Home » پوھوزانت » قا فلہ چلتا رہا ۔۔۔ بد را بڑو/ننگر چنا

قا فلہ چلتا رہا ۔۔۔ بد را بڑو/ننگر چنا

کا مر یڈ سو بھو کو پہلی مر تبہ 25 جنو ری 1942میں ’’ہند و ستا ن خالی کر دو‘‘ مہم کے دوران میٹھا رام ہو سٹل کر اچی سے گر فتا ر کیا گیا۔ ان دنو ں سو بھو کی عمر 23 بر س تھی ۔ طلباء تحر یک زوروں پر تھی ، یہی کو ئی چھ ہز ار طلبا گر فتا ر کیے گئے تھے ۔ سو بھو ڈھا ئی بر س جیل میں رہا لیکن وہا ں بھی وہی کمیو نسٹو ں والی سر گر میا ں جا ری رکھیں ، سٹڈ ی سر کل چلا تا رہا۔۔۔۔۔۔ با ل�آخر جو لا ئی 1944، میں آزاد ہو ا ۔
وہ دوسری مر تبہ 17فروری1946ء کو رائل انڈین نیوی میں بغا وت پھو ٹ پڑنے کے بعد چلی تحر یک میں گر فتا ر ہو ا ۔ اس بغا وت کے دوران کر اچی میں بھی فسا دات ہو ئے ۔ میر ے والد صا حب (جما ل ا بڑو ) ان دنو ں خا کسا ر تحر یک کر اچی کے سا لا ر تھے ۔ سند ھی طلبا ء نے ہڑتا لِ عام کی تھی اور بند رروڈ پر جلو س نکالا تھا، جس پر انگر یز سر کا ر نے گو لی چلا ئی تھی ۔ کا مر یڈ سو بھو اس واقعہ کے نتیجہ میں 21فرواری کو گر فتا ر ہو ا تھا اور اس کے ساتھ کچھ دیگر نو جو ان کا مر یڈ ، اے ۔کے ہنگل ، جمال الد ین بخا ری ،گو بند ما لھی اور کیر ت بابانڑیں گر فتا ر ہو ئے تھے۔تین ما ہ بعد جب سرکا ر نے مقدمہ واپس لیا ، تب تما م قید ی آزاد ہو ئے۔
وہ تیسری مر تبہ 17اپر یل 1948ء کو DPRکے تحت گر فتا ر ہو ا، وہ اس قا نو ن کے تحت شا ید پا کستان کا پہلا قید ی تھا۔ اس قا نون کے تحت پا کستا ن بھر میں دانشوروں کے خلا ف کا رروائی کی گئی۔جس میں سو بھو کے سا تھ شرف علی ، عزیز سلا م بخا ری ، پرچو و دیا ر تھی ،اے کے ہنگل ،کیر ت بابانڑیں ،ابر اہیم جلیس، حشو کیو ل رامانڑیں ، حسن نا صر ،عبد الر حمن مٹھا ، گلا ب بھگو انی ،پو ہو اور ڈاکڑاشر ف گر فتا ہو ئے تھے ۔یہ قید و بند کا سلسلہ لگا تا ر چا ر بر س تک چلتا رہا اور با لآخر 1954 میں عدا لت نے اس مقد مہ کو بے بنیا د قر ار دے کر تما م اسیر و ں کو رہا کر دیا ۔ مذکو رہ تما م کا مر یڈ پا رٹی کے ’’فل ٹا ئمر‘‘ تھے ۔ یہ وہ مو قع تھا جب ریا ست کی طر ف سے کا مریڈ و ں پر دبا ؤ پڑا کہ وہ ہند وستا ن کو نقل مکا نی کر جا ئیں ۔ شا ید یہی دبا ؤ تھا کہ بہت سارے دانشور پا کستا ن چھو ڑ کر انڈیا چلے گئے ۔ لیکن سو بھو نے انکا ر کیااور وہ نہیں گیا ۔
اس دوران ما رچ 1951 میں پنڈی سازش کیس کے تحت گرفتا ریا ں ہو ئیں اور فیض احمد فیض ، جو اس زما نہ میں پا کستا ن ٹائمز کا ایڈیٹر تھا ، کا مر یڈ سجا د ظہیر ، جوکمیو نسٹ پارٹی آف پا کستا ن کا سیکرٹری جنرل تھا ،کیپٹن ظفر اللہ پو شنی (جس نے ’’زند گی زند ہ دلی کا نام ہے ‘‘ کے عنو ان سے جیل ڈائری لکھی ) بھی شا مل تھے ۔اس مقد مہ کے 15ملزما ن میں سے 11فوجی تھے جن میں میجر جنرل اکبر خا ن(اس وقت کا چیف آف جنرل سٹا ف )،ایئر کمو ڈورایم کے جنجو عہ ،میجر جنر ل نذیر احمد ،بر یگیڈیئر صا دق خان ،بر یگیڈ یئر ایم اے لطیف خا ن ،لیفٹننٹ ضیاء الد ین، لیفٹننٹ نیا ز محمد اربا ب، کپٹن خضر حیا ت، میجر حسن خان، میجر ا سحا ق احمد ، مسز نسیم اکبر خان، اور محمد حسین عطابھی شامل تھے ۔کا مر یڈسجا د ظہیر اس مقد مہ کے دوران سا ڑھے چا ر بر س لا ہو ر حید ر آبا د ،مچھ اور کو ئٹہ جیلو ں میں رہا اور پھر 1955ء میں ہمیشہ کے لئے ہند و ستا ن چلا گیا ۔ دراصل کا مر یڈ سجا د ظہیر کی رہا ئی اس کی ہند و اپسی سے مشروط تھی ۔ یہ با ت کا مر یڈ سجا د کے متعلق تحر یر شد ہ ایک مضمو ن میں درج ہے جو 18 دسمبر 2005ء کو کمیو نسٹ پا رٹی آ ف انڈ یا (ما رکسسٹ ) کے ہفتہ وار تر جما ن میں شا یع ہو ا تھا۔ یہ با ت درست ہے کہ پا کستا ن کے ابتدائی ایا م میں ہی تر قی پسند وں (با لخصوص ہند وؤں ) کو پا کستا ن چھو ڑنے پر مجبو ر کیا گیا۔ کا مریڈ سجا د ظہیر تو آیا ہی لکھنو(انڈیا ) سے تھا ۔ لہٰذا وہ واپس چلا گیا ۔ اس کی کتاب ’’روشنا ئی ‘‘ ترقی پسند ا دبی تحریک کا اہم دستا ویز ہے ۔
چوتھی مر تبہ ، 12 جو لا ئی 1954کو حکومت نے کمیو نسٹ پارٹی پر پا بند ی عا ئد کر دی ۔ با ئیں با زو کی تقریباً تما م پا رٹیاں زیر عتاب آگئیں۔تما م دانشور اور سیا ستد ان پکڑ دھکڑ کا شکا ر ہو ئے ، انجمن ترقی پسند مصنفین بھی کا لعد م ہو گئی ۔اس دوران کا مر یڈ سو بھو تین چا ر ما ہ اپنے گا ؤں بنڈی میں نظر بند رہا اور ما ر چ 1956ء میں آزاد ہوا۔
پانچویں مر تبہ ، ایو ب خان کے ما رشل لا کے وقت اکتوبر 1958میں کا مر یڈ کو اپنے گا ؤں سے گر فتا ر کر کے حید ر آبا د جیل لے گئے اور پھر وہا ں سے شا ہی قلعہ لاہو ر، جہا ں بعد میں حسن نا صر کو بھی رکھا اور شہید کیا گیا۔ سو بھو وہا ں سے جون1960ء میں آزاد ہو ا اور اس حساب سے حسن نا صر کو کامر یڈ سوبھو کے تین ماہ بعد شاہی قلعہ کیمپ میں لا یا گیا۔
چھٹی مر تبہ اس کی گر فتاری میں کچھ زیا دہ دیرنہ لگی ۔ وہ جو نہی لا ہور سے اپنے گا ؤں پہنچا تو اسے پا نچ بر سوں کے لیے گا ؤں میں ہی نظر بند کر دیا گیا۔ اب وہ 1965 تک نظر بند رہا ۔ انو ر پیر زادہ ا نہی دنوں کا مر یڈ سے شنا سا ہو ا تھا۔
سا تو یں مر تبہ کا مریڈ کو ستمبر 1965 میں ڈی پی آر کے تحت گر فتا ر کیا گیا ، تب اسے ‘‘ کٹر ہند و‘‘ قر ا ر دیا گیا۔ انہی دنو ں شیخ ایا ز اورر شید بھٹی بھی گر فتا ر ہو ئے اور نو اب نو ر وز خا ن بھی ان کے جیل کے ساتھی بنے۔ وہ اس مر تبہ جنو ری 1966 میں آزاد ہو ا۔ شیخ ایا ز اس کے بعد بھی جیل میں رہا ۔
آخری مر تبہ جب بھٹو کی حکو مت تھی ، ڈی ایس پی پنجل نے سر کا ر کے کان بھرے اور کامریڈ کی گر فتا ری کے احکا ما ت جا ری کر وائے ۔ تب کا مر یڈ سو بھو کو ایڈ وو کیٹ عبد الرزاق سو مر و نے شکا ر پو ر ریلو ے سیٹشن سے کو ئٹہ فر ار کر ا دیا ، جہا ں وہ عطاء اللہ مینگل اور غو ث بخش بز نجو کے ہا ں پنا ہ گزیں ہو ا۔ ازیں بعد بز نجو نے کا مر یڈ سو بھو کو بھٹو سے ملا یا جو بقو ل کا مر یڈ سو بھو 23 جو لا ئی 1972 کو ملا قا ت ہو ئی اور غلط فہمی دور ہو ئی ۔ اس کے بعد کا مر یڈ آزاد تو تھا لیکن پارٹی کے معاملا ت سے دور رہا ۔
کا مر یڈ سوبھو کی مندرجہ ذیل کتا بیں شایع ہو چکی ہیں:
1) تا ریخ کے فر امو ش کر دہ اوراق
2) وہ جو سہا رے تھے میر ے (خاکے)
3) تاریخ بو لتی ہے
4)کب بہا ر آئے گی (افسانے)
5)سفر روشنی کا (آپ بیتی )
کامر یڈ نے جو افسانے لکھے ،ان میں سے ایک حشو کیول رامانڑیں نے انگر یز ی میں تر جمہ کیا۔ مذکو رہ افسانہ Selected Sindhi Short Stories نامی کتا ب میں شامل ہے۔ کا مر یڈ سوبھو کی کچھ انگر یز ی تحا ریر ابھی تک غیر مطبو عہ ہیں ۔لیکن کیا کیا انگریزی اور سند ھی سیا سی یا ادبی تحا ریر ان کے ذہن میں رہ گئیں ،اس کا تو اند ازہ ہی نہیں لگا یا جا سکتا، کہ ہر وقت کی سیا سی بے یقینی اور گر فتا ریوں کے تسلسل میں جنم لینے سے رہ گئیں ۔
میں دسمبر 2013،لا ڑکا نہ گیا تومیں نے کا مر یڈ سے ان کی کچھ یا دیں کر ید نے کی کو شش کی ۔ کا مر یڈ ضعیف العمری کے با عث بڑی حد تک نحیف ہو چکا تھا اور اس کی آواز میں وہ گو نج با قی نہ رہی تھی ، حالانکہ پرانی باتیں اسے اچھی طر ح یا د ہیں ۔اور با وجو د اس کے آواز اس کا سا تھ نہیں دے پا تی اور وہ گفتگو کر تے تھک جا تا ۔اس کی گفتگو اب اتنی فصیح و بلیغ نہیں رہی لیکن یہ اچھا ہو اکہ محمدعلی پٹھا ن نے اس سے بہت کچھ لکھوالیا ہے یا کا مر یڈ جو کچھ کہتا رہا ہے ،محمدعلی پٹھان اسے قلمبند کر کے شایع کر ا تا گیا ۔یہ سب محمد علی پٹھا ن کا سند ھی قو م پر بہت بڑا احسا ن ہے ۔کا مر یڈ کی اکثر کتا بو ں کو نا ز سنا ئی نے ایک کلیا ت کی صورت ’’سو بھو کی تحر یر یں ‘‘ میں یکجا شا یع کر کے محفوظ کر دیا ہے ۔
میر ی اس مجلس (دسمبر 2013ء) میں اتفا قا سہیل سانگی اور محمد علی پٹھا ن بھی شر یک تھے ۔کچھ سو الا ت مشکل قسم کے بھی سامنے آئے۔ مثلاً کا مر یڈحسن نا صر کیسے گر فتا ر ہو ا ؟ اور یہ کسی کو بھی پتہ نہ تھا ، کیونکہ خو د کا مر یڈ سو بھوان دنو ں قید میں تھے انہیں ہند وستا ن سے نقل مکا نی کر آئے ایک وکیل پر شک تھا ، جس کا نام انہوں نے نہیں لیا کہا ،’’شا ید وہ ایک پنا ہ گیر و کیل تھا ، اس کا نام مجھے یا د نہیں آ رہا‘‘۔
انہوں نے اپنے متعلق کچھ با تیں بتا ئیں ،’’25جنو ری 1943کو جس وقت مجھے کراچی سے گر فتا ر کیا گیا ، اس وقت میں بیٹھا شا نتی نکیتن کے طلباء کا ’’کتھا کلی ‘‘رقص دیکھ رہا تھا۔ ایک استا د نے کر اچی میں مذکو رہ سکو ل کھولا تھا ۔وہاں 23 لڑکیاںآئی تھیں۔ میں بھی گیا تھا۔ مجھے اند ازہ ہی نہ تھا کہ وہا ں با ہر سی آئی ڈی والے میرے انتظا ر میں بیٹھے ہو ں گے ۔ میں اند ر گیا تو ایک بند ہ میرے پا س آ یا اور کہا ، جنا ب ! با ہر آپ کا کو ئی دوست کھڑا ہے ۔ ‘‘ میں با ہر نکلا تو ان سب نے مجھے گھیر لیا‘‘۔
کا مر یڈ کو اس وقت کی ایک ایک با ت یاد تھی ، اس نے کہا ،’’ اس وقت میر ے پا س ایک ڈنڈ ا تھا ، میں لڑ سکتا تھا ۔ میں نے سو چا ، لڑنے کا کیا فا ئدہ ؟ میں پا نچ چھ ما ہ انڈ ر گر اؤ نڈ رہا تھا، پھر وہ مجھے ایس پی کے پاس لے گیا۔ یہ وہی ایس پی تھا جس نے ایوب (کھوڑو) کو جیل میں ڈالا تھا۔ اس نے مجھے کہا ، ’’دادا ! مجھے تمہا رے متعلق کو ئی شک نہیں کہ تم کوئی Violent قسم کے آدمی ہو، لیکن مجھے ایک اطلاع چاہیے کہ پنجاب سے کچھ لوگ آئے ہیں۔ کیا وہ یہا ں ہیں‘‘ ؟ میں نے جو اب دیا ، مجھے کچھ پتہ نہیں اور نہ ہی میر ا ان سے کو ئی تعلق ہے ۔ مجھ سے آ پ کو کو ئی چیز نہ ملے گی ، آ پ چل کر میر ی تلا شی لے لیں ۔ میں خو د چھ ما ہ کے لیے انڈر گر اؤنڈ تھا۔‘‘ پھر ایس پی نے حکم کیا کہ ، اس کو لے جا ؤ ۔۔۔اسے اچھی غذااور بستروغیر ہ بھی دینا ۔یہ شر یف آ دمی اور پڑ ھا لکھا ہے ‘‘۔ وہ مجھے بولٹن مارکیٹ تھانہ لے گئے۔ وہاں انہوں نے 14 دنو ں کے لیے رکھا اور اس کے بعد پو لیس والے بھی بے زار ہو گئے ۔ کیو نکہ مجھے اچھی غذا دینی پڑتی اور میر ے ہاں ملا قا تی بھی بہت زیا دہ آتے تھے ۔ لہذا انہو ں نے مجھے کر اچی جیل بھیجنے کا فیصلہ کیا ۔ ‘‘ کا مر یڈ بو لتا جا رہا تھا اور ہم ہمہ تن گو ش سنتے جا رہے تھے ۔
’’پھر ۔۔۔۔ کر اچی جیل بھی سکھ کا مر یڈ چلا تے تھے ، وہ کا نگر یسی تھے ۔ وہ کھا نے پینے کو بھی سپر و ائز کر تے تھے ۔ وہ ہا ں ایک آ دمی کیسو جا نجا نڑیں بھی تھا ، وہ ٹا ئمز آف وار ، کا نما ئند ہ ، وہی مجھے بتا یا کر تا کہ کیا کچھ ہو رہا ہے ؟ وہ مجھے ڈبل روٹی پر گُڑ لگا کر دیتا اور اچھا کھا نا کھلا تا پھر جب سر کا ر نے دیکھا کہ جیل میں بھی اس کے کئی سا تھی بن گئے ہیں ۔ وہا ں بہت زیا دہ (1500 کا نگر یسی ) اور طلبا ء تھے ۔ ان سب نے میر ا بہت خیال رکھا۔۔۔ میں جب جیل پہنچا تھا تو انہو ں نے مجھے اپنے کپڑے پہننے کے لیے دیے اور میر ے تما م کپڑ ے دھو ڈالے ۔ انہو ں نے کہاکہ تمہا ر ے کپڑ وں میں جُو ئیں پڑ گئی ہوں گی ، کیو نکہ چو دہ دن تھا نے میں رہے ہو ۔ انہو ں نے میر ے تما م کپڑے تین دن تک کھا ر سوڈا میں دھو ئے اور پھر لو ٹادیے ۔ جیل والو ں نے یہی سمجھا کہ تما م طلبا ء کا لیڈ ر یہی ہے ۔ انہو ں نے مجھے پھر سکھر جیل بھیج دیا ۔
’’میں سکھر گیا تو جا تے ہی پھا نسی گھا ٹ میں جے رام داس سے ملا ۔ سب وہا ں تھے ۔ کچھ عر صہ کے بعد میر محمدکھو سہ بھی وہاں آیا۔سب کا نگر یسی ایم پی اے بھی آئے ۔ ۔۔۔ پھر میں نے انہیں کہا کہ سٹڈی سر کل شر وع کی جا ئے ۔ واقعات میں انہیں بتا تا تھا۔ سب سے پہلے 1857 کا بلو ہ ، اس کے بعد کا نگر یس کی تا ریخ کی پر تشد د تحر یک کے نتیجہ میں اس کی بنیا د کیو ں کر پڑی ؟ انقلا بی کلپنا دت، جس نے کتا ب ’’چٹا کا نگ آرمری وے‘‘ لکھی کہ انقلا بیو ں نے آر مری پر قبضہ کس طرح کیا ؟ سات دن تک چٹاگانگ پر قضہ رہا اور پھر ( وہ) پہاڑیوں کی طر ف بھا گ گئے ۔ اس کے چا روں طر ف سمند ر ہے اور پہا ڑیا ں ہیں ، جس طر ح کر اچی میں ہیں ۔ میں وہ دیکھنے گیا تھا۔۔۔ اُس عورت کے سا تھ ۔ اُس نے بعد میں پی سی جو شی کے ساتھ شا دی کر لی ۔ پی سی جو شی کمیو نسٹ پا رٹی کا ، سیکر یڑی جنر ل تھا، انہو ں نے پی سی جو شی کو نکال دیا تو جو ا ہر لا ل نہر و نے اسے ( جو ا ہر لا ل نہر و ) یو نیو رسٹی میں لا ئبر یر ین کی پو سٹ پر رکھا ۔۔۔۔
کا مر یڈ سو بھو بو لتا رہا لیکن اس کے تسلسل میں کچھ فر ق آگیا ۔ میں کو شش کر نے کے با و جو د ٹو ٹی ہو ئی کڑیا ں جو ڑ نہ سکا۔
وہ کہہ رہا تھا ۔ ’’اس کے بعد انہوں نے خط بھیجا کہ اپنی یا د داشتیں تحر یر کر کے بھیجو ۔‘‘ کیو ں کہ سو لہ سترہ ایا م کے بعد سو ویت یو نین میں ۔۔۔ ہو ا تھا نہ فیض ۔۔۔پا کستا ن کی سٹیٹ میں اس کی نما ئند گی تھی ۔۔۔ پکڑ لیا ، اس لیے کہ میں سٹڈی سر کل کے دنو ں میں جو سا ت ہو ل ٹا ئم لے گیا تھا۔۔۔ ہم اپنے گھر سے کھا نے منگو اتے اور مل جل کر کھاتے ۔کھانا ،کا مریڈ شانتا ،جو کہ بخا ری کی بیوی تھی ، وہ بناتی ، گھر سے جو کچھ بھی آتا، مل با نٹ کر کھا تے تھے ، ہم پارٹی سے تنخو اہ نہیں لیتے تھے ۔ ایک مر تبہ سی آرا سلم ،جو پنجا ب کمیو نسٹ پا رٹی کے سیکر یڑی اور پا کستان سنڑل کمیٹی کے رکن تھے ، میں اسے کھا نا کھلانے کمیون لے آیا ، وہ پیسے دینے لگا تو میں نے اسے کہا ،’’ہم پیسے لیتے ہی نہیں ہیں ۔۔۔کا مر یڈہیں ، مل کر کھا نا کھا یا ہے ۔ ہم اپنی جیب سے دیتے ہیں‘‘۔ وہ میر ی با ت سن کر دنگ رہ گیا اور کہا کہ پنجا ب میں بڑے بڑے سکھ کا مر یڈ روٹی کے کمیون سے ایک دوسرے کی اشیا ء تک اٹھا لے جا تے ہیں ۔ میں نے اسے کہا کہ ہم سند ھی رواج کے مطا بق مل کر کھا تے ہیں اور جس جس کو اپنے گھر سے جو ایشاء یا رقم ملتی ہے ، ہم وہ پا رٹی کو دے دیتے ہیں ۔۔۔ کا مر یڈ بخا ری ہمارے انچا رج ہو تے تھے ۔‘‘
کا مر یڈ سو بھو نے ان میں سے کچھ با تیں اور تفا صیل اپنی ’’آپ بیتی ‘‘ میں بھی بیا ن کی ہیں ،لیکن میں نے انہیں منع نہیں کیا کہ شا ید کو ئی رہ گئی با ت اسے یا د آجا ئے ۔وہ بو لتا رہا ۔
’’کا مریڈ آپ کو کتھا کلی کے دوران جس جگہ سے گر فتا ر کیا گیا،وہ کو ن سی ہے؟ ‘‘میں نے ان کی گر فتا ری کی رو داد مکمل کر نے کے لیے پو چھا ۔
’’وہ جگہ شکا رپو ری پنچایت ہا ل تھا۔۔۔ وہ جگہ نیٹی جیٹی پُل سے کچھ آگے ٹا ور کے قر یب ہے ۔ اس سے آگے گو دام ہیں ، میکلوڈ روڑ ہے ۔ وہا ں بینک آف انڈیا بھی ہو تا تھا۔۔۔اور ہمارا پریس بھی ہو ا کر تا تھا،جو ہم نے چا لیس ہزار (روپے) میں لیا تھا۔اس پریس کے لیے میں پو رے سند ھ سے چند ہ جمع کر آیا تھا، کیو نکہ پا کستا ن بنا تھا اور لو گ بھا گ رہے تھے ، تو کمیونسٹ پا رٹی نے جو پریس خریدا ، وہ ایک انگر یز ی اخبا ر والو ں کا تھا،ہم وہا ں سے سند ھی اخبا ر نکا لتے تھے ۔۔۔اخبا ر کا نا م اس وقت یا د نہیں آرہا شا ید آپ بیتی میں لکھا ہو ۔‘‘ کا مریڈ نے بتا یا ۔۔۔(کامریڈ سائیں جی ایم سید کا اخبا ر ’’نئیں سند ھ‘‘ (نیا سند ھ)ایڈٹ کیا کر تا تھا، لیکن اپنا نا م تحر یر نہیں کر تا تھا)۔
کا مر یڈ کی ایک کہا نی ’’ٹو ٹنا ایک گھو نسلے کا ‘‘ شا ید ’’نیءں دنیا ‘‘ نا می پرچے میں شا ئع ہو ئی تھی ، جیسا کہ انہیں یا د تھا، ’’جنگ کے زما نے میں جب ڈاکو مر نے کے با عث گا ؤ ں سے نقل مکا نی ہو ئی ۔۔۔۔‘‘ کا مر یڈ نے کچھ کہنا چا ہا ۔یہ شاید اس کہا نی کا پس منظر یا پلا ٹ تھا۔
کامر یڈ کی بہت سا ری با تیں ہیں ، لیکن ان میں سے اکثر اُس نے یا د داشت کے سہا رے اپنی کتا بو ں میں تحریر کر دی ہیں ۔ممکن ہے بہت سا ری با تیں بتا نا پسند بھی نہ کر ے کیو نکہ وہ کمیو نسٹ پا رٹی کا ایک اہم با ب ہے اور اس نے اس تنظیم اور نظر یے کے لیے اپنی ذاتی آزادی کے کئی بر س قر با ن کر دیے ۔ وہ کیوں چا ہے گا کہ کسی کو بے پر دہ کر ے ۔
پا رس ارشا د نے جب1974ء میں مجھے کا مر یڈ سوبھو کے متعلق کہا تھا کہ ’’وہ بہت خطر ناک آدمی ہے، تب میری سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ کو ئی آدمی ، دوست یا دشمن کے لیے خطر نا ک ہو سکتا ہے؟ لیکن جب میں نے کا مر یڈ سے ملنا جلنا شر وع کیا تو میں نے انہیں ایک سچا اور مخلص آدمی پا یا ،جس سے پاکستا نی مقتد رہ خو ف زدہ تھی ۔ دیکھیں ! کو ئی سچا آدمی تھو ڑا سا مضبو ط ہو کر کھڑا ہو جا تا ہے تو حکو متیں کس طر ح اپنے ہی ڈر کے با عث پھن اٹھا کر کھڑی ہو جا تی ہیں ۔سو بھو کی پو ری کتھا پڑھ کر دیکھیے ! کہیں بھی کسی پٹاخے کا ذکر نہیں ،صر ف کتا بو ں اور کمیو نسٹ خیالا ت اور وطن کی با ت ہے ، سٹڈی سرکل اور انقلا ب کے لیے ذہن تیا ر کر نے کی با ت !
یہ آدمی پا کستان کی تا ریخ کا ایک ضنحیم با ب ہے ، بہت بڑی درس گا ہ ہے ، جو گیا وہ تاریخ کی کتا ب میں غر ق ہو گیا۔ با با سا ئیں (جمال ابڑو) کامر یڈ سوبھوکا بہت احترام کر تا تھا، حالانکہ وہ کمیونسٹ پارٹی کا رکن نہیں تھا، لیکن تا ج محمد ابڑو کے با با کے ساتھ گہر ے تعلقا ت تھے ، جو نہ صر ف پارٹی رکن تھا بلکہ جج اوروکیل تھا۔ تا ج محمد ابڑو کامریڈسو بھو کا سا تھی تھا لیکن ظا ہر کبھی نہیں ہو ا ، اس حد تک کہ میں نے بھی کبھی محسوس نہ کیا تھا، حالا نکہ میں ان تینو ں اشخا ص کے قر یب تھا۔ کتنے احتیا ط اور رازداری کے سا تھ گزارتے ہیں یہ لو گ!!

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *