زخمِ دل کیونکر دکھاوں اور شکایت کیا کروں
اپنی حالت دیکھ کراس کی حمایت کیا کروں
جانتا ہوں ایک سورج سائباں بننے کو ہے
اے مرے دل مجھ پہ ہو ایسی عنایت کیا کروں
اس کی آنکھوں میں حیا ہے میری آنکھوں پر نقاب
اے خدا میں اپنی آنکھوں سے رعایت کیا کروں
جو سمجھتا ہی نہیں مجھ کو نا میری ذات کو
ایسے انساں سے محبت کی حمایت کیا کروں
خوش نصیبی ہے مری مجھ سے محبت اس کو ہے
میں ہی ہوں مصروفِ دنیا تو شکایت کیا کروں
اس جہاں میں دیکھ خاورؔ پیار کرنا جرم ہے
اے مرے ہمدم تمہیں اور اب نصیحت کیا کروں
Check Also
سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید
روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...