Home » قصہ » بھکاری ۔۔۔ آدم شیر

بھکاری ۔۔۔ آدم شیر

وہ بھکاری نہیں تھا،کم از کم مجھے تو نہیں لگتا تھا۔ اس کی میلی چادر میں کئی راہ گیر بھیک ڈال دیتے لیکن وہ بھکاری نہیں تھا۔ میں روز اسے ایک موڑ پر جھولی پھیلائے بیٹھا دیکھتا ۔ وہ کوئی صدا نہیں لگاتا تھا۔ چپ چاپ بیٹھا رہتا ۔ اسی جگہ کئی بھکاری اشارے پر رکنے والی گاڑیوں کے گرد منڈلاتے تو ان کی الگ الگ صدائیں ہر کسی کو متوجہ کرتیں۔ لیکن وہ خاموش بیٹھا آسماں کو تکتا رہتا۔ میں نے اسے ہمیشہ دن کے وقت دیکھا تھا۔ اس لیے وہ تارے تو نہیں گنتا تھا۔ پھر پتا نہیں کیا ڈھونڈتا تھا۔ اس چوک میں کافی رش ہوتا ہے اور شور بھی۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ گاڑیوں کی پاں۔۔۔ پاں۔۔۔ ٹی ۔۔۔ ٹی۔۔۔ رکشہ والوں کی آوازیں۔۔۔ ادھر آؤ جی۔۔۔کدھر جانا ہے؟ وہ سب چیزوں سے بے پروا آسماں کو تکتا رہتا۔ لوگ اس کی جھولی میں خیرات پھینکتے جاتے لیکن وہ منگتا نہیں تھا۔ میں روز دفتر جاتے ہوئے جب اس اشارے پر ڈیڑھ منٹ کے لئے رکتا تو کار میں بیٹھا اسے دیکھتا رہتا۔ کبھی کبھی وہ بھی دیکھ لیتا۔ وہ مجھے بالکل بھکاری نظر نہیں آتا تھا۔
وہ شاید نہاتا نہیں تھا۔ بال آپس میں یوں چپکے ہوئے تھے جیسے رسی بنانا چاہ رہے ہوں۔ ماتھا کشادہ تھا جس پر وقت نے تین چار سلوٹیں ڈال دی تھیں۔ آنکھیں بڑی بڑی تھیں جن میں اکا دکا سرخ لکیریں بھی تھیں جو شب بھر جاگ کر محنت کرنے والوں کی خاص نشانی ہوتی ہیں۔ اس کی آنکھیں دیکھ کر ہی پتا چلتا تھا کہ وہ بھکاری نہیں ۔ اس کی آنکھوں میں شرمندگی کی لہریں بھی تھیں۔۔۔ پتا نہیں کس بات کی ۔۔۔ بھکاری پن کی یا کسی اور بات کی۔۔۔ ناک کے ساتھ دائیں گال پر ایک نشان تھا جو کسی پرانے زخم کی یادگار لگتا تھا۔ نشان ظاہری طور پر چھوٹا سا لگتا۔ اس کا زیادہ حصہ داڑھی نے چھپا رکھا تھا۔ داڑھی بھی اس کے لباس کی طرح بے ترتیب اور میل سے اَٹی ہوئی تھی۔ داڑھی لگتا تھا کبھی استرے کی زد میں نہیں آئی ۔ مونچھیں تو ایسی تھیں جیسے حجام کی دکان سے کٹے بال پکڑ کر کسی نے گوند سے آڑے ترچھے چپکا دیئے ہوں۔ داڑھی سے نیچے گردن پر ایک اور نشان تھا جو گال والے نشان سے زیادہ بڑا تھا۔ پٹھانوں کے رنگ گورے ہوتے ہیں سو اس کا بھی تھا لیکن میل کی تہہ در تہہ چادر نے مری چھپکلی جیسا کر دیا تھا۔
اس کی عمر پتا نہیں کتنی تھی لیکن بڑھاپے میں داخل ہوئے کافی سمے بیت چکا تھا۔ اس کا بڑھاپا دیکھ کر یہی لگتا کہ کبھی بڑا گبرو تھا۔ جس گلی سے گزرتا ہوگا اس میں کئی کھڑکیاں اس کے لیے ضرور کھلتی ہوں گی۔ اس کا بڑھاپے میں بھی چوڑا چکلا ڈھانچہ کئی جوانوں سے بہتر تھا لیکن جوانی تو جوانی ہوتی ہے جو اس پر اب بہر حال نہیں رہی تھی۔ اس کے ہاتھوں کی رگیں پھولی ہوئی تھیں۔ رگیں نشہ کرنے والوں کی بھی پھولی ہوتی ہیں۔ اس کی نسیں نشہ کی وجہ سے نہیں پھولی تھیں۔ وہ دمہ کا مریض بھی نہیں لگتا تھا۔ اس کی رگیں ہل کھینچنے والے کسانوں کی طرح ابھری ہوئی تھیں۔ اس کے ہاتھ دیکھ کر لگتا تھا ، انہوں نے لاتعداد پتھر پاش پاش کئے ہوں گے۔ اب تو وہ بھکاری لگتا تھا گو بھکاری نہیں تھا۔ وہ بس بیٹھا رہتا اور لوگ اس کے پاس فالتو پیسے پھینک کر آگے بڑھ جاتے۔
میں دفتر جاتے ہوئے اور واپسی پر بھی اسے وہیں بیٹھا دیکھتا۔ جب جب اسے دیکھتا تب تب یہی لگتا کہ کوئی نئی زبردست کہانی مل جائے گی۔ اس سے بات کرنا چاہتا تھا مگر روز یہی سوچ کر گزر جاتا کہ کل بات کروں گا۔ وہ کل بھی ایک دن آ ہی گئی۔ اس روز سحری سے بوندا باندی ہو رہی تھی۔ دفتر جانا نہیں چاہتا تھا مگر میکانکی انداز میں جانا پڑا۔ دفتر جاتے ہوئے اسی اشارے پر کار روکی تو وہ ہمیشہ کی طرح آسماں کو تک رہا تھا جس میں ان گنت سوراخ ہو گئے تھے۔ شاید وہ سوراخ گن رہا تھا جن میں سے آنسوؤں جیسا نمکین پانی قطرہ قطرہ گر رہا تھا اوروہ بھیگ رہا تھا۔ لوگ سروں پر چھاتے تانے آ جا رہے تھے۔ جو چھتری نہیں خرید سکتے تھے وہ خود کو کوستے جا رہے تھے۔ کچھ راہ گیر دکانوں اور کچھ عمارتوں کے سایوں میں کھڑے بارش کے رکنے کا انتظار کر رہے تھے۔ سائیکل اور موٹرسائیکل پر آنے جانے والوں کی شامت آئی ہوئی تھی۔ مجھ ایسے گاڑیوں میں بیٹھے ان پر چھینٹے اڑاتے ہوئے موسم کا نظارہ کر رہے تھے لیکن وہ بھیگ رہا تھا۔ شاید تھوڑا تھوڑا کانپ بھی رہا تھا۔ کئی ایک بھکاری بلند و بالا عمارت کے بڑھے ہوئے چھجے کے نیچے کھڑے تھے لیکن وہ سارے ماحول سے لاتعلق اپنی جگہ پر بیٹھا بھیگ رہا تھا۔
اس دن رم جھم پڑتی پھوار سارا دن نہ رکی۔ ایسی جھڑی لگی کہ کئی فصلیں ہری ہوئیں اور کئی ایک بہہ گئیں۔ دفتر سے واپسی پر میں اسی اشارے پر رکا تو اسے کچے مکان کی چھت کی طرح زمین پر گرا دیکھا۔ لوگ آ جا رہے تھے۔ پتا نہیں وہ کب سے بے سدھ پڑا تھا۔ میں نے گاڑی ایک طرف کھڑی کی۔ اسے بڑی مشکل سے دو راہگیروں کی مدد لے کر گاڑی میں لٹایا اور نزدیکی سرکاری اسپتال لے گیا۔ ڈاکٹر نے اسے ایسے ہی دیکھا جیسے اس جیسوں کو دیکھا جاتا ہے۔ پھر وہ زیر تربیت خاتون سے محو گفتگو ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد اسے یاد دلایا کہ بھائی میاں ابھی کسی کو تیری ضرورت ہے۔
’’آپ اس کے لیے اتنا پریشان کیوں ہو رہے ہیں؟ مجھے تو وہ بھکاری لگتا ہے۔ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘ ڈاکٹر نے بیزاری سے کہا جس پرمیں اتنا ہی کہہ سکا۔
’’وہ بھکاری نہیں۔‘‘
پھر میں نے دو تین بڑوں سے رابطے کیے اور لاغر بوڑھے کومسیحا کی مسیحائی مل گئی۔ بیوی جھگڑ کر میکے گئی ہوئی تھی لہٰذا میں آزاد تھا۔ اسے گھر لے آیا۔ دفتر سے چھٹیاں لیں۔ چار پانچ فلم خریدے۔ خشک میوہ جات لایا۔ اسے کھلایا ، پلایا۔ نتیجہ یہ تھا کہ وہ مجھے فرشتہ سمجھنے لگا۔ میں نے اس کی غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کی لیکن وہ نہ مانا۔ پھر میں نے ذرا اور واضح انداز میں سمجھانے کی کوشش کی۔ وہ پھر بھی نہ مانا جس پر میں نے کھلم کھلا کہا۔
’’مجھے صرف آپ کی کہانی سے دلچسپی ہے۔‘‘
لیکن وہ طوطے کی طرح ایک ہی جواب دیتا کہ میرے احسان کا بدلہ نہیں چکا سکتا۔ میں اس تکرار سے بے زار ہو گیا۔
’’آپ اپنی کہانی سنائیں۔ یہی میرے احسان کا بدلہ ہے۔‘‘ اس نے مجھے عجیب نظروں سے دیکھا اور شروع ہو گیا۔
’’میں وزیرستان ایجنسی میں پیدا ہوا۔ وہیں پلا بڑھا۔ وزیرستان میں ہی اپنے قبیلہ کی ایک خوبرو لڑکی سے شادی کی۔ اللہ پاک نے مجھے چار بچے دیئے۔ تین بیٹے اور ایک بیٹی۔۔۔ جب بچے پیدا ہوئے تو پڑوسی ملک میں روس کے خلاف جنگ جاری تھی۔ پھر جب بچے جوان ہوئے تو پڑوس میں ہی امریکی سرکار دہشت گردی کے خلاف لڑ رہی تھی۔ اخباروں میں پڑھا اور ٹی وی پر دیکھا۔ لوگ کہتے ہیں کہ جنگ دہشت گردی کے نہیں بلکہ اسلام کے خلاف تھی۔ بہرحال لوگ کچھ نہ کچھ کہتے رہتے ہیں حالانکہ لوگوں کو خود پتا نہیں ہوتا۔
جنگ جاری تھی۔ جنگیں ہر دور میں جاری رہتی ہیں۔ کچھ لوگوں کو ہروقت جنگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ امریکہ کو بھی اس کی ضرورت تھی جو آئے دن بڑھتی جا رہی تھی۔ اسی ضرورت کے تحت عراق میں بھی جنگ شروع ہوئی تھی جوافغانستان سے ہوتی ہوئی پاکستان پہنچ چکی تھی جس نے پہلے وزیرستان میں ڈیرا ڈالا ۔وزیرستان میں کارروائیاں امریکی نہیں بلکہ ہماری فوج کر رہی تھی۔ طالبان بھی لڑ رہے تھے۔ پتا نہیں کون جیت رہا تھا۔ کون ہار رہا تھا۔ کون نشانہ بن رہا تھا اور کون بنا رہا تھا۔ فوجی مر رہے تھے یا طالبان۔۔۔ لاشیں انسانوں کی ہی گر رہی تھیں۔ لاشیں عراق میں بھی گر رہی تھیں اور افغانستان بھی بچا نہیں تھا نہ میرا وزیرستان ہی اس وبا سے محفوظ رہ سکا۔تب لوگ ہجرت کرنے لگے اور اس کی قوت نہ رکھنے والے مرنے لگے۔ کوئی اپنوں کی گولیوں کا نشانہ بنتا۔ کسی کو غیروں کے میزائل مار دیتے۔ کوئی مرنے والوں کو شہید کہتا اور کوئی جہنم واصل گردانتا۔ کئی مارنے والوں کو طالبان کہتے۔۔۔ انہیں جہادی کہنے والے بھی کم نہ تھے ۔۔۔ اور کوئی انہیں امریکہ کے پٹھو ٹھہراتا لیکن لوگ مرتے رہے۔
میرے گھر پر بھی ایک میزائل گرا۔ میرے دو جوان بیٹے میری آنکھوں کے سامنے دم توڑ گئے۔ میرے ایک بیٹے کے چیتھڑے میرے ہی مکان میں بکھرے تھے۔ دوسرے بیٹے کا جسم چھلنی بن گیا تھاجس سے سارا خون نکل چکا تھا۔ میری بیٹی کے ہاتھ ابھی پیلے نہیں ہوئے تھے لیکن اس کے سر سے نکلنے والا لہو اس کے کپڑے ضرور رنگیں کر گیا البتہ وہ زندہ تھی۔ میرے گال سے خون ٹپک رہا تھا۔
ہم ڈاکٹروں کے چکر سے نکلے تو کچھ ماہ بعد میرا سب سے چھوٹا بیٹا غائب ہو گیا۔ ان دنوں بڑے لوگ غائب ہوئے تھے۔ وزیرستان سے ہی نہیں ،پورے ملک سے لوگ غائب ہو رہے تھے۔ غائب کرنے والے کا کسی کو پتا تھا نہ یہ علم ہوتا کہ غائب ہونے والا زندہ ہے یا مردہ۔۔۔ مجھے بھی اپنے بیٹا کا کچھ پتا نہ تھا۔ کوئی کہتا ۔۔۔ میرا بیٹا امریکہ لے گیا ہے۔ کبھی پتا چلتا ۔۔۔وہ انتقام لینے کے لیے طالبان سے مل گیا ہے۔ کسی نے کہا۔۔۔ میرا بیٹا پاکستان میں ہی ہے لیکن پتا نہیں کس کے پاس تھا ۔۔۔ زندہ ہے یا مردہ۔۔۔ میرا دل کہتا تھا۔۔۔وہ زندہ ہے۔۔۔ لیکن میری بیوی کا دماغ تھوڑا تھوڑا کھسک گیا ۔
میں بھی انتقام لینا چاہتا تھا۔ پختونوں کے لیے انتقام نہ لینا اتنا ہی شرمناک ہے جتنا کسی کی بیوی کا دوسرے مرد کے ساتھ سونا اور رنگے ہاتھوں پکڑے جانا۔ میری بیٹی جوان تھی۔ بیوی ہوش کھو چکی تھی۔ پھر بھی انتقام لیتا تو کس سے لیتا؟ مجھے تو دشمن کا ہی پتا نہیں تھا۔ ان دنوں کسی کو بھی دشمن کا علم نہیں تھا۔ جن کو معلوم تھا وہ بتاتے نہیں تھے۔ میں نے اپنا گھر بار بیچا۔ بیوی اور بیٹی کو ساتھ لیا اور رشتہ داروں کے پاس پناہ لینے لاہور کیلئے نکل پڑا۔ میری قسمت خراب تھی یا ملک کے حالات ہی ایسے تھے۔ جب ہم لاہور کے بس اڈے پر اترے تو زور دار دھماکہ ہو گیاجس نے میری بیٹی اور بیوی چھین لی۔ اس بار میری گردن پر بھی نشان پڑ گیا۔ میں نے سوچا۔۔۔ اب انتقام لینا ضروری ہو گیا ہے۔۔۔ لیکن ایک بہت بڑا مسئلہ درپیش تھا۔ وہی دشمن کی پہچان کا مسئلہ۔۔۔ ویسے بھی مجھے اپنے چھوٹے بیٹے کا انتظار تھا۔ وہی تو اپنا بچا تھا۔ یہ انتظار بھی ایک دن ختم ہو گیا۔ ٹی وی پر خبر چلی کہ امریکہ کی عدالت نے طالبان کے ساتھی ایک پاکستانی کو سزائے موت سنا دی ہے۔ وہ پاکستانی میرا بیٹا تھا۔‘‘
کیا آپ کا بیٹا واقعی طالبان کا ساتھی تھا؟‘‘ میں نے پوچھا تو کچھ لمحے خاموش رہا اور کمرے میں اِدھر اُدھر بکھری چیزیں دیکھ کر بولا۔
’’نہیں۔ وہ تو پشاور کے ایک کالج میں پڑھتا تھا۔میرے گھر میں دو لوگ ہی تو پڑھے لکھے تھے۔ ایک میں اور دوسرا وہ۔۔۔ میرا پیارا بچہ۔‘‘
’’پھر آپ کا بیٹا امریکہ کیسے پہنچ گیا؟ ‘‘
’’یہ تو امریکہ جانتا ہے یا پاکستان۔۔۔ یا پھر وہ جو سب کچھ جانتا ہے۔ ‘‘ اس نے بڑی بے بسی سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے جواب دیا تو میں نے طالبان کو خوب برا بھلا کہا۔ اس کی بربادی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ بڑے لوگوں کے مطابق تو طالبان ہی تباہی کے ذمہ دار تھے۔ میں نے رائے دی۔
’’طالبان نہ آتے تو قبائلیوں پر قیامت بھی نہ ٹوٹتی۔‘‘
’’کون طالبان نہ آتے؟ کوئی طالبان نہیں۔‘‘
’’تو پھر یہ دہشت گرد کہاں سے آئے؟ جو یہ خون خرابہ کر رہے ہیں۔‘‘
’’ مجھے تو کوئی دہشت گرد نظر نہیں آتا۔ وہ تو صدیوں سے وہاں رہ رہے ہیں۔ اب پتا نہیں کس نے انہیں دہشت گرد بنا دیا۔‘‘
’’تو کیا ساری دنیا جھوٹ بولتی ہے۔ ‘‘
’’وہ بہت کم لوگ ہیں جو غیر ہیں۔ باقی سب وہیں پیدا ہوئے اور مر بھی وہیں رہے ہیں۔ ‘‘
اس پر میرے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا۔ شاید تھک گیا تھا۔ دماغ میں طرح طرح کے خیالات آ رہے تھے لیکن پکا راستہ نہیں مل رہا تھا۔ بڑے بڑے پتھر آ جاتے۔ سوچنے کی کوشش کرتا لیکن ناکام رہتا، ویسے بھی کہانی سنتے سنتے رات گزر چکی تھی۔ سویرا ہونے کو ہی تھا۔ چڑیاں گھونسلوں سے نکل کر چہچہانے لگی تھیں۔ دور کہیں مؤذن بھی اذان دے رہا تھا۔ اس سے پہلے پہرہ دار کی سیٹی سنائی دی تھی لیکن کمرے میں سناٹا تھا۔ خاموشی سانپ کی طرح پھنکار رہی تھی۔ اس سے بچنے کے لیے میں بولا۔
’’آپ کی داستان بڑی درد ناک ہے لیکن آپ کوئی کام کیوں نہیں کرتے؟‘‘
’’کیا ۔۔۔بڑا کام کیا۔ ادھر وزیرستان میں۔۔۔ ساری عمر کام ہی کیا۔‘‘
’’تو پھر اب یہ۔۔۔‘‘ اس سے آگے کہنے کی ہمت نہ تھی۔
’’یہاں مجھے کوئی کام نہیں دیتا۔ جو کام دیتا ہے وہ پیسے پورے نہیں دیتا۔‘‘
’’تو واپس چلے جانا تھا۔‘‘
’’واپس جانے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ لاری اڈے میں بیٹھا تھا۔ ایک عورت نے بھکاری سمجھ کر پیسے دیدیئے۔‘‘
’’تو آپ نے یہی کام شروع کر دیا۔ پٹھان تو ایسے نہیں ہوتے۔‘‘
’’میں بھی ایسا نہیں تھالیکن یہاں لوگ بھیک تو دیتے ہیں پَر حق دار کو حق نہیں دیتے۔‘‘ بوڑھے پٹھان کے جواب نے مجھے خاموشی کے سمندر میں ڈبو دیا۔

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *