اِک اُ جڑا آشیا ں تم ہو
مرِے دُکھ کی فُغا ں تم ہو
وفا اِک خُو شمنا پو دا
اور اُس کا سا ئبا ں تُم ہو
کھلےِ تھے پُھو ل جِس رہ پر
وہ سا را بو ستا ں تم ہو
میں جِس کا اِک تسلسل ہو ں
وہ سا ری داستا ں تم ہو
جہا ں میں جا نہیں پا یا
وہا ں کا کا رواں تُم ہو
تمہا را خُو ں کہا ں پھیلا ؟
سر نو ک سنا ں تم ہو؟
ہر اِک شے میں نما یا ں تم
دریچے سے عیا ں تم ہو
قفس ہے جس کا اک حصہ
وہ مہکا گلستاں تم ہو
Check Also
سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید
روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...