Home » قصہ » کیوں دیر ہوئی ۔۔۔ اوہنری / زبیر شادؔ

کیوں دیر ہوئی ۔۔۔ اوہنری / زبیر شادؔ

آسٹن کی شما لی طرَ ف سموتر کے نام سے ایک عزت دار خا ند ان رہا ئش پذ یر تھا۔ اس خاندان میں جان سموتر اور اُس کی پا نچ سا لہ بیٹی اور اس کے سا تھ اس کے والدین بھی رہتے تھے ۔جان سمو تر کو اپنی لڑکی سے بڑا پیا ر تھا جو انتہا ئی خوبصورت اور خوشنما تھی۔ وہ سرُ خ و سفید نا زک خر گو ش کی ما نند تھی اُس کے سرُ خ رنگ کے با ل اُس کے کندھے اور چا ند جیسے ما تھے پر بکھر ے ہو ئے تھے ۔ہر دم ہنسنے والی یہ لڑکی اپنے گھر کے سا تھ والی با غ میں تتلیوں کے سا تھ بھا گتی تھی ۔ اپنے والدین کی آنکھوں کی نو ر تھی۔
ایک شا م با رش بر سنے کے بعد مو سم سر د ہو گیا۔لوگ جلد ی جلد ی اپنے گھروں کو جا نے لگے ۔ جان سموتر کی بیوی نے اُس بتا یا کہ بچیٌ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔اسے تیز بُخا ر ہے۔
جان سموتر رات کے کھانے کے بعد آگ پر بیٹھا اخبا ر پڑھ رہا تھا وہ اِس با ت پر بہت غمزدہ اور پر یشان ہوا۔
وہ جلد ی سے اپنی بیوی کے سا تھ اُس کمر ے میں چلا گیا جہا ں فلورا سو رہی تھی۔ اُس نے دیکھا اُس کی چھو ٹی سی بیٹی کا سرُخ اور سفید چہر ہ انگارے کی طر ح سرُخ تھا۔ جا ن سموتر نے محبت کے سا تھ اپنا ہا تھ اس کے رُخسارؤں پر رکھا۔ اُس کو ایسا لگا جیسے اُس نے ہا تھ گر م لوہے پر رکھا ہو ۔
’’بیٹی تمھیں کیا ہوگیا ہے؟ تمہیں بخا ر ہے ۔میں ابھی جا کر دوائی لاؤں گا‘‘۔
یہ کہتے ہو ئے اُس نے اپنا رین کو ٹ اور ٹو پی اٹھا ئے اور دوائی کے لیے چلا گیا۔
وہ جانتا کہ با رش کی رات کوکیمسٹ اور میڈ یسن کے سٹو ر بند ہو گئے ۔لیکن بچیٌ کی حالت وہ بیٹھ کر دیکھ نہیں سکتا تھا۔
کیونکہ تھو ڑے سے بخا ر سے فلورا کا رنگ زدر پڑ گیا تھا۔اس طر ح بغیر دوائی کے اگر یہ پوررات گزرجا ئے تو کل تک نہ جا نے کیا ہو گا۔ یہ سو چتے ہو ئے جا نؔ سمو تر پریشانی کی حا لت میں گھر سے نکلا اور پھرکبھی واپس نہیں آیا ۔
صبح فلورابا لکل ٹھیک ہوگئی ۔سا ل اور ماہ گز ر گئے لیکن فلورا کا با پ نہیں آیا اور فلورا نو جوانی کی عمر میں پہنچ چکی تھی۔
اُس کی ماں جینیؔ اپنے شوہر کے لا پتہ ہونے پر بہت غمگین اوراُداس ہو ئی۔ بعد اُس نے اپنی بیٹی فلورا کی شا دی کرائی۔ شوہر کے لاپتہ ہونے پر اُس نے آگے زند گی گز ارنے کے لیے دوسری شا دی کر لی ۔فلو را اپنی شا دی کے بعد اپنے والد کے گھر رہنے لگی ا وریو ں وہ ایک چھو ٹا سا خاند ان بن گیا تھا۔ فلورا اپنے شوہر پیٹرؔ اور بیٹی سٹیلیؔ کے سا تھ خو ش تھی اور کبھی کبھی اُسے اپنے مہر با ن باپ کی یا د ستا تی تھی کہ وہ اُس کے لیے دوائی لینے گیا اور کبھی واپس نہیں آیا۔
ایک سر دی کی رات فلورا اپنی بیٹی کی بانچویں سالگر ہ کے لیے کیک بنا نے کے بعد تھوڑی سی آرام کے بعد اُٹھی اور اپنی بیٹی کا کمبل درست کر نے لگی تو اُس کو لگا کہُ اسے تیز بخا رتھا ۔
وہ بہت پر یشا ن ہو ئی جب اُس کا شوہر کا م سے واپس آیا اور دوسرے کمر ے میں چلا گیا۔ تو فلورا جلد ی جلد ی اُس کے پیچھے گئی اور کہا بچی کی طبیعت ٹھیک نہیں ۔نجانے اِس وقت کمیسٹ کے سٹو ر کھلے ہو نگے یانہیں؟
یہ با ت بو لتے ہو ئے وہ گھبرا گئی اور تھوڑی دیر بعدکہنے لگی ’’آپ کہیں بھی نہ جا ؤ میر ے پا س گھر ہی میں بخا ر کے لیے دوائی کا نسخہ مو جود ہے‘‘ ۔
رات ہوگئی۔ پیٹرؔ اور فلورا اپنی بچیٌ کے پا س بیٹھے تھے ۔سٹیلیؔ کا بخا ر تیز ہو تا چلا جا رہا تھااور فلورا خاوند کو نہیں جا نے دی رہی تھی۔
اچا نک دروازہ کُھلا،اور ایک سفید بال والا شخص اندر آگیا۔
اُس نے با رش سے بھیگا ہوا ایک پھٹا پرانا ’’رین کو ٹ‘‘ پہنا ہو ا تھا۔ اُس کے نیچے پُر انی پھٹی ہو ئی پتلون اورپھٹے بو ٹ پہنے ہو ئے تھے۔ دائیں جانب ایک بڑاساتھیلا اٹھا یا ہوا تھا جس کے وزن سے اس کی کمر جھکی ہو ئی تھی ۔
سفید ریش نے پہلے فلو را اورسٹیلیؔ کو دیکھا اوراس کا تھیلا ہا تھ سے گرگیا۔ میڈیسن اورسیر پ وغیرہ کی بو تلیں اور ڈبیا ں زمین پر گر کر بکھرگئیں۔ سفیدریشؔ نے تھکی ہوئی آواز میں کہا ’’جینیؔ یہ دوائیاں فلورا کو دے دو۔ معا ف کر نا دیر ہو گئی کیونکہ دور دورتک دکانیں بند تھیں‘‘ ۔

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *