Home » شیرانی رلی » غزل ۔۔۔ مسعود صدیقی

غزل ۔۔۔ مسعود صدیقی

میں داستان میں ہوں ایسے داستاں کے بغیر
کہیں زمین ہو جِس طرح آسماں کے بغیر

ہمارے خواب میں کیوں چل پڑا ہے تُو اس پر
جو راستہ ہے ترے پاؤں کے نِشاں کے بغیر

مُجھے پتا ہے کہیں کا نہ مجھ کو چھوڑے گا
مگر میں رہ بھی سکوں گا نہ راز داں کے بغیر

ہمارا شاخ سے گرنا بہت ضروری ہے
کہ جا سکیں گے کہیں بھی نہ ہم خزاں کے بغیر

ہوا بھی بیچ دے بَس میں اگر ہو مُفلس کے
جولے کے چل پڑا ناؤ کو بادباں کے بغیر

میں حشر تک تمہیں حیرت میں ڈال رکھوں گا
کہ میں یقین کے سوا ہوں نہ ہُوں گماں کے بغیر

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *