Home » کتاب پچار » کتاب: بلوچ عورتوں کی تحریک ۔۔۔۔ تبصرہ: ثمینہ سحر

کتاب: بلوچ عورتوں کی تحریک ۔۔۔۔ تبصرہ: ثمینہ سحر

کتاب کے اس تاریخی سفر کو بہت خوبصورتی کے ساتھ رائٹر نے حقیقت پسندانہ طریقے سے بیان کیا ہے ۔ بہت کم مصنف اس سوچ کی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ تب ایک مرد عورت کے وجود کی حقیقتوں کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے اُسے اس کائنات میں اپنی طرح جینے کا حق دیتا ہے تو عورت کو تو جیسے دنیا میں ہی جنت مل گئی مگر اُس تہمتوں کا کیا جو اُسے جنت سے نکالے جانے کا ذمہ دار ٹھہراتی ہیں اور انہی تہمتوں کی بنیاد پر مفت کی چلتی ہوئی گھڑی کی ہر ٹک ٹک کے ساتھ دونوں کے درمیان کشیدگی خوفناک روپ دہارتی رہی۔ دونوں ایک ہی راستے کے مسافر تھے مگر کچھ انا پرست راہ گزروں نے دونوں کے راستے الگ کرکے دونوں کو علیحدہ راستے کا مسافر بنا کر بھٹکادیا۔
تاریخ سے لے کر آج تک دونوں ہستیوں نے زندگی کی بقا اور معاشرے کی فلاح کے لیے یکساں کردار اداکیا ہے مگر اعلیٰ پرستی اور حاکمیت کے جراثیم نے تاریخ کی سُرخیوں میں عورت کے کردار کے رنگ کو اس طرح سے بے رنگ لکھا ہے جیسے طلوع ہوتے اور غروب ہوتے سورج کے درمیان اُس کا کوئی کرار ہی نہیں تھا۔
اس کتاب کو پڑھنے کے بعد میرے وجود کی اُس گمنام سی ہستی نے پھر سے آنکھیں اُٹھا کر مجھے کائنات میں اپنے انمول ہونے کا احساس لایا ۔میرے ذہن میں اُٹھتے ہوئے کئی سوالات کے جوابات سے آشنا کروایا۔’’ جو سمندر کے سینے پر رقص کرتی ہوئی لہروں کی طرح میری روح کو بے چین کرتے تھے ۔ کیونکہ جب سے میری روح کو کائنات کی خوبصورت تیرین ہستی کے وجود کا حصہ بنایا گیا اور تین ماہ بعد جب میرے معصوم سے احساس نے اُس کی آنکھوں سے دنیا کو محسوس کرنا شروع کیا تو مجھے ہر وقت کبھی کسی بڑے بزرگ کی کہاوتوں میں تو کبھی مجھ ہی سے منسلک ہستیوں نے لمحہ بہ لمحہ احساس دلایا کہ میں ایک ایسی قیدی ہوں جسے سزا کے طور پر زمین پر اُتارا گیا ہے جسکی زندگی کا مقصد پہلے سے ہی طے ہوچکا ہے کہ میں گھر نام کی ایک جیل میں رہ کر اپنے آقا کی خدمت گزار اور ہر حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ساری زندگی ان دیواروں کے بیچ گزاردوں۔ میری زندگی میں اگر تبدیلی کی گنجائش ہے تو صرف اتنی کہ میری سلطنت کے بادشاہ گزرتے وقت کے ساتھ تبدیل ضرور ہوں گے۔ ہر آقا کو پوری طرح سے یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق مجھے چلائے۔
مگر جب قیدی بے گناہ ہو اور خواہ مہ خواہ ہی اُس جرم کی سزا کاٹ رہا ہو جو اُس پر ثابت ہی نہیں تو سچائیاں ایک دن خود بخود بولنے لگتی ہیں۔ مسیحا معجزہ بن کر اُبھرنے لگتے ہیں۔ حیران کُن بات تو یہ ہے کہ جب آقا مسیحا کے روپ میں سامنے آنے لگیں تو حقیقت کو تسلیم کرنے کا مزہ ہی الگ ہوتا ہے۔
تاریخ میں جب انسان نے جنگلوں میں رہ کر انسان کو انسان کے ہی روپ میں تسلیم کیا تو دونوں کی اہمیت یکساں تھی۔ مگر جب انسان کے بیچ حیثیت کے تصور نے جنم لیا تو آہستہ آہستہ اہمیت کسی ایک ہستی کے وجود کا حصہ بن گئی ملکیت اور حاکمیت کے نشے نے ایک ہی جسم کے دو ٹکڑے کردیے۔
وقت کے ساتھ ساتھ دوسرے حصے کو اپاہج اور بے جان قراردیا گیا۔ مگر جب اس معصوم سے قیدی کی پلکوں پر روشنی کی کرنوں نے دستک دی اور کائنات میں اپنے وجود کی اہمیت کو تلاش کرنے کے لیے اُس کی روح کو بے چین کیا تو اُن بند پلکوں نے شعوری طور پر اپنے آپ کو جاننے کا سفر طے کیا۔ تب اُسے اپنے جنم پر پچھتاوا نہیں بلکہ خوشی محسوس ہوئی کہ میں اُس جنگ کی سپاہی ہوں جس کی فتح سے معاشرے کے آقاؤں کو ڈر لگتا ہے۔ ڈر کس بات کا ؟ ڈر اس بات کاکہ اگر حیثیت کے تصور نے انسانیت کی سوج کو دوبارہ سے جنم دیا تو جسم کے دو ٹکڑے پھر سے ایک ہوجائیں گے اور پھر ایک اپاہج جسم صحت یاب ہوکر ایک صحت مند معاشرے کی قیام کو یقینی بنائے گا۔
اس کتاب نے معاشرے کی لگائی ہوئی تمام تہمتوں ، کہاوتوں کو غلط ثابت کیا ہے جو کہ ایک عورت کے کردار اور اُس کی اہمیت کی غلط ترجمانی کرتی تھیں اور نہ چاہتے ہوئے ایک عورت اُس کشمکش میں مبتلا ہوجاتی جو اُسے احساس کمتری میں مبتلا ہونے کا باعث بنتی۔ یہ کتاب اُن عورتوں کے لیے مدد گار ثابت ہوگی جو اپنے وجود کی اہمیت کو معاشرے کی نظر دیکھتی ہیں۔

Spread the love

Check Also

فلم بازار اور عورت کی منڈی۔۔۔ مریم ارشد

ہمیشہ سے یہی سْنتے آئے ہیں کہ زندگی مشکل ہے۔ لیکن زندگی مشکل نہیں ہے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *