۔ ایک بڑ ی جد و جہد کو محض چند کر داروں کے اختتام پر نہیں روکنا چاہئے ۔ غر بت کی خشک روٹی کو خوشحالی کی خشک روٹی کے ساتھ زند ہ رکھنا ہی حقیقت ہے ۔ سر مایہ دارانہ نظا م کی بیہو دہ تر قی کی غلا می سے نو جو ان کو آزاد کر نا چاہیے ۔ ہر با ت میں اسلا م اور کفر کے جذ باتی ،گمراہ کن نعر وں سے اجتنا ب کر نا چاہیے۔ ایک اچھی اور سچی کہا نی کو با مقصد بنا نے کے لئے پڑ ھنے کی عا دت ڈالنی چا ہیے ۔ کسی بھی کہا نی میں اس کا سچ زند ہ رہتا ہے ۔ شہ پری کا سچ آ ج بھی زند ہ ہے ۔ فر ق صر ف اتنا ہے کہ اس کہا نی کے کر دار شہ پری نے ظلم سے تنگ آ کر خودکشی کر لی اور میر ی شہ پری اپنی کہا نی امر کر نے کی جر ات نہ رکھنے کی وجہ سے کا روکا ری یا سیا ہ کاری میں مارے جا رہی ہے۔ میر ے دلمراد جیل جانے اور بہن کو انصاف ملے کے خوف سے ظلم کو ہی عا فیت سمجھتے ہیں ۔ اس کہا نی کو پڑ ھنے سے شاید شہ پر یوں کے بھائیوں کی غیر ت جا گ جا ئے ۔ ہو سکتا ہے شہ پریوں کو ظلم کے خلا ف شہ پری کی شہا دت سے کو ئی حوصلہ ملے ۔
ملا عبدل کے لالچ اور خود غر ضی کے عو ض آخر ت بیچنے سے با ز رہنے کا وسیلہ ہا تھ آجائے ۔ محمد خانوں کو سستی ، کا ہلی پر ندامت محسو س ہو ، اللہ داد اور حاجی خانوں کو چھو ٹے ظلم کے بعد بر ادرکشی کی طو یل جنگ میں مبتلا افغا نستا ن کے مو جو دہ حالا ت تک پہنچا نے میں اپنی غلطیوں کا احسا س ہو ، دلمرادوں کو کسی بڑ ے نقصا ن سے پہلے اپنی تنہا ئی دو ر کر نے کے لیے گمشا دوں کے ہا تھ مضبو ط کر نے اور ان سے استفا دہ کر نے کا سلیقہ آجا ئے ۔ بچے کی تخلیق کے عمل کے دور ان ما ں اور با پ کی چھو ٹی غلطی سے ابنا رمل معذ ور بچہ پید ا ہو سکتا ہے ۔ تعمیر ی عمل میں چھو ٹی مو ٹی کو تا ہیو ں سے ابنا رمل اور معذ ور سما ج پید ا ہو تا ہے ۔
’’گند م کی رو ٹی ‘‘ کو پڑ ھنے سے میر ے ارد گر د کے کر دار بھی مجھے اپنی پگڑ یا ں مضبو ط کر تے ہو ئے نظر آتے ہیں ۔ پڑھنے میں بخیلی اور پڑ ھتے وقت سیا سی خو دغر ضی سے معا شرے میں جہالت کا خاتمہ ممکن نہیں ۔ لکھنے والے سے زیا دہ اس کے کر دار معتبر ہو تے ہیں ۔
اپنے مجبو ر و محکو م کر داروں سے ہمدردی کر نا اپنے آ پ سے ہمدردی کر نے کے بر ابر ہے ۔ کسی بھی کہا نی کو کہا نی سمجھ کر در گز ر کر نا منفی کر داروں کی حو صلہ افز ائی ہے ۔منفی کر داروں کے لیے ضر وری نہیں کہ وہ ایک آنکھ سے معذ ور ہوں، ان کی بڑی بڑی مو نچھیں ہو ں ، ما تھے پر ٹو پی رکھ کر چلنے والے ہو ں ، ان پڑ ھ ہو ں ۔ اب تو ہمارے ارد گر د کر استحصا ل کر نے والے مو جو د ہیں، ہمد ردی میں رلا رلا کر لو ٹنے و الے ہیں، نو رانی چہر ے بنا کر قتل کر نے والے ہیں ۔ اگر سچ کوسمجھتا ہے سچ کا اعتبار کر نا ہے تو سچ محنت میں ہے ۔ سچ تر جمہ کے قا بل تحر یر میں ہے ۔ سچ نا با لغ معصو م بچو ں کی مسکر اہٹ میں ہے ۔ سچ گھا ئل جسم گھا ئل روح کو پا ک خون کا عطیہ دینے میں ہے ۔ سچ حقیقی علم میں ہے ۔ سچ کیمر وں ، رپو رٹر وں کی آ مد کے انتظا ر کو ٹھکرانے ، کسی بڑے مجمعے کی خواہش کے بغیر سننے اور سنا نے والی تقر یر میں ہے ۔ سچ اپنے جیت کی شکست کو تسلیم کر نے میں ہے ۔ نہ جانے کیو ں ’’گند م کی روٹی ‘‘ پڑ ھنے کے بعد قار ی کے دل میں انہی کر داروں اسی کہا نی کے تسلسل میں آج کے تنا ظر میں ایک بہت بڑے نا ول کے تخلیق ہو نے کی خواہش پید ا ہو تی ہے ۔ کیو نکہ اس کہا نی کے ا ختتا م کے بعدجیتی ہو ئی با زی کی ان کہی کہا نی سامنے آتی ہے ۔ ’’گند م کی روٹی ‘‘ اس خطے کی نفسیا تی و طبقا تی جنگ کی ایک نہ ختم ہو نے والی کہا نی ہے۔ مجھے کہا نی کے مثبت اور منفی دونو ں کر داروں سے ہمدردی ہے ۔ ایک اپنی جیت کو بر قر ار رکھنے کا اہل ثا بت نہ ہو ا دوسرا اپنی جہالت سے مستقل مارا جا رہا ہے۔ ایک بڑی اور طا قتور فو ج کاایک نکما سپا ہی رات کے اند ھیر ے میں سگر یٹ کی معمولی سی عا دت سے مجبو ر ہو کر تیلی جلا کر د شمن کا کام آسا ن کر دیتا ہے ۔ میر ے سردار ، میر ے عالم ، میر ے دانشو ر، میر ے فنکار اور میر ے طالب علم بھی اسی نکمے سپا ہی کی غلطی دہر ا ے ہیں۔ اگر افغا نستا ن کے بڑے بڑے عالم قبائلی جنگجو آج جس طرح بحیر ہ عر ب سے ایک خاتون پا ئلٹ کے جہاز سے چھوڑے ہو ئے نشا نے کا اپنے گھر ،قلعہ ، حجرے میں نشا نہ بن رہے ہیں ۔ میر ے ملک کے یہ نا سمجھ کر دار بھی اپنے آپ کو محفو ظ نہ سمجھیں اب۔ ’’گند م کی روٹی ‘‘ کو پڑ ھ کر ما ضی اور مستقل کا سیا سی احاطہ کر نا نا گز یر ہو گیا ۔

Spread the love

Check Also

فلم بازار اور عورت کی منڈی۔۔۔ مریم ارشد

ہمیشہ سے یہی سْنتے آئے ہیں کہ زندگی مشکل ہے۔ لیکن زندگی مشکل نہیں ہے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *