Home » پوھوزانت » سند ھ کا سو بھو ۔۔۔ انو ر پیرزادو / ننگر چنا

سند ھ کا سو بھو ۔۔۔ انو ر پیرزادو / ننگر چنا

سند ھ کا سو بھو بین الاقو امی دنیا کا وہ عا لم اور دانشور ہے،جس کی فکر مشرق و مغر ب کے فلسفیانہ سنگم سے پر وان چڑہ کر بر صغیر کی سر زمین سے پیو ستہ ہو گئی ہے۔
اس کے فکر کی نپل کی آ بیا ری چو نکہ سند ھو (دریا ) کے پا نی نے کی ہے، اس لئے سند ھ، سو بھو کے فکر ی خو ابو ں اور حقیقتو ں کی پہلی اولمت ہے۔
سو بھو مجھے تو بھئا ئی کے اس بہت کی طر ح لگتا ہے:
اے میر ے دوست! میر ے آقا ! ہمیشہ سند ھ پر اپنا کر م رکھنا
اے دھنی تو سب کا پا لہنا ریہے، تو سب کا بھر م رکھنا ۔
کا مر یڈ سو بھو گیا نچوانی کے سا تھ چا لیس سا لہ رفا قت کے با و جو د میں تو اس کی فکر ی وسعتو ں کو چھو نہیں پا یا، اس لئے کو ئی ایسا دعو یٰ بھی نہیں کر سکتا کہ مجھے اسی مو ضو ع پر کو ئی گر فت حا صل ہے۔ جس کا نا م ’’سو بھو ‘‘ ہے۔ سو بھو علم کا وہ بھنڈ ار ہے، جس کا مطا لعہ علما ء کی کو ئی ٹیم (گر وہ ) ہی کر سکتی ہے اور اس کے لئے ہنو اور سند ھ کی جا معا ت کو ’’ چیئر ز‘‘ قا ئم کر نی چا ہیں ۔سند ھ میں یہ کا م سند ھ کے گو ر نر اور جا معا ت کے وا ئس چا نسلر ز کو کر نا چا ہیے ۔حکو متِ سند ھ کے ادبی اور ثقا فتی اداروں اور غیر سر کا ری ادبی تنظیمو ں کو بھی اس سلسلہ میں اپنا کر دار ادا کر نا چا ہیے۔سوبھو کیworld dreamاور sindh dream کا مطالعہ سند ھ کی فکر ی تتا ریخ کا ایک اہم با ب ہے، جیسے ریکا رڈ کیا جا نا چا ہیے۔
ضر ورت اس با ت کی ہے کہ سو بھو کو ڈاکیو منٹ کیا جا ئے، اس کا آ ڈ بو ویڈ یو لا ئف پر و فا ئل بنا نے کے لئے اس کے طو یل انٹر و یو ز کیے جا ئیں اور اس کی پیو ائش سے لے کر تر ا سی (83) بر س کی عمر تک کی اسی کی زند گی کو پر نٹ میڈ یا اور الیکڑ انک میڈ یا میں محفو ظ کر دنیا چا ہیے ۔ یہ علم کی وہ ممی فکیشن (Mummification) ہو گئی ،جیسے سند ھ کی آئند ہ نسلیں صو بو ں تک پڑ ھ اور جا ن سکیں گی ۔
سو بھو نے آ ج تک جو تحر یر کیا ہے،وہ شا یع نہیں ہو سکا ہے ۔ اس کی آ پ بہتی کی بیس کیقریب آدیو کیسٹ رس کی آواز میں انگر یز ی میں ریکا رڈ شو ہ ہیں ، جو ابھی تک کا غذ پر نہیں اُتا ری گئی ہیں۔سوبھو کا با لشیو زم ، اس کے سند ھی مزاج میں رچی بسی و بر انیت اور صوفی مت ، اس کی دہر یت، سند ھی ہندو ثقا فت ، سند ھی کیو نسٹ کلچر ، سند ھی نیشنلزم ، سند ھ کی محنت کش سیا ست ، سند ھ کے پا نی کا ایشو ، مو ہن جو کا دڑو،وادیء سند ھ کی تہذیب ، سند ھی جا گیر دارنہ کلچر ، بر صیغر کی تقسیم ، ہند و ستا ن اور پا کستا ن کی پیدائش اور سند ھ کا نصف صدی کا درد، یہ کچھ ایسے مو ضو عا ت ہیں، جن پر سو بھو کا مو ئف انو کھا ، تخیل اور عبر ت میں ڈا ل دینے والا ہے۔
سو بھو کا سیا سی اور سما جی تجزیہ اپنے ھم عصروں سے اس لئے بھی مختلف اور تخلیق ہو گا ۔کیو نکہ وہ مظلو م انسا نیت کا وکیل ہے اور آدمی کے دکھ درد کو اپنے دل میں محسو س کر تا ہے اور خو ددار اور اٹل ایسا ہے جیسے گلیلیو جو کہتا ہو ،’’با ئبل میں چا ہے کیو ں نہ بتا یا گیا ہو لیکن میں نے حسا ب لگا کر دکیھا ہے کہ زمین گو ل ہے‘‘۔
سو بھو کا کمیو نسٹ خو اب (communist Dream of sobho ) ابھی تک پو را نہیں ہو ہے، لیکن اس کے لیے جا ری جد و جہد بھی ابھی اختتا م کو نہیں پہنچی ۔ وہ اپنے خو اب پر ابھی تک اٹل کھڑ ا ہے اور شا ہی قلعہ کے ٹا رچر سے لے کر اقتدار کی لا لچو ں تک کہ تما م حر بے اسے اپنی سو چ سے ہٹا نہیں سکتے ۔اس کے خو اب والے نظر یہ کے عملی نفا ذ کی صورتیں تبد یل ہو سکتی ہیں،لیکن سو بھو نے جو وتا بو فقیر والا پیشگی دھرنا دیا ہے ، وقت اسے شا ید غلط ثا بت نہ کر سکے ۔
سو بھو داخل طو ر پر گیا ن پرُ ش کا سند ھی �آ دمی ہے۔ اس کے کر دار کی عظمت کا بڑا راز یہ ہے کہ سا دہ زنذگی بسر کر تا ہے، شراب پیتا ہینہ سگریٹ نہ ہی کلبو ں میں خو اتین کے سا تھ ڈا نس کر تا ہے۔ میں نے جب 1960ء کے قر یب کا مریڈ کو پہلی مر تبہ اس کے گا ؤ ں بنڈی ا(نزد مہن جو دڑو،لاڑکا نہ) میں دیکھا تھا تب وہ دادو کینا ل کے دا ئیں کنا رے ایک گھنے درخت کے سا ئیتلے ننگی چا ر پا ئی پر بیٹھا تھا اور انگر یزی میں تحر یر ایک مو ٹی سی کتا ب پڑ ھ رہا تھا۔اس نے ہلکے نیلے رنگ کی قمیصپہن رکھی تھی جو ڈبل سلا ئی تھی ، بہتر ین لٹھے کی شلو ار اور پا ؤ ں میں پشا وری چپلیں ۔ چا لیس بر سو ں کے بعد آ ج بھی کو ئی سیتا ج سند ھ کے اس علمی میو ز کو دیکھنے جا ئے گا تو اسے وہی حلیہ دیکھنے میں آئیگا ۔ اگر اسے اصطلا ح میں بیا ن کیا جا ئے تو کہا جا سکتا ہے کہ سو بھو ایک فنا کے درجہ تک پہنچا ہو ا درویش آدمیی ہے۔ وہ انسا ن جو مکمل (Perfect Man) ہو تا ہے، جو سیلق لیس Self Less) ) ہے، جو اپنے لئے کم اور دو سرو ں کے لیے زیا دہ سو چتا اور کر تا ہے ، اسے خو دشنا ئی اور معبتر ی قتا نے سے کھن آتی ہے۔اور چھو ڑ یے وہ اپنے مطا لعہ اور علم پر بھی نا ز نہیں کر تا ۔ ’’ میں ، میں ‘‘ نہیں کر تا ۔ عقل اور فہم کی با ت کر ے گا ۔ فضیلت و و اخلا ق کا فزیت ہے ۔ میں نے چا لیس بر سو ں کے عر صہ میں سو بھو کے منہ سے گند ی با تْ گا لی نہیں سُنی ہے۔وہ عا قل و دانا انسا ن ہے اور زبا ن دا نی کا ما ہر ہے، جیسا سند ھی زبا ن کا ویسا اردو کا بھی لیکن انگر یزی میں اس سے بھی آگے ۔ وہ جب نفر ت انگیز کر دارو ن کا ذکر کر تا ہے تب اس کے الفا ظ میں کر اہیت ،نفر ت ،غصہ اور کڑ و اہٹ ضرور ہو تے ہیں لیکن الفاؓ عر یا ن نہیں ہو تے ۔وہ غصہ کی حا لت میں بھی عقل کا دا من نہیں چھو ڑتا البتہ اس کے پا س الفا ظ کی بر چھیا ں بھی ہیں ،تو بیز ے بھی ۔
ایک مجلس میں با نکلی کہ سند ھی نو ا جو ن میں پڑ ھنے کا شو ق کم ہو تا جا رہا ہے، بس پر سو بھو نے کہا ، ’’ آ پ سند ھی مسلما نو ں کا پیغمبر اور عظیم شا عر ( شا ہ لطیف ) اگر ’’اُ میٌ‘‘ ہو سکتے ہیں تو پھر آ پ کو پڑ ھنے اور مطا لعہ کر نے کی کہا ضر ورت ہے!‘‘
وہ ہمیشہ نو اجو انو ن کو مطا لعہ کر نے کی ، کتا ب پڑ ھنے کا مشو رہ دیتا تھا اور اپنی ذاتی لا ئبر ری سے نا یا ب کتب نکا ل کر دیتا تھا، جو پھر اسے وا پس بھی نہیں ملتی تھیں اور وہ ان نقصا نا ت پر ملو ل بھی ہو تا تھا۔
سو بھو زمیند ار گھر انہ سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کا بڑا بھا ئی علا قے کا بڑا زمیندار رہا ہے ۔ وہ کبگی کبھا ر اپنی مصر وفیت کے سبب سو بھو سے کہتا کہ جا ؤ کسا نو ن کے سا تھ انا ج کا بٹوارہ کراٗ ؤ تو سو بھو کھیت سے حا صل شدہ ہ انا ج کا ایسا بٹوارہ کر اٗ تا کہ اس کا بڑا بھا ئی بھی نا راض ہو جا تا اور اپنے چھو ٹے بھا ئی کو پھر کبھی ایسے کا م کے لیے نہ کہتا تھا۔ وہ کئی معا ملا ت میں اپنے بڑ ے بھا ئی کو مشو رے بھی دیتا اور یہہی سبب ہے کہ اس کے زمیند ار بھا ئی نے سند ھ کے روایتی و ڈیر ے کی طر ح کبھی بھی ظلم و ستم اور جبر سے کا م نہیں لیا،بلکہ کسا ن خا ند انو ن کی مد د کر تا رہا ہے اور ان کی زند گیو ں میں مثبت تبد یلیا ں لا نے میں کر دار ادا کیا ہے۔
لیکن جب کا مریڈ سو بھو نے عملی طو ر پر کیو نسٹ پا رٹی میں کا م کر نا چھو ڑ دیا ،تب کچھ لو گ کا مریڈ کو ’’وڈیر ہ ‘‘ کہ کر ظعنہ دیا کر تے تھے۔میر ا دل اما م علی نا زش سے اس دن بر گشتہ ہو ا ۔ جس دن اُس نے مجھ سے پو چھا تھا، ’’ ہما را وڈیر ہ کا مریڈ کس حا ل میں تھا؟‘‘ میں جب بھی کر اچی سے گا ؤ ں جا تا اور لو ٹ آتا تو کا مر یڈ نا زش مجھ سے مذ کو رہ سوال ظنزیہ اند از میں تھا اور میں دل ہی دل میں کڑھنے لگتا تھا کیو نکہ کمیو لز م سے میر ی پہلی شنا سا ئی کا سبب سو بھو تھا، اس لیے میں سوچا کرتا کہ
جس کے سبب میں نے مہیو ال کا منہ دیکھا ،
وہ گھڑامجھے عزیزتر ہے ، اس کو کس طر ح چھو ڑوں ۔ (شا ہ لطیف )
سو بھو کے بعدجا م سا قی تھا جس نے کمیو نز م کے لیے عملی جد وجہد کا درس دیا تھا۔جب با ہر ہو کئے تو پھر کمیو نسٹ آبیا ری ہو نا بند ہو گئی ۔
بیر حا ل ، میں نے سو بھو کے منہ سے کبھی کسی کا مر یڈ کے لیے کو ئی ایسا ریما رک ، نہیں سُنا ، جب کبھی با ت نکلتی تو سو بھو زیا دہ تر نظر یا تی نقاط پر تنقید کر تا ۔ وہ اپنے کچھ پر ا نے سا تھیو ں سے اختلافا ت بھی رکھتا لیکن ان پر رقیق حملے کبھی نہ کر تا۔اس وقت سو بھو کے سیا سی مخا لفین بھی اس با ت پر اتفا ق کر یں گے کہ بر صیغر کے کمیو نسٹ حلقو ں میں شا ید ہی کو ئی اتنا پڑھا لکھا کا مریڈ ہو گا۔جتنا کہ سو بو ہے۔ اس کے 83 ویں جنم دن کے مو قعہ پر آشا ہے کہ ہما ری زند گیا ں بھی اسے مل جا ئیں تا کہ وہ اپنے علم کی لَو سے انسا نو ں کے دلو ں کو منو ر کر تا رہے۔
(یہ مضمو ن مر حو م انو ر پیر زادو نے کا مریڈ سو بھو گیا نچندانی کی 83 ویں سا لگر ہ کے مو قع پر لکھا تھا۔)
کا مریڈسو بھو نے 21 برس کی عمر میں کمیو نسٹ پا رٹی میں شمو لیت کی اور پھر مر تے دم تک وہ اسی فکر اور نظر یہ سے وابستہ رہا۔اس نے عمر رفتہ کے آخر ی دنو ں میں بھی امید پر ستی نہیں چھو ڑی اور نہ ہی دل شکستہ ہوا۔ سو ویت یو نین کے ٹو ٹنے کے بعد بھی اسے پختہ یقین تھا کہ انقلا ب ضر و ر آئے گا ۔کیو نکہ سر مایہ داری کے پا س انسا نی بر ادری کو دینے کے لئے کچھ زیا دہ نہیں ہے اور دوسر ا کو ئی راستہ بھی نہیں ہے ۔
تقسیم ہند کے وقت کئی احبا ب نے اسے مشو رہ دیا کہ آپ انڈیا نقل مکا نی کر جا ئیں ، لیکن اس نے انکا ر کر دیا اور کہا تھا کہ وہ سر زمین سند ھ کا بیٹا ہے ،اس کا ما ضی ،حا ل اور مستقبل اسی سے وابستہ ہے۔نقل مکا نی کر نے کے متعلق سو چنا بھی اتنا تکلیف دہ ہے ۔
کا مر یڈ سے جب بچو ں نے اس کی صحت کا راز پو چھا تو اس نے بتا یا کہ کبھی شراب نہیں پیا۔ سگر یٹ نہیں پی، جھو ٹ نہیں بولا اور نہ ہی کسی غیر عو رت کو کبھی بری نظر سے دیکھاہے۔جس با ت کو صحیح جانا ،اس پر قا ئم رہا ۔پا نچو یں خو بی تھی اپنے نظر یہ اور اپنی فکر سےُ اس کی وابستگی ۔ یہا ں تک کہ جو کچھ بھی لکھا ،بو لا اور عمل کیا وہ سب نظر یہ سے مطا بقت رکھتا تھا۔قول و فعل میں کو ئی کجروی یا تضا د نہ تھا۔
تقسیم مذہبی بنیا دوں پر ہو ئی ، اوپر سے پچا س کی دہا ئی میں کمیو نسٹو ں کے خلا ف معا نداز نہ اقداما ت اٹھائے گئے۔ کا مر یڈ نے دو ستو ں کے مشو رے کے بعدپارٹی قیا دت پر نہ آنے کا فیصلہ کیا۔لیکن پارٹی میں رہ کر کا م جا ری رکھنے کا فیصلہ کیا۔سا ٹھ کے عشرہ میں جب کمیو نسٹ رہنما حسن نا صر کو شہید کیا گیا ،تب گر فتا ر شدگا ن میں کا مریڈ سو بھو بھی شا مل تھے ،جنہیں بد نا م زما نہ اذیت گا ہ شا ہی قلعہ میں رکھا گیا۔ بھٹو دور میں پھر ان کی گر فتا ری کے ورانٹ جا ری کئے گئے۔اس وقت بلو چستا ن کے گو رنر میر غو ث بخش بزنجو نے بھٹو کو اس با ت پر قائل کیا کہ سو بھو کو گر فتا ر نہ کیا جا ئے۔
ایک وقت میں ہم نے کا مر یڈ سے ملا قا ت کی اور میر ی ادارت میں کر اچی سے شا یع ہو نے والے اخبا ر میں طو یل گفتگو کے بعد اس با ت پر رضا مند کیا تھا کہ وہ ہفتہ وار کا لم لکھیں گے ۔ بعد میں ہو ایو ں کہ کا مر یڈ بو لتا اور محمد علی پٹھا ن اسے لکھتا اور ہمیں بھیج دیتا ۔ وہ کا لم ’’ تا ریخ بو لتی ہے‘‘ کے نا م سے شا ئع ہو تا تھا ۔بعد ازیں وہ کا لم کتا بی شکل میں شا یع ہو ئے۔
پا کستا ن کے سیا سی نظا م نے کا مریڈ کو کبھی بھی ہضم نہیں کیا ۔ انہیں بر سو ں قید کا ٹنی پڑی یا پھر روپو ش رہنا پڑا ۔انہوں نے1988ء کے عام انتخا با ت میں بھی حصہ لیا ، لیکن فر شتو ں کی جا نب سے جمع تفر یق کے حسا ب سے انہیں با ہر رکھا گیا،با لکل اسی طر ح جس طر ح انتو نیو گرامچی کے لئے اس کے ملک کے آمرنے کہا تھا کہ اسے کم از کم 30 بر سو ں تک عو ام سے دور رکھا جا ئے ،اسی طر ح کا مریڈ سوبھو کو بھی عو ام سے دور رکھا گیا۔وہ خو د کہا کر تے تھے کہ اشر افیہ اسے تریمو رتی دیو سمجھتی ہے۔ایک کمیو نسٹ،دوسرا سند ھی، اوپر سے ہند و۔پچا س اور سا ٹھ کی دہا ئی میں کمیو نسٹ تحر یک اور اس کے مختلف محا ذوں کومنظم کر نے میں کا مر یڈ کا کر دار بہت اہم رہا ہے۔ وہ کر اچی کے محنت کشو ں کا لیڈر اور تر قی پسند ادیبو ں کا سا تھی تھا۔سا ٹھ کی دہا ئی کے اوا خر میں پا کستا نی ا سٹیبلشمنٹ نے عملا کسی بھی حقیقی کمیو نسٹ کو اپنے سا تھ نہ رکھنے کا فیصلہ کیا۔کا مریڈ اس کے بعد بھی فطر ی اور ذہنی طو ر پر پا رٹی سے و ابستہ رہے ۔پا رٹی کئی مو اقع پر ان سے رہنما ئی حا صل کر تی رہی ۔کا مریڈ سو بھو اپنی فکر سے و الہا نہ طو ر پر منسلک رہے، اس وابستگی کو کو ئی سختی یا جبر تو ڑ نہ سکا ۔وہ ایک اٹل ،قو ل و فعل میں ہم آہنگی رکھنے والے ،حقیقی معنو ں میں سیا سی کا رکنا ن کے لیے مکمل رول ما ڈل تھے ۔
میر ا عشق تھا گو ا ہی تیر ے حُسن کی
دیکھ اس گو اہی پر قا ئم رہے ہم

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *