Home » پوھوزانت » وہاب اتماخیل ۔۔۔ سلطان محمد اتمانخیل

وہاب اتماخیل ۔۔۔ سلطان محمد اتمانخیل

یوں تو انسان کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات کا شرف بخشا ہے اور معراج حقیقی بلند پایہ مرتبہ اور مقام بھی انسان ہی کو نصیب ہوا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تخلیق کائنات کا سبب بھی انسان ہے۔ انسان کی ذہنی رسائی و عظمت کے متعلق ہمیں اوراق تاریخ میں بہت کچھ ملتا ہے ۔ لیکن چند ہستیاں ایسی جہان میں واردہوئیں جنہوں نے انسانی عظمت ووقار کی خاطر اپنی خدمات بلکہ جانوں تک کا نذرانہ پیش کیا۔ خود کا آرام، سکون اور آرائش ترک کرتے ہوئے ساری زندگی مصائب اور مشکلات کا سامنا کرتے رہے اور دوسروں کے لیے خوشیاں تلاش کرتے رہے ۔ آج میں ایک ایسی شخصیت کے مالک مرحوم عبدالوہاب اوتمانخیل عرف وہاب لالا کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں جن کی یادیں ہمارے دلوں اور سوچوں میں نقش ہیں اور انہی یادوں نے مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کیا کیونکہ میرے خیال میں ایسی شخصیت کے متعلق خاموش رہنا انتہائی خود غرضی اور خیانت ہوگی۔وہاب لالا قیام پاکستان سے 36 دن پہلے 8جولائی1947 کو کاکڑ قوم کے قبیلہ اتمانخیل کے ذیلی شاخ عبدالزئی میں برحمت نامی شخص کے گھر میں پیدا ہوئے۔ وہاب لالا کے والد محترم ان کی پیدائش کے چھ ماہ بعد انتقال کرگئے۔ وہاب لالا نے ابتدائی تعلیم قریبی پرائمری سکول سے حاصل کرنے کے بعد میٹرک گورنمنٹ ہائی سکول لورالائی سے کیا۔ اس کے بعد ایف اے اور بی اے کی تعلیم گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج لورالائی سے حاصل کی۔ موصوف کو زمانہ طالب علمی میں ہی سیاست کا شوق تھا۔ آپ نے باچا خان اور میر غوث بخش بزنجو کے فلسفہ سے متاثر ہوکر اپنے قریبی ساتھی بسم اللہ کاکڑ کے ساتھ مل کر پورے بلوچستان میں پشتون سٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی اور اس تنظیم کی آبیاری کا بیڑہ اپنے سر لیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ پی ایس ایف میں ڈاکٹر صوفی اکبر، عبدالرحمان ایسوٹ، نورمحمد اچکزئی جیسے ساتھیوں کا تانتا بندھتا چلا گیا۔
1970کی دہائی میں جب ملک میں سیاسی حالات نے کروٹ بدلی تو وہاب لالا اور ان کے سیاسی رفیقوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ۔ ان حالات میں وہاب لالا اپنے چند سیاسی رفیقوں کے ہمراہ افغانستان میں جلا وطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مشرقی پاکستان ہمارے ساتھ تھا۔ سیاسی تبدیلی آنے کے ساتھ ہماراملک دو لخت ہوچکا تھا اور ا ن سیاسی تبدیلیوں کے دوران سیاسی کارکنان کے لیے عام معافی کا اعلان کیا گیا ۔ تو اس کے نتیجے میں وہاب لالا اور ان کے ساتھیوں نے جلا وطنی ختم کی اور واپس پاکستان آگئے۔
موصوف کی سیاسی بلوغت کے باعث وہ عبدالولی خان کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔ وہاب لالا نے سیاسی قیدی کی حیثیت سے کافی عرصہ قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں۔ وہ حیدر آباد سازش کیس کے سلسلے میں حیدر آباد جیل میں خان عبدالولی خان، میر غوث بخش بزنجو اور نواب خیر بخش مری جیسے اہم شخصیات کے ساتھ رہے اور دوران قید آپ نے ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور وہیں سے وہی وکالت کی ڈگری بھی حاصل کی۔ اس کے علاوہ کراچی لارا جیل، کوئٹہ ہدہ جیل اورلورالائی جیل میں کافی عرصہ سیاسی قیدی کے طور پر قید و بند کی صعوبتیں جھیلتے رہے۔ بالآخر ملک کے فوجی سربراہ جنرل ضیاالحق نے تمام سیاسی قیدیوں کے لیے عام معافی کے ساتھ ساتھ غیر مشروط رہائی کا اعلان کیا تو وہاب لالا نے اپنا سیاسی سفر جاری رکھتے ہوئے بی ایس او کے ساتھ منسلک اختیار کی۔ اس وقت بی ایس او کے چیئرمین ڈاکٹر عبدالحئی اور مرکزی جرنل سیکرٹری بزن بزنجو تھے اور دیگر مرکزی رہنماؤں میں وہاب لالا ، نور محمد اچکزئی، ڈاکٹر جالب ، عزیز اللہ ماما، خان میر مندوخیل ، عبدالرحمن ایسوٹ ، ارباب غلام کاسی، کہور بلوچ ، نسیم آغا، ڈاکٹر صوفی محمد اکبر، رازق بگٹی اور خیر جان بلوچ شامل تھے ۔ وہاب لالا پشتون بلوچ مشترکہ جدوجہد کے علمبردار تھے اور جس پر آپ تادم مرگ قائم رہے۔1988 میں وہاب لالا نے پی این پی کے پلیٹ فارم سے پہلی مرتبہ لورالائی میں صوبائی اسمبلی کے امیدوار کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیا اور تنائج کے مطابق دوسرے نمبر پر رہے۔
وہاب لالا نے ہمیشہ اصولوں کی سیاست کی اور اپنے سیاسی موقف پر ڈٹے رہے۔ آپ سیاست کو عبادت سمجھتے تھے ۔ اپنے سیاسی موقف سے ہٹانے کے لیے انہیں متعدد بار آسائشوں اور مراعات کا لالچ دیا گیا ۔ تاہم موصوف نے ان سب کو مسترد کیا اور اپنے سیاسی موقف پر قائم رہے۔ انہیں یقین تھا کہ مصائب اور مشکلات کے بعد ہی اپنے سیاسی منزل مقصود کو پانا ممکن ہے۔
قبائلی تنازعات کے تصفیے کے حوالے سے بھی وہاب لالاکی خدمات کا ایک طویل سلسلہ ہے ۔ وہاب لالا کا نام لالا پڑ جانا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ آپ لوگوں میں اس قدر مقبول تھے کہ ہر کوئی آپ کو اپنا ہمدرد اور پرسان حال سمجھتا تھا۔ سیاسی طور کھلے دل و دماغ اور وسیع النظر ہونے کے ساتھ آپ نے عملی طور پر اپنے آپ کا لوہا منوا یا تھا۔ ان کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہ تھا۔ وہ تصفیہ طلب قبائلی تنازعات کے حل میں ہمیشہ پیش پیش رہتے۔ قبائلی تنازعات کے حل میں ہمیشہ اخلاص ، بردباری، اور بلاغت کا اہم کردار ہوتا ہے۔ یہ تمام خوبیاں ان میں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ اسی وجہ سے علاقہ کے لوگوں کے ساتھ ساتھ تمام قبائلی عمائدین آپ کا بے حد احترام اور عزت کرتے تھے۔ وہاب لالا خدمت خلق کے جذبے سے سرشار شخصیت کے مالک تھے۔ آخری ایام میں وہاب لالا کی بینائی بوجہ شوگر مرض جاتی رہی اور وقت کی ستم ظریفی نے وہاب لالا کو بصارت سے مکمل طور پر محروم کردیا۔ لیکن اس جواں مرد نے اپنے سماجی، قبائلی خدمات کو ترک نہ کیا بلکہ ان کی سرگرمیوں اور عزت و وقار میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا ۔وہاب لالا کے والد ان کی پیدائش کے چھ ماہ بعد انتقال کرگئے تھے ۔ وہاب لالا خود تیس سال تک بے اولاد رہے لیکن خدا کا کرنا دیکھیے کہ ان کے انتقال سے چھ ماہ قبل اللہ تعالیٰ نے انہیں اولاد نرینہ سے نوازا۔ وہاب لالا کہا کرتے تھے کہ جس دن اللہ نے مجھے بیٹا دیا اس دن میرے سامنے جو بھی گزرتا تو مارے خوشی کے اس کا سایہ مجھے نظر آتا لیکن اس دن کے بعد پھر وہی اندھیرا چھا گیا۔ وہاب لالا اس دارفانی سے20 اکتوبر2007 کو ہم سب کو افسردہ چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *