Home » پوھوزانت » انسان اور سماج ۔۔۔ سعید بلوچ

انسان اور سماج ۔۔۔ سعید بلوچ

سماج انسان کے شعور کو تشکیل دیتا ہے۔ انسان کا اور اس کے سماج کا گہرا تعلق ہے ۔ انسان اپنے سماج سے اثرات لیتا بھی ہے ۔اور اپنے سماج پر اثرانداز ہوتا بھی ہے۔ اسی لیے ارسطو نے کہا کہ انسان سماجی جانور ہے۔ انسان چونکہ سماجی ہستی ہے اس لیے اجتماعی زندگی گذارتا ہے اس اجتماعی زندگی میں جہاں ایک دوسرے سے تعاون کا جذبہ پایا جاتا ہے وہی ان میں تضادات بھی سر اٹھاتے ہیں۔ انسان ایک نظام کے تحت زندگی بسر کرتا ہے اور جب تک وہ نظام وقت حالات اور تقاضوں سے ہمقدم رہتا ہے تو اس وقت تک اس کا وجود برقرار رہتا ہے لیکن جیسے ہی وہ نظام وقت کی ضرورت کو پورا نہیں کرتایانئی تبدیلیوں کو قبول نہیں کرتا تو وہ اپنی طبعی موت مر جاتا ہے ۔ابتدائی کمیونل سوسائٹی،غلامانہ دور ،جاگیرداریت،،سرمایہ داری انسانی ارتقا کے مختلف مراحل ہیں ۔ زرعی انقلاب کے بعد ذاتی املاک نے سر اٹھایا اس سے پہلے انسان قبیلوں کی شکل میں اجتماعی زندگی گذارتے تھے۔ ان کی باقیات آج بھی دنیا میں ہمیں مل سکتی ہیں۔آج تک تمام سماجوں کی تاریخ مارکس کے بقول طبقاتی جدوجہد کی تاریخ ہے۔ طبقاتی کشمکش کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یا تو نئے سرے سے سماج کی انقلابی تعمیر ہوتی ہے یا لڑنے والے طبقے ایک ساتھ تباہ ہوجاتے ہیں۔ہمارا عہد جسے بورژوا طبقے کا عہد یا سرمایہ دارانہ نظام کا عہد کہہ سکتے ہیں ،مارکس کے بقول اس عہد نے انسانوں کے درمیان خالص تن پروری اور بے درد نقد لین دین کے سوا کوئی اور رشتہ باقی نہیں رہنے دیا۔پیشوں کی عظمت بھی چھن گئی ہر انسان صرف اجرت پر کام کرنے والا مزدور بنا دیا گیا ہے اس نظام کے ہاتھوں۔سبط حسن کے الفاظ میں ہرانسان مجبوری کی حالت میں جی رہا ہے ،مجبوری کی اس صورتحال کو اس کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے ،وہ اس قدر بے بس و لاچار ہے کہ اس صورتحال سے بھاگ نہیں سکتا۔ صرف یہی کافی نہیں بلکہ جو لوگ اسے استعمال کرتے ہیں وہ اسے ایسے تصورات پر یقین دلاتے ہیں جن کی بدولت وہ ایک خیالی آزادی کا سکون محسوس کرتا ہے لیکن زندگی مجبوری میں بسر کرنے پر مجبور ہوتا ہے ۔مارکس کے بقول روایات انسان کے ذہن پر پہاڑ جتنے بھاری ہیں۔جب انسان سوال اٹھانا سیکھ جائے تو وہ سوالوں کا جواب ڈھونڈے گا ۔حال پر سوال اٹھانے کا مطلب اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ وہ اپنے حال سے خوش نہیں اور اسے تبدیل کرنا چاہتا ہے ۔تبدیلی ایک نئی سوچ لاسکتی ہے ،نیا سوچ نیا علم ہوگا جس کی کوکھ سے نیا عمل جنم لے گا۔ ممکن ہے وہ مجبور شخص اپنی زندگی میں تبدیلی نہ لاسکے لیکن جس علم کی وہ بنیاد رکھتا ہے سبط حسن کے بقول وہ کتنا ہی محدود کیوں نہ ہو لیکن ایک نئی شروعات ہے۔سبط حسن سے خوبصورت اقتباس ملاحظہ کیجیے”نیا علم ایسا ہے جیسے مجبور انسان بڑ کا ننھا سا پودا لگاتا ہے ،اسے یقین ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں اس درخت کی چھاؤں میں نہیں بیٹھ پائے گا مگر بعد میں آنے والے ضرور اس کے لگائے ہوئے درخت کی ٹھنڈی چھاؤں سے لطف اندوز ہوں گے۔آئندہ آنے والے انسانوں کے لیے درخت لگانے کا خیال ،نفع نقصان یا ذاتی غرض سے الگ در اصل انسانوں سے وسیع تر رشتے کا اقرار ہے “۔زندگی تبدیلی کا نام ہے ،انقلابات زندگی کا حصہ ہیں یا مفکر کے بقول انقلابات تاریخ کے انجن ہوتے ہیں لیکن سماج کو ہلا کررکھ دینے والے انقلابات روزبروز برپا نہیں ہوتے مارکس کے بقول انقلاب لوگوں کی خواہشات کے برعکس حال کے تقاضوں کے بطن سے جنم لیتے ہیں۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *