Home » قصہ » یہ سنگرام ۔۔۔ علی بابا/ننگر چنا

یہ سنگرام ۔۔۔ علی بابا/ننگر چنا

باہر گھور اندھیرا ہے، سیاہ رات ہے۔ تمام عالم نیند کی آغوش میں ہے۔ ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ میں جاگ رہا ہوں۔ سرخ زیر و بلب کی روشنی میں مجلہ’’ مہران‘‘ سے تراشیدہ شمشیر الحیدری کی تصویر ’’ موت کے تجربات ‘‘ کو دیکھ رہا ہوں۔ آسمان سے ایک میزائل نے جھپٹا مارا ہے ۔ ہر چیز فنا ہوگئی ہے۔ رہ گئی ہیں انسانی کھوپڑیاں اور ڈھانچے، بھیانک اور دل چیر کر رکھ دینے والے۔ میرے اندر کپکپی کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے۔ میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔ مجھے فن اور آرٹ کی کچھ جانکاری نہیں ہے، پھر بھی مجھے تصاویر اچھی لگتی ہیں۔ میں انہیں اپنے البم میں سجاتا ہوں۔ تصاویر جو باتیں کرتی ہیں، مسکراتی ہیں، روتی ، خوشی سے قہقہے لگاتی ہیں۔ درد سے چیخ اٹھتی ہیں۔ تصاویر جوگھنگھرو باندھ کر ناچتی ہیں۔ کبھی کبھی مجھے اپنی تصاویر سے ڈر لگتا ہے ۔ میں وہ تصویر چپکانے کے لیے کانپتے ہاتھوں سے کیبن میں پھینکا ہوا اپنا البم اٹھاتا ہوں۔ اس پر جمی دھول کی دبیز تہہ ہٹاتا ہوں۔ میں اپنے مَن میں بے کلی محسوس کرتا ہوں۔ میں اس البم میں سابقہ چپکائی ہوئی تصاویر کو دیکھنا نہیں چاہتا، پھر بھی لرزتے ہاتھوں سے اوراق پلٹنے لگتا ہوں اور میرے سامنے البم میں موجود پہلی تصویر پھیل جاتی ہے ۔ ایک ویران، اجڑا ہوا اور سنسان باغ ہے۔ پس منظر میں دور دور تک سوکھی ٹہنیاں، تنکے ، پتے، جھاڑ جھنکاڑ اور کانٹے دار جھاڑیاں ہیں اور اس کے بھی پس منظر میں گلاب کی ایک شاخ ہے جس میں کِھلا ہوا ہے موسمِ بہار کا پہلا پھول۔ کھلا ہوا مہکتا ہوا سرخ گلاب اور بہت دورخلا میں اُٹھ رہا ہے ایک خوفناک گردباد۔ میں تصویر دیکھ کر بے چین ہوجاتا ہوں اور ور ق الٹ دیتا ہوں ۔ سامنے پاک مریم کھڑی ہے ، سوچ میں ڈوبی ہوئی ، بے کل، دکھی، نیم خوف زدہ اور سہمے ہوئے چہرے پر ممتا کا چھلکتا ہوا جذبہ ۔ گہرے نین جو کہ ویران دریائے سندھ کی طرح سنسان ہیں اور ا س کی گود میں ہے ننھا سا عیسیٰ ۔ بے پروابادشاہ، اردگرد کے ماحول سے بے خبر، بہار کے پھول کی شگفتہ ، مسکراتا، مہکتا اور ہمکتا ہوا ۔ میں پھر مریم کی طرف دیکھتا ہوں۔ لگتا ہے کہ جیسے وہ کچھ کہنا چاہتی ہے ، کوئی بات کسی گہرے اور بڑ ے غم کے متعلق ۔مجھے اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔ میں خوف زدہ ہوکر صفحہ پلٹ دیتا ہوں۔
میں دیکھتا ہوں کہ صلیب تیار کرلی گئی ہے۔ عیسیٰ کی چھاتی ، ہاتھوں اور پیروں میں بڑی کیلیں ٹھونکی جا چکی ہیں، جن سے خون ٹپک رہا ہے۔ ا س کی ہمیشہ اونچی رہنے والی گردن ناتوانی کے سبب ڈھلک گئی ہے۔ اوپر بار ش ہورہی ہے اور نیچے ہے لہو کی وہ ندی جس کا کوئی کنارہ نہیں۔ لکھا ہوا ہے، ’’ یہ وہ لہو ہے جس سے کروڑوں کوڑھیوں نے اپنے بدنام چہرے دھوئے تھے‘‘۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ میں لہو کے ساگر میں بہتا چلا جارہا ہوں ، بہتا چلا جارہا ہوں اور پھر موت کے کئی قبرستان پھیل جاتے ہیں، جن کے اوپر تاحدِ نگاہ صلیبیں گڑی ہوئی ہیں جیسے کروڑوں لوگ آسمان کی طرف اپنی بانہیں پھیلا کر گڑ گڑا رہے ہوں ۔ یہ کس کا قبرستان ہے؟ ان قبروں میں کون سوئے ہوئے ہیں؟ کیا وہ ہیں جنہوں نے صلیب گاڑی تھی یا وہ کہ جنہیں مصلوب کیا گیا تھا ؟ کچھ پتہ نہیں چل رہا یہ ۔ میں پھٹی وحشت زدہ نظروں سے قبرستان کو دیکھتا ہوں، یوں لگتا ہے جیسے میں بھی ایک صلیب ہوں۔ میرے سینے پر کروڑ ہا آدمیوں کو لٹکایا گیا ہے ۔ جو بھی خنجر جس پر بھی چلا وہ میرے خون میں آلودہ ہے۔ لوگ ہمیشہ میرے وجود کو خون میں نہلاجاتے ہیں۔ میں صدیوں سے اس درد کو اپنے سینہ پر سہتا آیا ہوں ، برداشت کرتا آیا ہوں۔ لیکن اب یہ ظلم میری برداشت سے باہر ہوتا جارہا ہے ۔ میں کوئی لکڑی کی صلیب نہیں ہوں، میں انسان ہوں ۔ میری آنکھوں کو خون کی ہولی نہیں، سحر کے اُجلے رنگوں کی تلاش ہے ۔ مجھے فنا کے قبرستانوں کی نہیں،زندگی کے شہروں کی تلاش ہے۔ وہ روشنی کے شہر کہاں ہیں؟۔ دنیا کے کس کونے میں ، کس دیس میں؟ میں موت کے قبرستان سے نکلنے کے لیے بے تحاشا دوڑتا ہوں، دوڑتا جاتا ہوں اور پھر ہر طرف جنگ کے میدان پھیل جاتے ہیں۔ لہو میں ڈوبی دھرتی ہے ، آسمان میں بموں کا دھواں ا ور گِدھوں کی پروازیں ہیں۔ ہر راہ میں ٹینکیں ہیں اوندھی اور پہلو کے بل پڑی ہوئی ۔ چاروں سمت ہزارو ں لاشیں جو کچی ہوئی ، مسلی ہوئی، مسخ شدہ ، سوجھی اور خون میں لت پت الٹی سیدھی پڑی ہیں۔ ہر لاش کے اوپر گِدھوں کی ایک بارات بیٹھی ہوئی ہے اور نوچ رہی ہیں ا س کا گوشت ۔ دور ایک دیوانہ توپ کے سامنے کھڑا تنبورہ بجا کر امن کا گیت گارہا ہے۔ میں پھٹی آنکھوں سے دم گھونٹنے والی بدبو میں کھڑا لاشیں دیکھ رہا ہوں۔ یہ کون سی کربلا کا میدان ہے ؟ یہ کون لوگ ہیں؟ کیانسل ہے ان کی اور کس مذہب کے لوگ ہیں؟ کون ان میں سے دوست ہے، کون دشمن ؟ کچھ پتہ نہیں چل رہا ، کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔
دیوانہ تنبورہ بجا کر
روتے ہوئے
امن کے گیت گا رہا ہے۔
مین بے چین ہو کر اس کے سامنے جا کھڑا ہوتا ہوں اور غصہ کے مارے مجھ سے آسمان پھاڑ دینے والی چیخ نکل جاتی ہے ۔’’ بند کرو۔۔۔۔۔۔ بند کرو یہ آواز ! تم اور تمہارا تنبورہ جنگ بازوں کو کبھی بھی جنگ سے باز نہیں رکھ سکتے۔ یہاں تمہاری آواز کوئی نہیں سنے گا۔ میں تمہارایہ تنبورہ توڑ دوں گا‘‘۔ میری اس بات پہ دیوانہ خوف زدہ ہوکر چلا اٹھتا ہے ،’’ نہیں، نہیں۔۔۔۔۔۔ میں گاؤں گا ۔ آخری لمحہ تک گاتا رہوں گا ۔ گیت میری زندگی ہیں۔ مجھے گانے سے کوئی بھی روک نہیں سکتا‘‘۔ میں غصہ میں آکر اس کا تنبورہ پاش پاش کردیتا ہوں۔ میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا جاتا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ کوئی چیز روشن ہوتی جاتی ہے ۔ میں اپنی انگلیوں کے درمیان سے دیکھتا ہوں کہ میں ایک آتش فشاں کے سامنے کھڑا ہوا ۔ آتش فشاں گرج گرج کے ابل رہا ہے، جل رہا ہے اور اس کی چوٹی کے ایک طرف ایک سوکھی شاخ پر بیٹھی کوئل کوک رہی ہے ۔ میں حواس باختہ ہوکر آتش فشاں کی طرف دیکھتا ہوں ، پھر کوئل کی طرف اور پھر کونے میں پھینکے ہوئے البم کے مَسلے ہوئے ورق کی طرف ۔ میں اٹھ کر لرزتے ہاتھوں سے مَسلاہوا ورق اٹھا کر اسے سیدھا کرتا ہوں او رجنگ کے میدان میں کھڑے گائک کی طرف دیکھتا ہوں۔ میرے دل سے ایک چیخ نکل جاتی ہے ، ’’ اے کوی ! میرے بیجل، میرے شاعر! میرے بھائی!! تمہارا مَن موتی ، دل تنبوہ اور رگیں رباب ہیں۔ مجھے معاف کرنا ، میں نے تمہارا تنبورہ توڑ دیا ہے ۔ تجھے دھتکارنے سے پہلے میں بھول گیا تھا کہ کوئل کا کام فقط گانا ہے ، کُوکنا ہے ۔ چاہے وہ آم کی ٹہنی پر بیٹھی ہو یا پھر آتش فشاں کی چوٹی پر۔ مجھے معاف کرنا میرے بھائی!‘‘ میں نے کانپتے ہاتھوں سے مَسلے ہوئے ورق کو سیدھا کرکے اسے اپنی جگہ پر لگادیتا ہوں۔
جنگ کے میدان میں کوئی دیوانہ گار ہا ہے۔
آتش فشاں کے دہانے پر کوئل کوک رہی ہے۔
صحرائے تھر کی ماں اونگھ رہی ہے ، بچے بھوک کے مارے بِلک رہے ہیں۔ آسمان سے بازنے جھپٹا مارا ہے۔ کٹ کٹ کرتی مرغی چوزوں کو اپنے پروں میں چھپا لیتی ہے ۔ آسمان سے ایک جنگی جہاز نے جھپٹا مارا ہے۔ ہیروشیما کے محل اور لوگوں کے گوشت کے ٹکڑے فضا ، خون اور دھویں کے سمندر میں تیر رہے ہیں۔ نیچے لکھا ہوا ہے :
’’Abstract of Life‘‘
میں تصویر کو دیکھنے لگتا ہوں۔میری روح کانپ اٹھتی ہے ۔ میں خوف کے مارے اپنی آنکھیں بند کرلیتا ہو ں۔ سرخ زیرو بلب کی روشنی میں میری آنکھوں کے ڈورے جل اٹھتے ہیں۔ کئی رنگ بکھر جاتے ہیں۔ خون سے زیادہ سرخ رنگ، آگ سے تیز، دھویں سے کالے ، جن میں تیر رہی ہیں کروڑوں لاشیں۔ میرادم گھٹنے لگتا ہے ۔ میں خوف زدہ ہو کر آنکھیں کھول دیتا ہوں۔ پتہ نہیں کیا محسوس کرتا ہوں۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا اور میں ڈر کر صفحہ پلٹ دیتا ہوں۔ میں دیکھتا ہوں کہ ایک بہت ہی چھوٹے قد والا آدمی ایک بہت ہی بڑا مجسمہ تراش رہا ہے۔ اتنا بڑا کہ جسے تمام دنیا گھر بیٹھے سورج کی طرح دیکھ سکے ۔ میں بدحواس ہوکر اس آدمی کی طرف دیکھتا اور کہتا ہوں، ’’ کون ہو تم؟ یہ کیا بنا رہے ہو؟‘‘ وہ میری آواز پر اپنا ہتھوڑا اور چھینی روک کر میری طرف دیکھتا ہے اور زخمی انگلیوں سے پسینے میں تر اپنی پیشانی پونچھتا ہے ۔ اس کی زخمی انگلیوں کا خون اس کے پسینہ سے مل کر اس کے گالوں پر بہنے لگتا ہے۔ وہ سانس لینے کے لیے ایک بڑا دم لے کر پھیپھڑوں کو بھر لیتا ہے اور پھر دکھی، گھٹی اور اکھڑتی ہوئی سانس چھوڑتے ہوئے کہتا ہے ، ’’ میرا نام واسدیو’’ سندھو‘‘ بھارتی ہے ۔ میں مجسمہ ساز ہوں، قدیم زمانہ سے مورتیا ں بناتا آرہا ہوں ۔ میں نے بے شمار خوبصورت مورتیاں بنائی ہیں۔ اب میں ویتنام کی ماں کی مورتی بنا رہا ہوں‘‘۔
میں مورتی کی طرف دیکھتا ہوں۔ ایک ماں نے سہمی ہوئی مرغی کی طرح اپنے بچے کو گود میں چھپایا ہوا ہے۔اس کا منہ خوف کے سبب کھلا ہوا ہے۔ایک ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا ہوا ہے کہ ابھی ابھی وہاں سے کوئی جہاز باز کی طرح جھپٹے گا اورا س کے معصوم بچے کو نگل جائے گا ۔ میرے کانوں میں کروڑوں ماؤں کی چیخوں اور مرغیوں کی کڑ کڑ کی آوازیں گونج اٹھتی ہیں۔ میں کانوں میں انگلیاں دے کر ویتنام کی ماں اور اس کے خالق کی طرف دیکھتا ہوں۔ میری چیخ نکل جاتی ہے:’’ سنگتراش!تم پاگل ہو۔تم باز سے اس کی جھپٹنے والی عادت کبھی بھی چھڑا نہ سکو گے۔ تم اپنے بدن کا پورا خون، پوری قوت دے کر بھی اس عورت کے بچے کو خونی بمبار جہازوں سے نہیں بچا سکو گے ۔ ادب اور آرٹ سب بکواس ہے ۔ اس ماں کی پکار کوئی بھی نہیں سُنے گا ۔ میں اس عورت کی چیخیں نہیں سُن سکتا ۔ میرا دماغ پھٹ جائے گا۔ میں اسے توڑ دوں گا‘‘۔
سنگتراش چیخ اٹھتا ہے ، ’’ نہیں، نہیں۔ میں تمہیں اپنی مورتی توڑنے نہیں دوں گا ۔ یہ میرے دل کی پکار ہے، وقت کی آوازہے۔ تم میری مورتیاں توڑنا چاہتے ہو تو میں تمہیں بے شمار مورتیاں دوں گا ۔ میں نے قدیم زمانے میں موہن جودڑو کی مورتی بنا ئی تھی ۔ میرے پاس مہاتما گوتم بدھ کی بہت ساری مورتیاں ہیں۔ میں نے فرانس کی خوبصورت مونا لیزا کی پُراسرار مسکان کو کینوس پر اُتار ا تھا ۔ میں قسمت کی دیوی لکشمی کا خالق ہوں۔ تم مجھ سے میری تمام مورتیاں چھین لو لیکن اس کو مت توڑو۔ یاد رکھو! تم پچھتاؤ گے۔ تم پاگل ہو۔ میں تمہیں اپنی مورتیاں توڑنے نہیں دوں گا۔ وہ اپنی مورتی بچانے کے لیے پوری قوت کے ساتھ اپنا ہتھوڑا میرے سر پہ ماردیتا ہے۔ میں ایک دلدوز چیخ مار کر گر جاتا ہوں۔ میری آنکھوں میں خون بھر جاتا ہے۔ پھر میرے آگے ایک بڑا آئینہ آجاتا ہے ۔ کرچی کرچی ہوچکا آئینہ، جس میں ہیں ہزاروں چہرے ، پچکے ہوئے، کوڑھی ، بدصورت اور بدنما۔ لکھا ہوا ہے، ’’ آئینہ کا کام فقط عکس دکھانا ہے۔ وہی رنگ روپ جو آپ کا جیسا ہے ویسا ‘‘۔ مجھے ان چہروں سے وحشت ہونے لگتی ہے ۔ میں آئینہ سے نظریں ہٹا لیتا ہوں۔
’’ چَھم چَھم !! چَھم چھَم !!‘‘۔
رقاصہ نیند بھری آنکھیں لیے، مست ہو کرنا چ رہی ہے۔
’’ ہائے ! ‘‘ میری چیخ نکل جاتی ہے ، ’’ میرے واسدیو! میرے سندھ ! تم اَمر ہو۔ تم ازل سے ہو۔ پورے سندھ کو موہن جو دڑو کی طرح مسمار کیا جاسکتا ہے لیکن تمہاری تراشیدہ مورتی کو نہیں۔ یہ موہن جو دڑو کی نیم خوابیدہ آنکھوں والی رقاصہ کی طرح امر رہے گی ۔ ہماری طرح آنے والی نسلیں بھی ان کی عظمت کے سامنے سر بہ سجود ہوں گی‘‘۔
میں عقیدت کے ساتھ نیم خوابیدہ نینوں والی رقاصہ کی طرف دیکھتا ہوں۔ اس کے ہونٹوں کو پیار سے چومتا ہوں۔ وہ اپنی دُھن میں مگن ناچ رہی ہے ۔ سکھ کے سپنوں کا رقص ۔ ہاں۔۔۔۔۔۔ ہاں! تب دنیا اس کی پایل کی مدھر آواز پر میٹھی نیند سوتی تھی، وہ اپنے مسحور کن بازؤں میں پورے جہان کو تھپک تھپ کر سُلایا کرتی تھی، کبھی اس کی پایل میں نیم سحری کی سگندھ ہوا کرتی تھی ۔ اب دنیا والوں نے اسے شیشہ کے شوکیس میں بند کرکے رکھا ہے۔
میں دوبارہ دھرتی ماتا کی رحم دل مورتی کو دیکھتا ہوں۔ کتنی ممتابھری ہوئی ہے اس مورتی میں کہ جیسے کہہ رہی ہو، ’’ میں ابھی زندہ ہوں‘‘۔ میں پھر قدیم سندھ کے پُر امن مہا پجاری کی طرف دیکھتا ہوں۔ اس کے مرجھائے ہوئے چہرے سے اب بھی بہار کی خوشبو آرہی ہے ، جسے محسوس کرتے ہی آدمی کا مَن شانت ہوجایا کرتا ہے ، مہاتما بدھ کی طرح۔
میں ٹھنڈی سانس بھر کر اگلا صفحہ الٹ دیتا ہوں۔ میرے سامنے موہن جو دڑو کے ایک چھوٹے حصے کی کھدائی کا منظر پھیل جاتا ہے ۔ دو انسانی ڈھانچے اوندھے منہ پڑے ہوئے ہیں، جن میں سے ایک شیر خوار بچے کا ہے اور اس کے اوپر بچھی ہوئی ایک عورت کا ڈھانچہ ہے ، جس کے ہاتھ میں کنگن ، گردن میں ہنسلی اور ریڑھ کی ہڈی میں کھبا ہوا ہے ایک تیر۔ شاید جنگ کے وقت وہ اپنے بچے کو بچانے کے لیے اس کے اوپر مرغی کی طرح بازو پھیلا کر بچھ گئی تھی۔ غور سے دیکھنے پر کہیں کہیں عورت کی کھوپڑی، چھاتی اور پسلیوں کے نیچے اس کے بچے کی کھوپڑی ، پشت اور ٹانگوں کی ہڈیوں کی خاک دیکھنے میں آتی ہے۔تصویر کے نیچے تحریر ہے ’’ ممتا‘‘۔ اس عورت کو دیکھ کر میرا کلیجہ ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا ہے ۔ یہ عورت میرے دیس کی ابھاگن ماں ہے، جس کا کوئی مددگار نہیں، جسے کسی نے سہارا نہیں دیا، کسی نے اس کا دفا ع نہیں کیا۔ پتہ نہیں وہ کتنے برسوں سے وہاں اسی طرح پڑی ہوئی ہے۔ ہر روز دو ر دور دیسوں کے لوگ آتے ہیں، کروڑ ہا آنکھیں روزانہ اسے دیکھتی ہیں۔ لیکن کوئی بھی عبرت نہیں پکڑتا ۔ کسی کے پاس بھی اس کے لیے چند آنسو نہیں۔ ہائے بیچاری موہن جو دڑو کی ماں۔ میں ڈبڈبائی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھتا ہوں میری آنکھوں کے سامنے ہر چیز غائب ہوتی جارہی ہے ۔ میں دیکھتا ہوں کہ دنیا کے سب سے بڑے ملک امریکہ کے صدر ( سابق ) لنڈن بی جانسن نے اپنے نوزائیدہ نو اسے کو خوشی سے بے قابو ہوکر فضا میں پکڑ رکھا ہے۔ وہ بے انتہا خوش ہے ، جیسے اسے دنیا کا بہت بڑا خزانہ مل گیا ہے جیسے کہہ رہا ہو۔ ’’ میری لوسی یا بچہ، میر نواسہ۔ رات پیدا ہوا ہے ۔ کتنا پیارا ہے ۔ کافور کے گڈے ایسا۔ ہے ناں دنیا کا سب سے خوبصورت بچہ!؟‘‘۔ میں اپنے آنسو پی کر دکھی مسکراہٹ کے ساتھ جانسن کے ہاتھوں میں پکڑے نواسہ کو دیکھتا ہوں۔ سچ مچ بہت ہی پیارا بچہ ہے والٹ ڈزنی کے خرگوش ایسا۔ وہ ماں کی گود میں بھی اتنا ہی حسین لگتا ہوگا، جتنا شاخِ گلاب میں موسمِ بہار کا کھلا ہوا پہلا پھول ۔ میں پھر اپنے دیس کی ابھاگن ماں کی طرف دیکھتا ہوں۔
مہا پجاری سکتے کی کیفیت میں ہے۔
دھرتی ماں مرض الموت کی حالت میں ہے۔ نیم خوابیدہ رقاصہ کو جیسے سانپ نے کاٹ لیا ہو۔ صحرائے تھر کی ماں کی ممتا لوری کے لیے تڑپ رہی ہے۔ میں پھر شاخِ گلاب کی طرف دیکھتا ہوں۔ مریم سوچ کے ساگر میں ڈوبی ہوئی ہے۔
میں ویتنام کی ماں کو دیکھتا ہوں۔ موہن جو دڑو کی ابھاگن ماں کی طرح اس کا منہ بھی کھلا ہوا ہے، بچہ گود میں اور ایک ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا ہوا۔
دھرتی سے ایک چیخ سی آسمان کی طرف اٹھی ہے، ’’ بند کرو۔۔۔۔۔۔ بند کرو یہ خونی کھیل ! پاک مریم کے بچے کے صدقے ۔ اپنے پھولوں جیسے بچوں کے صدقے، مجھ ابھاگن کے بچے پر ترس کھا ئیے ۔ ان بجلیاں گراتے ہوئے صلیب نما جہازوں کو بند کردوں۔ ایک ماں پر رحم کھاؤ ، رحم کھاؤ‘‘۔
میں پوری طاقت سے اپنے کانوں میں انگلیاں دے کر منہ پھیر لیتا ہوں۔ میرے سامنے ’’ مہران ‘‘ سے تراشیدہ نئی خون آلود بھیانک تصویر میرا منہ چڑا رہی ہے۔ میں خوف سے چیخ اٹھتا ہوں۔
’’ نہیں، نہیں ۔ میری تصاویر کا اختتام اتنا بھیانک ۔ میں اس تصویر کو اپنے البم میں نہیں چپکاؤں گا۔ میں کوئی اور تصویر تلاش کروں گا۔ اب اس خونی کھیل کو ختم ہونا چاہیے‘‘۔
میں غصہ میں آکر اس تصویر کے ٹکڑے ٹکڑے کردیتا ہوں اور البم کو پوری قوت سے دور پھینک دیتا ہوں اور تکیہ میں منہ چھپا کر دل ہی دل میں پھوٹ پھوٹ کر روتا ہوں۔

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *