Home » پوھوزانت » صحرا کی سیاحت ۔۔۔ صدر الدین عینی / شان گل

صحرا کی سیاحت ۔۔۔ صدر الدین عینی / شان گل

میں اپنے استاد ملّا عبدالسلام کے ہمراہ محلہ نامی گاﺅں جانے کے لئے شہر سے نکلا ۔ اُس کا گھر وہاں تھا ۔ وہاں سے میں اپنے نانا نانی کے گاﺅں چلا گیا۔ میرا چھوٹا بھائی وہاں نانی کے پاس رہتا تھا ۔
مگر وہاں ایک بہت ہی المناک خبر میری منتظر تھی ۔ میرا سب سے چھوٹا بھائی جسے میں بہت پیار کرتا تھا، اسی سال زمستان میں فوت ہوگیا تھا ۔ میری تعلیم کے دوران مجھے صدمہ نہ دینے کے پیشِ نظر یہ خبرمجھ سے چھپائی گئی تھی ۔
میرے دوسرے چھوٹے بھائی سراج الدین کی صحت بھی بہت خراب تھی ۔ وہ ویسے ہی کمزور جسم کا بچہ تھا ،اب نانی کے گھرمیں مزید لاغر ہو گیا تھا ۔ حالانکہ میرے چھوٹے بھائی کا بدن اُس کی عمر کے حساب سے کافی توانا تھا ،مگر اِس کمسنی میں کم خوراکی کی تاب نہ لا سکا ۔ اس سے بڑا بھائی چونکہ عمر میں بڑا تھا، اس لئے ایک حد تک کٹھن زندگی کامقابلہ کرتے ہوئے زندہ تو رہ سکا لیکن اس کی حالت بھی مرنے کے قریب لگتی تھی ۔
صبح کو وہ لوگ مٹھی بھر ماش اور مٹھی بھر سفید جوار لے کر پانی سے بھرے ایک دیگ میں ڈال کر ابالتے تھے۔ اِسے وہ ”ماشابہ“ کہتے تھے ۔ ہر ایک اِس ماشناک پانی سے ایک کٹورا پی لیتا ۔دوپہرکا کھانا سفید جوار کی ایک روٹی اور پانی پہ مشتمل ہوتا ۔ اور رات کو وہ جوار کی روٹی ، پیاز کے ساتھ (پیاز آبہ) کھاتے تھے ۔ یا پھر صبح والے ماشناک شوربہ کے ساتھ ۔
سترسالہ نانی اپنے نواسے کی موت کے صدمے اور زندگی کی کٹھنائیوں کی بدولت اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتی تھی ۔ نانا جو کہ ستر سال سے زائد کا ہے اپنی بیوی سے کچھ زیادہ قوی نہ تھا ۔ میرا ماموں روشن نیاز، دھقانی کا کام کرتا تھا ۔ میں جو چند دن وہاں رہا ، اس کی حالت کا باریکی سے جائزہ لیتا رہا ۔
وہ رات گئے تک کھیتوں میں محنت کرتا ، واپس آکر اپنے حصے کا رکھا ہواکھانا کھاتا ، اپنے ماں باپ پہ ایک حسرت بھری نگاہ ڈالتا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ۔ اس بے کسی کے بعد وہ کچھ نہ کہتا اور سونے چلا جاتا ۔ صبح پھر اُسی ماشدار گرم پانی سے ایک کٹورا پیتا ، ایک روٹی بغل میں اٹھاتا اور کام کے لئے کھیتوں میں چلا جاتا ۔
نانی کے بقول ”روشن نیاز کو خدا نے فقط مشقت کے لئے پیدا کیا ہے “۔ وہ کہنے لگی:” اُس زمانے میں بھی جبکہ ہماری حالت اس قدر بری نہ تھی ، روشن نیاز کسی سے بات نہیں کرتا تھا اور اپنے لئے کوئی چیز نہیں مانگتا تھا ، بس محنت کرتا رہتا تھا۔ البتہ وہ زمانہ اس قدر غمگین اور مایوس نہ تھا ۔ لیکن اِن آخری برسوں میں تو ہماری حالت بہت ہی بری ہو گئی ۔ وبا کے سال کھیتوں سے کچھ نہ اگا۔ گذشتہ برس کچھ پیداوار تو ہوئی مگرہمارے پاس تین من ماش ،اور پانچ من جوار کے علاوہ کچھ بھی نہ بچا ۔چونکہ ہم لوگوں نے عبدالرحیم بائی سے تخم قرض لیا تھا ، لہٰذاخرمن پر ہی اسے دوگنا دیناپڑا ۔ خانہ سوختہ مالکِ زمین، اور خدا بے خبر اجارہ دار نے مالیاتِ زمین اور دھیکِ وقف کے ٹیکس تین گنا کر کے وصول کےے ۔ انہوں نے وبا کے سال فصل نہ ہونے کا ٹیکس بھی شامل کر کے لے لیا ۔ اس کے بعد روشن نیاز ایسی حالت کو پہنچا کہ میں اس کی طویل عمری کی امید نہیں رکھتی “۔
میرا سب سے چھوٹا ماموں نیاز خان چرواہے کا کام کرتا تھا ۔ وہ اپنے خاندان اور دوسرے لوگوں کی بھیڑیں صحرا میں چرانے کے لئے لے جاتا اور گرمی سردی وہیں گزارتا ۔ نانی کے بقول وبا کے سال بھیڑیں لاغر ہوتی گئیں اور ان کی اکثریت مر گئی ۔ بھیڑوں کی نسل بڑھانے کی خاطر اُس سال برّے ذبح نہیں کئے گئے ۔ اس وجہ سے اُس سال بھیڑوں سے کوئی آمدن نہیں ہوئی ۔اس علاقے میں آمدنی تو قراکولی نسل کے بھیڑ کے برّوں کو پیدائش کے وقت ذبح کرنے سے ہوتی ہے ۔ چرواہے کا جو معاوضہ بھیڑوں کی پشم کی صورت ملتا ہے وہ وبا کے سال میں مر جانے والے بھیڑوں کی ذکات میں چلا گیا ۔
اپنے بڑے بھائی کی موت پر قربان نیاز ،خاندان کا سربراہ بنا ۔ جب عبدالواحد نے قاضی والی اپنی ملازمت چھوڑ دی ، توقربان نیاز نے بھی اپنی نوکری چھوڑ دی اور کپاس صاف کرنے کے کام میں لگ گیا ۔ اس کام کے لئے اس کا مالک اسے اس قدر کم معاوضہ دیتا تھا کہ وہ اپنا گزارا تک نہ کرسکتا تھا ۔ گو کہ وہ اپنی مستقل مزاجی اور دل لگا کرمحنت کرنے کی بدولت، دوسروں سے زیادہ کماتا تھا ۔
نانی نے اس کے بارے میں کہا :
” میں اور تمہارا نانا اسی کی وجہ سے اب تک زندہ ہیں ۔ وہ کبھی کبھار کچھ گوشت اور شکرلاتا ہے جس سے اس پیرانہ سالی میں بدن میں توانائی آتی ہے “۔
نانی کے بقول قربان نیاز کپاس صاف کرنے سے جو کچھ بھی کماتا ہے فقط مشقت اور محنت سے کماتا ہے وگرنہ اس کام سے بہت معمولی آمدنی ہوتی ہے ۔
مجھے اس آہن بدن شخص کی محنت نے حیرت میں ڈال دیا ۔ جس وقت میں وہاں گیا ، کپاس صاف کرنے کا موسم گزر چکا تھا ۔ اس کے باوجود قربان نیاز در در کھٹکھٹاتا اور اس طرح اُسے ایک دو من کپاس صاف کرنے کے مل جاتے ۔ جب ایسا ہوتا تو وہ خود ، اس کی بیوی اور روشن نیاز کی بیوی اس کا ہاتھ بٹاتے ۔ میں بھی ان کی مدد کرتا ۔
علی خان نامی میراایک اور ماموں قربان نیاز اور روشن نیاز سے چھوٹا، اور نیاز خان سے بڑا تھا ۔ گو کہ وہ والد کے گھر میں رہتا تھا لیکن خاندان سے علیحدہ ہوچکا تھا اور چائے فروشی کا کام کرتا تھا ۔ اس کا سرمایہ ایک گھوڑی ، ایک چائے کی خورجین ، اورپتھر کے باٹوں سمیت ایک ترازو تھا ۔ وہ جمعہ کے سوا ہر روز بازار جاتا اور وہاں کسی جگہ بیٹھ کر اپنی چائے فروخت کرتا ۔ جس وقت اس کی چائے کم پڑتی تو وہ غجدوان یا بخارا جاتا اور بڑے چائے فروشوں سے چائے خریدتا ۔
گھر میں اس کی بود و باش اور خوراک دوسروں سے جدا ہوتی تھی ۔ معلوم ہوا کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ زیادہ مزے کی چیزیں کھاتا تھا ۔ اس کی بیوی بھی مشترکہ خاندانی کام نہیں کرتی تھی ۔ وہ غجدوان کی رہنے والی تھی اور غجدوانی کپڑے پہنتی تھی ۔ قربان نیاز کے بقول علی خان کی آمدنی اچھی خاصی تھی اور وہ بیوی کی سلائی کڑھائی کے ہنر سے بھی فائدہ لیتا تھا ۔ لیکن وہ بہت کنجوس تھا اور ماں باپ کا کوئی خیال نہیں رکھتا تھا ۔ نانی نے کہا :
”علی خان روزانہ بازار جاتا ہے مگر کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ وہ میرے یا اپنے باپ کے لئے کلچہ شیر مال لایا ہو۔ حالانکہ وہ جانتا ہے کہ ہمارے کمزور معدے جوار کی روٹی ہضم نہیں کر سکتے ۔ ایک دفعہ باپ نے کہہ بھی دیا کہ ” ہمارے لئے بازار سے شیر مال کاایک کلچہ لے آنا !“ لیکن وہ یہ کہہ کر نہیں لایا :” بازار میں شیر مال کا کلچہ نہیں تھا “۔ حالانکہ اس کی اس بات پہ ایک سالہ بچہ بھی باور نہیں کر ے گا ۔
ہم جس وقت اپنے چھوٹے بھائیوں کو نانا کے گھر چھوڑ کر بخارا گئے تھے تو ہمیں اس خاندان کی تنگ دستی کا معلوم تھا ۔ لیکن ہمیں امید تھی کہ تاجر ماموں اپنے بھانجوں کی مدد کرے گا اورانہیں مرنے سے بچالے گا ۔ نانی کی سنائی ہوئی سرگزشت سے معلوم ہوا کہ اس نے میرے بھائیوں کا کچھ بھی خیال نہ رکھا ۔ اس کے باوجود اُس کی اِس غیر انسانیت کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے میں نے نانی سے کہا ۔
”لگتا ہے کہ علی خان نے میرے بھائیوں کی اچھی دیکھ بھال نہیں کی ۔ حالانکہ ہماری ساری امیدیں اسی سے تھیں “۔
”اچھی دیکھ بھال نہ کی “ اچھا لفظ نہیں ہے “۔ نانی نے کہا ”کچھ بھی خیال نہیں رکھا ۔ کرام الدین جوار خوری سے بد ہضمی کی بیماری میں مبتلا ہوا۔وہ جوار کی نرم کی ہوئی روٹی کھاتا، قے کر لیتا ۔ وہ کچھ دیر کے بعد دوبارہ ”روٹی “ طلب کرتا ۔ ہم پھر اُسے جوار کی نرم کی ہوئی روٹی دیتے۔ وہ پھر قے کرتا ۔ موٹا تازہ بچہ اس بیماری کے ہاتھوں ایک ماہ کے اندر اندر برف کی طرح پگھل گیا ۔ میں نے ایک بار علی خان اور اس کی بیوی سے اس کی خاطر گندم کی ایک روٹی مانگی ۔ ” ہمارے پاس نہیں ہے “کہہ کر انہوں نے نہ دی ۔ حالانکہ وہ ہر ہفتے گندم کی روٹی کا ایک پورا تنور پکاتے تھے ۔
نانی نے ایک لمبی آہ کھینچی اور اپنی بات جاری رکھی:
”تمہارے بھائیوں کا خیال رکھنا تو چھوڑو ، اس نے تو تم پہ دعویٰ بھی کر دیا “۔
میں حیران ہواکہ ہمارا ماموں ہم پہ کیا دعویٰ رکھتا ہے ۔ حالانکہ ہمارے اور اس کے درمیان، اور والدین اور اس کے درمیان، لین دین کا کوئی معاملہ نہ رہا جس پہ کوئی دعویٰ عائد ہوتا ۔ میں نے سوچا تو میرے ذہن میں ایک بات آئی۔
”شاید علی خان نے میری ماں کی موت کے اخراجات کے بارے میں اپنے ماں باپ سے کچھ کہہ دیا ہو اور اس وجہ سے ہمیں مقروض قرار دیا ہو اور ” تمہاری بیٹی کے کفن دفن پر میں نے خرچ کیا “ کہہ کرانہیں اپنااحسان مند کہہ دیا ہو “۔ میں نے اسی بارے میں نانی سے پوچھا:
”اگر ماموں کا دعویٰ میری ماں کے کفن دفن پر اخراجات سے متعلق ہے تو وہ ہم سے حساب کر کے سارے اخراجات حتیٰ کہ اس سے بھی زیادہ لے چکا ہے ۔ پھر کس بات کا دعویٰ؟“
”اس وجہ سے نہیں“ ۔نانی نے کہا ۔
ماموں کے بے بنیاددعوے سے مجھے بے حد غصہ آیا۔ اورمیں نے غضب آلود آواز میں نانی سے پوچھا :
”پھر اس بے بنیاد دعوے کی کیا وجہ ہے ؟“
نانی میری شکل بگڑتے دیکھ کر اور میری آواز سن کر پشیمان ہوئی اوراس نے اپنی باتوں کو چھپانا چاہا ۔ اس نے کہا :
’‘’ علی خان تجارت میں جا کر بہت خسیس اور تنگ چشم ہو گیا ہے ۔ وہ بڑے تاجروں کے افعال و اطوار کی نقل کرتا ہے اور وجہ ، بلا وجہ ہر کسی پر دعوے کرتا پھرتا ہے ۔ بوڑھی ہو گئی ہوں ، میری یاد داشت کمزور ہو چکی ہے ، بات کرتے کرتے بھول جاتی ہوں اور جو کچھ کہہ چکی ہوں اس سے نا فہمیدہ رہتی ہوں ۔ ہو سکتا ہے کہ میں تم لوگوں پردعویٰ کی بات نہ سن چکی ہوں اور نا دانستہ کہہ بیٹھی ہوں“۔
البتہ میں نے نانی کی اس بے منطق ”دلیل“ پہ صبرنہیں کیا۔ میری پریشانی بد ستور قائم رہی ۔ لیکن دوسرے روز اس دعویٰ کی حقیقت مجھ پرروشن ہوئی ۔
یکشنبہ کا دن عبداللہ جان بازار کا دن ہوتا ۔ میں اپنے بڑے ماموں قربان نیاز کے ساتھ بازار چلا گیا ۔ ہم اپنے چائے فروش ماموں کی دکان جو ایک تھڑے پہ لگائی ہوئی تھی ، کے قریب بیٹھ گئے ۔ اس کے مستقل گاہکوں میں سے بھی کچھ وہیں موجود تھے ۔ خشک چائے کی پہچان رکھنے یا نہ رکھنے کی بات چھڑی ۔ ان میں سے ایک کہہ رہا تھا :” چائے کو جب تک دم کر کے نہ پیا جائے ، اس کی پہچان ممکن نہیں“۔ بعض دوسرے کہہ رہے تھے ” فقط دم کرنے اور پینے سے بھی چائے کی صفت معین نہیں ہو سکتی ، بلکہ دم کرنے کے بعد چند منٹ رکنا ضروری ہے ۔ اگردراز مدت چائے کا رنگ تبدیل نہ ہو اور اس میں عجیب مہک پیدا نہیں ہوتی توسمجھوچائے اعلیٰ تھی “۔
بعض دیگر کاخیال تھا کہ خشک چائے کے رنگ اور اس کی مہک سے اس کی اچھائی اورخرابی معلوم ہوجاتی ہے ۔ دم کرکے پینے کی کوئی ضرورت نہیں “۔
قربان نیاز گفتگو میں شامل ہو ا اور کہنے لگا :
”خواہ چائے ہو یا آٹا ، خواہ چاول ہویا کوئی اورچیز ، اس کا خام حالت میں شناخت کرنا ممکن ہے ، صرف معمولی تجربہ درکار ہوتا ہے ۔ لیکن دنیا میں ایک چیز ایسی بھی ہے جس کی شناخت کسی صورت ممکن نہیں ۔ اگر سالہا سال کا تجربہ بھی ہو اور آپ اس کی شناخت کادعویٰ بھی کریں ،تب بھی اچانک معلوم ہو گا کہ آپ اس کی پہچان نہیں رکھتے تھے ۔ یہ ناشناس چیز ۔۔۔۔ انسان ہے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ”انسان کو اس کی ذات اور نسل سے شناخت کرنا ممکن ہے ۔ اگر کسی کے آباﺅ اجداد اچھے ہوں تو وہ بھی اچھا ہو گا ۔ اور اگر وہ برے ہوں تو وہ بھی برا ہو گا“ ۔ یہ بات درست نہیں ہے ۔ اچھی یا بری نسل سے حیوانات کو معین کرنا ممکن ہے ۔ مگر انسان کو نہیں ۔ بہت بار ایسا ہوتا ہے کہ اچھے آدمی سے برا پیدا ہوتا ہے اور برے آدمی سے نیک ۔ انسان بے ذات ہے ۔ انسان جدا گانہ خصلت کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں ، پرورش پاتے ہیں اور بڑے ہو جاتے ہیں“ ۔
اس کے ہاتھ میں چائے کا پیالہ تھا ۔ اس نے اپنے بھائی علی خان کی طرف اشارہ کیا اور اس کو تند و تیز نگاہ سے دیکھا :”نہ صرف اجنبی لوگوں کی شناخت نا ممکن ہے بلکہ مخصوص آدمی کو بھی ، مثلاً کسی قریبی عزیز کوبھی ۔آپ عمر بھر تجربہ کریںاوریہ تک کہہ دیں کہ ”پہچان لیا “مگرایک دن وہ ایک ایسا نغمہ بولے گا کہ وہ ”نغمہ “ اس سے پہلے آپ کو معلوم نہ ہوا ہو گا ۔ مثال کے طور پر میں خود اپنے بھائی علی خان کو پیش کرتا ہوں “۔
اہلِ صحبت کی حیران نگاہیں علی خان کی طرف ٹک گئیں اور علی خان نے حیرت و شبہ کے ساتھ اپنے بڑے بھائی کی طرف دیکھا ۔وہ ایک اضطراب میں گرفتار نظر آیا اور بے صبری سے اپنی خصلتوں کے بارے میں بھائی کی زبان سے سننے کامنتظر ہوا ۔
قربان نیاز نے اپنی بات جاری رکھی ۔
”یہ، علی خان میرا بھائی لگتا ہے ۔ ہم دونوں ایک ہی ماں باپ سے پیدا ہوئے ۔ میں اس سے آٹھ برس بڑا ہوں ۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اس کو پال کر بڑا کیا ہے ۔ اس بنا پر ہونا یہ چاہیے کہ میں نے اُسے درست پہچان لیا ہو ۔ لیکن اسی سال سمجھ میں آیا کہ میں نے ابھی تک اسے اچھی طرح نہیں پہچانا “۔
”کیسے؟۔۔۔۔۔کیسے۔۔۔۔۔؟“حاضرین میں سے ہر ایک نے پوچھا ۔
”وہ اس طرح ۔۔۔۔“ قربان نیاز نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے بات جاری رکھی۔
”یہ لڑکا ہماری بہن کا بیٹا ہے جو ہمارے ہی ماں باپ سے پیداہوئی ۔ اس لڑکے کا ایک بڑا بھائی بھی ہے جسے آپ میں سے اکثر لوگ جانتے ہیں ۔ ان کے دو اور بھائی بھی تھے جن میں سے ایک اس زمستان میں مر گیا ۔ اب ان میں سے تین رہ گئے ہیں ۔ وبا کے برس اُن کے ماں باپ مر گئے ۔ اِن بچوں پر مصیبت آئی ۔ اس کے باوجود یہ اور اس کا بڑا بھائی پڑھنے کے لئے بخارا چلے گئے ۔ اب ہمارے اس تاجر بھائی نے ان کا خیال رکھنے کی بجائے الٹا ان پر مقدمہ کردیا ۔
”کیسے؟۔۔۔۔۔کیسے؟۔۔۔۔“
اہلِ محفل نے پھر حیرت سے پوچھا ۔ میرا دل پیچ و تاب کھا رہا تھا اور میرا سینہ تنگ ہورہا تھا ۔ اس لئے کہ گذشتہ روز جب میں نے نانی سے گفتگو کی تھی تو میرے دل میں بے بنیاد دعوے کی وجہ معلوم کرنے کی جیسے ایک گرہ سی پڑ گئی تھی ۔ اور اس کے اسباب پر ہر چند کہ میں نے بہت فکر کیا مگر عقل کہیں بھی نہ پہنچی تھی۔ اب وہ وقت آگیا کہ معلوم ہو سکے کہ کیا ہوا اوراس دعوے کی وجہ کیا تھی ۔ لیکن میرادل قربان نیاز کی تفصیلات سننے کی طاقت نہ رکھتا تھا ۔ میں بے صبری سے چاہتا تھا کہ وہ اس دعویٰ کے بارے میں لمبی باتوں سے نہیں بلکہ یک دم بتادے تا کہ میں جلدی سمجھوں اور میرا دل ہلکا ہو جائے۔
قربان نیاز نے اپنی بات جاری رکھی ۔
”جس وقت ہماری بہن کا ان لوگوں کے والد سے نکاح کر دیا گیا تو رواج کے مطابق نکاح کی مجلس میں داماد کے والدین سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ مہرِ مﺅجل یعنی وہ مہر جو کہ طلاق یا میاں بیوی میں سے کسی کی موت پر دیا جاتا ہے ، متعین کر دیں ۔ انہوں نے سکتری کے گاﺅں میں اپنا باغ دے دیا “۔
سامعین کے تعجب میں اضافہ ہوا اور کوئی نہ سمجھا کہ اس حکایت کا دعویٰ سے کیا تعلق ہے اور میرا غضب آلود تعجب تو سب سے بالا تر تھا ۔
قربان نیاز کہنے لگا :
”میرے اس تاجر بھائی نے معلوم نہیں کس سے یہ بات سن لی تھی کہ ان بچوں کے باپ کی وفات کے بعد نکاح کے شرط کے بطور وہ باغ ہماری بہن کا ہو گیا ۔ اس کے علاوہ ایک اور جگہ ایک ایکڑ زمین کاآٹھواں حصہ بھی بطور میراث ہماری بہن کو ملا ۔ مگر ہماری ہمشیرہ ہمارے والدین کی زندگی میں فوت ہو گئیں اور شریعت کی رو سے ہمشیرہ کی زمین کا چھٹا حصہ ہمارے ماں باپ کو ملا ۔ اور ہمارے اس بھائی کو یہ خیال آیا کہ ان یتیموں کے خلاف، اپنے ہی بھانجوں کےخلاف والدین کی جانب سے دعویٰ دائر کر ے اور زمین ان سے لے “۔
”ہائے ، ہائے “ سروں کی افسوس آمیز جنبشوں کا سلسلہ چل نکلا ۔ مجھے معلوم نہیں کہ علی خان کو شرم آئی یا نہیں لیکن میں اُسے اپنے ماموں ہونے پر اور اس کی اس حرکت پر شرمندہ ہوا ۔ میں نے نہ ان لوگوں کی طرف دیکھا اور نہ اس کی جانب نگاہ کی ۔
”تم لوگ سوچتے ہو گے کہ “۔۔۔۔ قربان نیاز کہنے لگا ” یہ کس قدر پستی اور تنگ چشمی ہے ۔ میں اپنے بھائی کی کنجوس اور خسیس اصلیت کو جان گیا حتیٰ کہ والدین پر بھی رحم اور غمخواری نہ کرنے سے جان گیا کہ یہ خود پسند ہے ، خود بین ہے ۔ لیکن اس حد تک جانا اسی سال مجھے معلوم ہوا “۔
قربان نیاز نے ہاتھ میں پکڑی چائے کی پیالی سے آخری گھونٹ لیا اور پھر گویا ہوا ۔
”اگر وہ اس دعوے کی رو سے زمین کا وہ چھٹاحصہ لے بھی لیتا تو اس کے حصے میں کیا آتا؟۔ کچھ بھی نہیں ۔ اس لئے کہ اُس وقت تو ہمارے والدین زندہ تھے ۔ لیکن ان کی موت کے بعد ، بشرطیکہ اس وقت تک یہ تاجر زندہ رہتا ہے ، پانچ میراث خور افراد کی قطار میں سے اس کے حصے میں کیا آتا۔ زمین کااتنا چھوٹا ٹکڑا جو آدھے کلو گرام چائے کی قیمت کے برابر بھی نہ ہو گا۔ یہ پستی اورپست نظری کی انتہا ہے ۔ کچھ بھی ہو ہمارے والدین اس بے آبروئی اور پستی کی راہ میں رکاوٹ بنے اور ان کے وکالت نامے کے بغیر ان کی طرف سے دعویٰ کرنا ممکن نہیں ۔ لیکن وہ روزانہ اپنے بوڑھے والدین کو عذاب دیتا ہے اوراُن سے درشت باتیں کرتا ہے کہ ”وہ کیوں اسے دعویٰ کے لئے وکالت نامہ نہیں دیتے ؟“۔
حکایت ختم ہونے کے بعد میرا سر قدرے ہلکا ہو گیا ۔ ناخواستہ میری نظراپنے تاجرماموں پر پڑی ۔ وہ شرم سے پانی پانی ہو چکا تھا ، سر جھکائے بیٹھا تھا ۔ وہ نہ مجھ سے ، نہ اپنے بھائی سے، اور نہ ہی وہاں بیٹھے کسی بھی شخص سے نظریں ملا سکتا تھا ۔ چائے پینے والے اور خریدنے والے ایک ایک کر کے چلے گئے ۔
جب ہم تنہا رہ گئے تو علی خان سر اٹھائے بغیر اپنے بھائی سے کہنے لگا:
” بیگانہ لوگوں کے سامنے مجھے شرمندہ کرنا لازمی نہ تھا “۔
”میں چاہتا تھا کہ“قربان نیاز بولا” تمہیں اس بری خصلت کی بڑی سخت سزا دوں لیکن اگر تمہیں پیٹوں ، تمہارے ہاتھ پاﺅں توڑ بھی د وں تب بھی تمہارے گناہ کے برابر کی سزا نہ ہوتی اور اس کا فائدہ بھی نہ تھا ۔ مزید برآں ہم بھائیوں کو ایک دوسرے سے دست و گریبان ہونے سے والدین پریشان ہوںگے اور یہ بات خواہ تمہارے لئے معمولی ، مگر میرے لئے گناہِ عظیم ہے ۔ میں نے بہت سوچا اور یہ سزا ڈھونڈ نکالی کہ تمہیں لوگوں کے سامنے شرمندہ کروں تا کہ تم اپنی ان بری عادتوں کو چھوڑ دو ۔ اگر تم درست ہوجاﺅگے اور ماں باپ سے جھگڑنا چھوڑ دو گے تو میں خود کو خوش نصیب سمجھوںگا۔ اور اگر نہیں، تم اپنی انہی بری اور پست عادتوں پہ چلتے رہو گے تواس سے بھی بڑی اور سخت شرمندگی تمہارا سامنا کرے گی“۔
میں اسی نشست سے یہ جان گیا کہ دعویٰ کی حقیقت کیا تھی ، دوسرا یہ کہ اپنے ماموﺅں کو پہچان گیا۔ اور یہ بھی جان گیا کہ میرا تاجر ماموں جس قدر بد طنیت اور پست ہے میرے دوسرے ماموں اسی قدر عالی ہمت اور دانشمند تھے ۔ اور حالانکہ وہ دونوں ایک ہی خاندان ، ایک ہی ماں باپ، ایک ہی گاﺅں میں پیدا ہوئے اور پرورش پا کر بڑے ہو گئے لیکن میں اس وقت تک نہیں جانتاتھا کہ میرے تاجر ماموں پر تاجروں کے افعال و اطوار کا اثر پڑ چکا اور اُس میں سودا گری والی تنگ چشمی کی خصلت پیدا کردی۔ اور دوسرا ماموں محنت سے ،حلال کی کمائی سے زندگی گزارتا تھا۔ اس پر قاضی عبدالواحد کا اثر تھا جو کہ اپنے زمانے کا شاعر اور دانشور تھااور احمد مخدوم کے ہم فکروں میں سے تھا ۔
قربان نیاز نے اپنے چھوٹے بھائی کی خیریت معلوم کرنے کے لئے صحرا جانا چاہا ۔ اس نے مجھ سے کہا ۔
”اگر تمہیں صحرا کی سیاحت کی خواہش ہو تو تمہیں ساتھ لے جاﺅںگا “ ۔
میں نے رضا مندی ظاہر کی ۔ اس لئے کہ میرے دماغ سے بخارا شہر کی بد بو کو صحرا کا موسم ہی صاف کرسکتا تھا ۔ قربان نیا ز نے جوار کی ایک روٹی خورجین میں ڈال دی اور ہم دونوں گدھے پر سوار ہو کر صحرا کے راستے پر روانہ ہو گئے ۔ گاﺅں سے نکلتے ہی قدم بہ قدم ہوا صاف ہونے لگی ۔ جونہی ہم نے ”شافر کام “کا دریا عبور کیا تو فضا بہت ہی لطیف و معطر ہو گئی ۔ باوجود اس کے کہ یہ بہار کا آخر اور گرما کا آغاز تھا ، اس سال بہت بارشوں کی وجہ سے خود رو گھاس ابھی تک سبز تھی ۔ ہر جگہ پر سرخ و زرد لالہ کے پھول، لالہ زار بنائے ہوئے تھے ۔
جب ماموں کا دل خاموشی سے سفر کرنے سے تنگ ہوا تو اس نے اپنی دیدہ اور شنیدہ باتیں کرنا شروع کر دیں ۔ اور اس نے قاضی عبدالواحد کی باتیں کیں اوراس کی خوبیوں پر گفتگو کی ۔
میں نے اس سے پوچھا:
”قاضی عبدالواحد کی قاضی گری چھوڑنے کے بعدآپ کسی اورقاضی کے ہاںملازم نہ بنے ؟۔کیا کپاس صاف کرنا آپ کے لئے بہت دشوار نہیں ؟“۔
”ہاں“۔ اس نے بولنا شروع کردیا ۔” جس وقت مرحوم قاضی نے غجدوان کی قاضی گری چھوڑ دی تو اس نے بخارا جانا چاہا ۔ ہم اس کے چند قدر دان ملازم اس کا سامان اس کے نئے گھر تک پہنچانے ساتھ گئے ۔ اس نے ایک رات ہمیں مہمان بنایا ۔ صبح اپنی بیماری کے باوجود مجھے اندر بلایا اور پوچھا :” کیا تم کسی قاضی کے پاس ملازمت کرنا چاہتے ہو ؟“ ۔میں اُس وقت سارے قاضیوں کو اُسی کی طرح کاسمجھتا تھا ، لہٰذا بغیر سوچے سمجھے ”ہاں“ کہہ دیا ۔ وہ سوچ میں پڑ گیا اور چند لمحوں کے بعد بولا ” سارے قاضی خدا بے خبر اور ظالم ہیں ۔ انسان ان کے گھر میں خراب ہو جاتا ہے “۔ یہ کہنے کے بعد وہ پھر سوچ میں پڑ گیا۔ کچھ دیر کے بعد پھر گویا ہوا ”عارف خان کا بیٹا پارسا خان انہی دنوں قاضی بن گیا ہے ۔ ممکن ہے کہ وہ ابھی تک ظلم و ستم کا عادی نہ بنا ہو ۔ اگر ملازمت کرنا چاہو تو تمہیں اس کے پاس ملازم کرا دوںگا۔میرے کچھ دیگر قدر دان ملازموں نے بھی ملازمت کی خواہش کی ہے، انہیں بھی اس کے پاس بھجوا دیتا ہوں اورتم سب کے لئے ایک ہی خط لکھ دوںگا“ ۔
” ہم پانچ افراد تھے ۔ ہم اُسی روز قاضی عبدالواحد کا مکتوب پارسا خان کے پاس لے گئے جو کہ گژدھک میں رہتا تھا ۔ہم نے خط اسے دے دیا۔ اس نے دو روز بعد ہمیں بلایا۔ہم سے فرداً فرداً حال حوال پوچھنے اور کتنے سال ملازمت کی،جیسے سوالات کے بعد اُس نے کہا: ” تم لوگوں نے قاضی عبدالواحد کے ہاں تربیت حاصل کی ہے ۔ ان کی تربیت اور ہم نوجوان قاضیوں کے کام میں بڑا فرق ہے ۔ حضرت امیربخارا ہمیں ہماری خدمات کے مطابق اجرت دیتے ہیں اور ہم اپنے ملازموں کو اُن کی کارکردگی کے مطابق اجرت دیتے ہیں ۔ کام جاننے والا اور کام کرنے والا ملازم وہ ہوتا ہے جو لوگوں سے قاضی کے مہر لگانے کے زیادہ سے زیادہ پیسے لے ۔ اسی طرح قانونی چارہ جوئی کے زیادہ سے زیادہ پیسے لے اور اس کا نصف اپنے مالک قاضی کو دے ۔ اگر تم لوگ اس طرح کی ملازمت کر سکتے ہو تو تم لوگوں سے میں بھی راضی ہو جاﺅںگا اور جناب عالی امیرِ بخارابھی خوشنود ہونگے ۔ ایک گھوڑی کی بجائے تمہیں دوملیں گی اور تمہارا گزر بسر اچھا ہو گا ۔ وگرنہ اپنے لےے کوئی دوسرا کام ڈھونڈلو“ ۔
”میں نوجوان قاضی کی نصیحت سن کر اُس سے رخصت لئے بنا ہی اپنے گھر روانہ ہوا اور اُس دن سے کپاس صاف کرنے کے کام پہ جت گیا “۔
” اچھا تو کپاس صاف کرنے میں زندگی کیسے گزر رہی ہے ؟“۔ میں نے پھر پوچھا ۔میرا ماموں کچھ دیرخاموش رہاپھر جواب میں بولا ۔
”کپاس صاف کرنا در اصل برا کام نہیں ہے ۔ اگر کسی میں قوت اور صحت ہے تو اسے یہ کام تنگ بھی نہیں کرتا اور اگر مالکان ایمانداری سے معاوضہ بھی دیں تو اس کام میں زندگی اتنی بری نہیں گزرتی ۔ لیکن افسوس سارے کپاس تاجران چور اور فریبی ہیں ۔ وہ مزدوروں کے ساتھ تول میں بے ایمانی کرتے ہیں۔اس طرح آخر میں ہمارے پاس روٹی خرید نے کے پیسے بھی نہیں بچتے۔
*****
ہم اس وقت تک ایک خشک ندی میں پہنچ گئے جہاں دریائے جلوان کے خشک ہونے سے قبل اُسی دریا کاپانی بہتا رہتا تھا ۔ میں نے ماموںسے اس ندی کانام پوچھا ۔ اس نے جواب دیا :” سیلاب کے دنوں میںیہ ندی ” تیز گزر“ نامی علاقے کوسیراب کرتاہے اس لےے اسے ”جوئے تیز گزر “ کہاجا تاہے“ ۔
میں نے پوچھا :
” اس علاقے کوتیز گزرکیوں کہتے ہیں ؟“
اس نے اس بارے میں مقامی روایت مجھے سنائی : ایک دفعہ ندی کے کنارے ایک امیرآدمی کی حسین بیٹی بیٹھی ہوئی تھی ۔اس کے ہاتھ میں کٹورا تھا جس سے وہ ندی سے پانی بھرکرپی رہی تھی ۔اسی وقت دوسری سمت سے ایک چرواہا پیدل چلتا ہواندی کی طرف آرہاتھا۔ جب نوجوان چرواہے کی نظر اس لڑکی کے رخِ زیبا پر پڑی تووہ اس کے حسن وجمال سے مسحور ہوگیا۔ حیرت سے نگاہیں اس پر گاڑے وہ گم سم وہیں کھڑارہا۔
لڑکی نے اس سے پوچھا :
”یہ کسی کی نگاہ عجیب ؟
جلاڈالتی ہے رخسار “
نوجوان چرواہے نے جواب دیا :
“عاشق ہوںاور ہوں بے قرار “۔
لڑکی نے ہاتھ میں تھا ما کٹورا اس کی طرف بڑھا یا اورکہا :
”کٹورہ زروسیم سے بھر کرلاﺅ“۔
نوجوان چرواہے نے جواب دیا :
”مفلس ہوں اور راہ گزر“
امیرزادی نے غرورسے کہا:
”…….. بس قصہ ختم تیز گزر“
اسی منا سبت سے اس علاقے کانام ”تیز گز ر“پڑگیا
*****
ہم دریائے جلوان عبورکرکے ” مزارِ چل دختر ان “ پہنچے ۔یہ مزار صحر اکے آخرمیںواقع تھا۔ قرب وجوار میں کوئی گاﺅں کوئی گھرنہ تھا ۔ نہ ہی کوئی دیوار تھی ،نہ درخت تھے نہ کھیت نہ کھلیان۔
ماموں نے ”مزار چل دختر ان “کے نام کے بارے میں یہ افسانہ نقل کیا ۔ بہت پہلے تیز گزراور باغ افضل نامی علاقوں میں غلا م داری کارواج عروج پہ تھا۔ ان دونوں دیہاتوں کی کنیزوں میں سے چالیس لڑکیا ں ایسی تھیں جن پران کے آقا بہت ظلم ڈھا تے تھے ۔
جب یہ ظلم وستم نا قابل برداشت ہوگیا تو ایک رات جب اُن کے آقا سوچکے تووہ صحراکی جانب فرارہوگئیں ۔
جب مالکوں کوخبر ہوگئی تووہ تلواروں ڈھا لوں سے لیس اپنے سبک رفتا رگھوڑوں پہ سوار ہوئے اوران کے تعاقب میں سرپٹ چل پڑے ۔انھوں دریائے جلوان کے کنارے انھیں جالیا ۔
کنیز لڑکیوں نے جب انھیں قریب پہنچتے دیکھا تو خداسے فریاد کی کہ انھیں زمین میںگاڑ دے تاکہ وہ ان ظالموں کے ہاتھ نہ لگ سکیں اور دوبارہ عقوبت وعذ اب میں نہ پڑیں۔
” خدانے ان کی دعا قبول کی اورزمین شق ہوگئی ۔ وہ چالیس لڑکیاں زمین کے اندر گئیں اورزمین کے کنارے دوبارہ آپس میں مل گئے ۔اسی مناسبت سے اس جگہ کا نام ”چل دختران “پڑگیا۔
*****
ہم وہاں سے گزر کر خریز نامی جگہ پہنچے جہاں دیھنو عبداللہ جان کے چرواہوں نے اپنے رہنے کے لئے خیمے کھڑے کئے تھے ۔ وہ لسی سے مکھن بناتے ، برّوں کا خیال رکھتے ۔ چرواہے رموں کو چرانے کے لئے صحرا میں ہر سمت لے جاتے ۔ میرا ماموں چرواہا بھی اپنے ریوڑ سمیت چراگاہ جاچکا تھا ۔
قربان نیاز نے مجھے اپنے بھائی کے خیمے میں چھوڑا اور خود چراگاہ کی طرف چلا گیا اور بالآخر اُسے ڈھونڈ لایا ۔ ماموں نیاز خان نے ہمیںلسی پلائی اورخود جوار کی روٹی پکانے لگ گیا ۔
قربان نیاز خیمہ کے باہر سو گیا ۔ میں چہل قدمی کرتے وہاں سے ذرا دور چلا گیا ۔ یہ صحرا تھی۔ جگہ جگہ سرخ ریت کے ٹیلوںکی قطاریں تھیں ۔ جب میں نے ان کم اونچے ٹیلوں کو عبور کیا تو ایک چرواہے کی بانسری کی آواز نے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا ۔
کچھ اور ٹیلے عبور کر نے کے بعد میں نے بھیڑوں کا ایک چھوٹاسا ریوڑ دیکھا جو ڈھلوان میں چر رہا تھا ۔ ایک ٹیلے پر ایک 80 سالہ بوڑھا بیٹھا تھا ، جسے ہم بابا غلام پکارتے تھے ۔ اس کا بیٹا بھی اس کے ساتھ تھا ۔ بوڑھا آدمی بانسری بجا رہا تھا ۔ بچپن میں میں نے اس بزرگ کو اکثر دیکھا تھا ۔ بوڑھے نے مجھے دیکھتے ہی پہچان لیا ۔ اس نے اپنی بانسری ایک طرف رکھ دی ۔ اور مجھ سے میرے والدین کی وفات کے بعد کے ہمارے حالات پوچھنے لگا ۔ میں نے مختصراً تمام حالات بتائے ۔ میں نے ان کے حالات کے بارے میں پوچھا ۔
اس نے مجھے اپنی، اوراپنے علاقے کی سرگزشت تفصیل سے سنائی ۔ یہ وہی رحیم داد تھا جو ترکمن غارتگروں کی طرف سے سات برس کی عمر میں اغوا ہو کر دوسرے گاﺅں میں عبدالرحیم بائی کے ہاتھ ”نیک قدم “ کے نام سے فروخت ہو گیا تھا ۔
میں بابا غلام کی سرگزشت سننے میں اس قدر منہمک ہوا کہ اپنے ماموﺅں کو بھول گیا اور مجھے دن ڈھلنے کا بھی پتہ نہ چلا ۔ تب اچانک میرے کان میں آواز آئی ۔کوئی میرا نام پکار رہا تھا ۔ میں نے آواز کی طرف نگاہ کی تو دیکھا کہ میرا ماموں نیاز خان اپنے منہ کے دونوں طرف ہتھیلیاں کھڑی کر کے ہر طرف رخ کر کے زور زور سے میرا نام پکار رہا تھا ۔
میں نے اس کی آواز کا جواب دیا اور اس کے ساتھ واپس خیمہ پہنچا ۔ قربان نیاز میرے گم ہونے کی وجہ سے کچھ پریشان ہو گیا تھا ۔”مبادا میں کسی بھیڑیئے کے چنگل میں نہ گھر گیا ہوں “ اس نے خوفزدہ انداز میں کہا ۔
کھانا کھانے کے بعد ہم واپس ہوئے اور رات کے تین بجے ہم گھر پہنچے۔
*****
میرے سامنے میرے زندہ بھائی سراج الدین کا مسئلہ تھا ۔ اگر وہ مزید نانا کے گھرمیں رہتا تو اس کی موت یقینی تھی ۔ اس لئے میں نے دل میں فیصلہ کر لیا کہ اسے اپنے ساتھ شہر لے جاﺅںگا، وہ جو کچھ بھی ہو کم از کم میری نظروں کے سامنے تو رہے گا۔ لیکن شہر جانے سے قبل ساکتری جا کر اپنے گھر کا چکر لگانا لازمی تھا ۔ اسی عرصے میں بھی دل نہیں چاہا کہ بھائی کو خود سے جدا کروں ۔ میں نے اسے بھی اپنے ساتھ ساکتری لے جانا چاہا ۔
بازار کے ایک دن ماموں قربان نیاز ہمیں غجدوان لے گیا ۔ ہم وہاں سے ساکتری سے بازار آنے والوں کے ساتھ اپنے گاﺅں چلے گئے ۔ اپنے عزیزوں رشتہ داروں کی پریشان حالی ، گھر کی خرابی اور باغ کی ویرانی نے مجھے مغموم کر دیا ۔ تو تہ پاشا فوت ہو گیا تھا اور اس کی موت کے بعد اس کا گھر پہلے سے بھی خراب تر ہو گیا تھا ۔ صحن میں خود رو بد بو دار جھاڑیاں اگ کر سوکھ چکی تھیں ۔ اس کے گھر کا دروازہ کھلا ہوا تھا ۔ وہ خود نہ تھی تو پریوں کی اس کی سنائی کہانیاں ، اس کی سلطنت کہاں رہتی ؟ میں نے سوکھے گلے کے ساتھ اندر جھانکا ۔ فرش پر وہی خستہ حال چمڑابچھا ہوا تھا ۔ میں اس کی ختم شدہ دنیا کو الوداع کہنے اندر چلا گیا ۔ اچانک ایک آوارہ بلی مجھ پر جھپٹی اور لپک کر دروازے سے باہر بھاگی ۔ پریوں کی کہانیوں والے گھر کی نئی مالکن اب وہ تھی ۔
میں یادوں اور ارمانوں سے بھرا ،دیر تک وہاں ساکت کھڑا رہا ۔
پھر میں سلطان پاشا کے گھر کی طرف گیا جو کہ ابراہیم خواجہ کی بیوی تھی ۔وہ بیماری پڑی تھی ، اور اس کے پہلو میں ایک چار سالہ بچہ تھا ۔ وہ بھی بیمار تھا ۔ اس کے شوہر کا بھانجا حامد خواجہ اس کی تیمار داری کررہا تھا ۔
سلطان پا شا نے مجھے دیکھا تو حال حوال پوچھا۔اس نے مجھے تا کید کی کہ تو تہ پاشا کے گھر کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھوں ، اسلےے کہ ” وہاں ہفت سروں والا دیو رہتا ہے“۔ یہ بے چاری تو ہم پر ست اُسی وحشی بلی کو ” ہفت سروں والا دیو “ سمجھتی رہی ہے ۔
میں نے اس کے شوہر کے بارے میں پوچھا۔
” وہ مزار پر چلّہ کاٹنے بیٹھا ہے اورایک ماہ سے زائد عرصہ گزرا ہے کہ گھر واپس نہیں لوٹا“۔
میں وہاں سے چچا اُستا کے گھر چلا گیا ۔ میںنے وہاں اُس باتونی ، زندہ دل اورغیرت مند شخص کی بجائے ایک قریب المرگ شخص دیکھا جس میں بات کرنے تک کی قو ت نہ تھی ۔ اوراس نے بہت ہی نحیف آواز میں میرا حال حوال پوچھا۔ وہ زمستان کے اوائل میں بیمار پڑ گیا اورکام کے قابل نہ رہا۔ چنانچہ اس نے مجبور ہوکر اپنی زمین کاایک ٹکڑ ا ارزاں قیمت پر قاضی کے بیٹوں پہ بیچ دیا۔
میں نے اس کے بیٹے اکرام خواجہ کے بارے میں پوچھا۔
”جس وقت سے میں بیمار پڑا میںنے اُسے نہیں دیکھا۔ وہ مجھ سے پوچھے بنا گد ھے پہ سوار ہوکر چلاگیا ۔ لوگ کہتے ہیں کہ وہ ”وا بکند“میں اپنی ماں کے عزیز وں کے گھر میں ہے ۔ اگر تمھیں شہر میں سید اکبر ملے تو اُسے بتا دینا کہ میں بیمارہوں ۔اُسے کہنا کہ وہ میرے بارے میں معلومات کرتار ہے اور مرجاﺅں تو مجھے دفنا دے“ ۔
میرے اس چچا کے گھر میں اس کی بیمار بیوی ، دوچھوٹی بیٹیاں اورنوزائیدہ بیٹا تھے ۔ان سب کے چہر وں کی رنگت بیماروں سے کچھ بھی بہتر نہ تھی۔
میں غم اور بے بسی کا ناقابل برداشت احساس لئے وہاں سے نکلا ۔ میرے بچپن کا سارا جہاں میری نظروں کے سامنے زمیں بوس ہو رہا تھا ۔
ہمارے باغیچے کے درخت خستہ حال تھے ۔ کسی نے انہیں پانی نہیں دیا تھا ۔میں جس جگہ کدّو کاشت کیا کرتاتھا وہ جگہ خار دار جھاڑیوں سے بھر چکی

تھی ۔کمبلوں میں چوہوں کا بسیرا تھا ۔ نمدوں میں کیڑے مکوڑوں نے گھربنا لئے تھے ۔
ہم نے اپنی زمین ایک دھقان کے سپرد کر رکھی تھی ۔ میںنے اس سے حساب مانگا تو وہ کہنے لگا کہ اس نے ایک ٹکڑے پر کپاس بویا تھا مگر فصل سوکھ گئی ۔ ایک ٹکڑے پرگندم کاشت کی تھی مگر وہ اپنے ہی اخراجات پورے نہ کر سکی ۔ آخر میں اس دھقان نے تجویز پیش کی کہ میں اپنی زمین اسی پر ، یا قاضی کے بیٹوں پر فروخت کر دوں ۔ میں نے انکار کیا ۔
میرے سامنے مسئلہ یہ تھا کہ میں اور میرا بھائی اپناخرچہ کہاں سے پورا کریں گے ۔ چنانچہ میں نے گھر کا سامان بیچنے کا فیصلہ کیا ۔ میں نے چوہے زدہ کمبل بیچے ۔ کرم خوردہ نمدے بیچے ، گھر کے برتن بیچے ۔ اس کے بعد والد کا کپڑا بننے والاتکلہ بےچ دےا ۔ اس طرح ہماری خوراک بہتر ہوئی ، میرے بھائی کے چہرے پر بھی سرخی پیداہوئی ۔ اس کے علاوہ ان پیسوں سے ہم دونوں نے اپنے لئے دودو جوڑے کپڑے خریدے ۔
میرے گاﺅں کے بہت سے لوگ ، نہ صرف بوڑھے بلکہ درمیانہ عمر کے لوگ بھی، جو وبا کے سال نہیں مرے تھے ، پچھلی سردیوں میں مر گئے ۔ اُن کے ورثا نے کفن دفن پر اخراجات کے لئے ان کی زمینیں بیچ ڈالیں ۔ یہ ساری زمینیں قاضی کے بیٹوں نے خرید لیں ۔ وہ ہمارے علاقے کے سب سے بڑے زمیندار بن گئے ۔ اور جن لوگوں نے زمینیں بیچ دی تھیں وہ اب ان کے کسان بن گئے تھے ۔ اس زمستان میں مرنے والوں میں موٹا لطف اللہ بھی شامل تھا جس کا مجھے بہت افسوس ہوا ۔
مگر اس سب کے باوجود ساکتری گاﺅں محلہ بالا سے بہتر معلوم ہوتا تھا اس لےے کہ اس گاﺅں میں سے ندی گزرتی تھی اور دریائے زرفشاں بھی نزدیک ہی بہتا تھا ۔ ساکتری میں ایک نئی بات بھی تھی ۔ اس گرما میں ہمارے گاﺅں کے ملّا کا ایک دوست ،ملّا شاہ وہاں پہنچا ۔وہ اپنی ملّائی کی تعلیم قریب قریب ختم کرچکاتھا ۔ اسے ادب سے بھی لگاﺅ تھا ۔ ہمارے گاﺅں کا ملّا ان دنوں بیمار تھا اور گھر سے کم ہی نکلتا تھا ۔ چنانچہ اس کا مہمان ملّا مسجد کے بچوں کو پڑھانے لگا ۔ وہ بالخصوص انہیں ادب پڑھانے کا شوقین تھا ۔
جب مجھے معلوم ہوا تو میں بھی ہر روز ”بیدل خوانی “کے وقت جا کر اس کے حلقے میں بیٹھ جاتا ۔ اس کے ہاتھ میںان کے دیوان کا ایک قلمی نسخہ ہوتا جس سے وہ غزلیں ایک ایک مصرع پڑھتا جاتا اوران کے معانی اور تشریح کرتا ۔
ایک دن اس نے بیدل کی ایک غزل کا یہ شعر پڑھا ۔
اے خیال قامتت آہ ضعیفاں را عصا
بررخت نظاہ ہارا لغزش از جوش صفا
جس وقت وہ مندرجہ ذیل شعر تک پہنچا تو اسے یوں پڑھا :
نشہ ئِ صد خم شراب از چشم مستت غمزہ ئی
خون بہائے صد چو من جلوہ ہایت یک ادا
اس نے اس شعر کی تشریح کر دی ۔ مجھے اس شعر میں ”چومن “ کے الفاظ ٹھیک نہ لگے ۔ میں نے آہستگی سے گردن اونچی کرتے ہوئے اس کے سامنے کھلی کتاب کو دیکھا ۔ اس میں واقعی ” چومن “ ہی لکھا تھا۔ تب مجھے خیال آیا کہ ضرور اس نسخے میں غلطی ہو گی اور وہ لفظ ”چمن “ ہونا چاہیے ۔ میں نے جس نسخے سے پڑھا تھا وہاں” چمن “ لکھا تھا ۔ لیکن میںنے کم سن شاگردوں کے سامنے رائے دینا مناسب نہ سمجھا ۔ اس نے بیدل خوانی جاری رکھی اور مندرجہ ذیل شعر یوں پڑھا :
تیغ مژگانت بہ آب ناز دامن میکشد
چشم مخمور ت بخون ناک می بندد حنا
پھراس نے اس کی تشریح اُسی طرح کی کی ، جس طریقے سے اس نے اسے پڑھا تھا۔
بہرام نامی ہمارے ساتھ والے گاﺅں کا ایک لڑکا جو کہ اس کا شاگرد تھا ۔اس نے ملّا کی تشریح سے اتفاق نہ کیا ۔ اس نے کہا ”ہمارے گھر میں ناک(ناشپاتی) کا درخت ہے وہ ہر سال میوہ دیتا ہے ۔ ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ اس کے میوہ کے اندر کبھی خون یا خون کے مانند سرخی ہو “۔ لیکن ملّا شاہ نے اس سے اتفاق نہ کیا ۔ اس نے کہا :
”ہمارے علاقے درواز میں ناک کے ایسے درخت ہیں کہ اگر آپ ان سے ایک شاخ توڑ دیں تو اس سے ایسا سرخ رس نکلے گا جیسے آپ نے ایک مرغے کا گلا کاٹ دیا ہو ، جوش سے خون نکلے گا اور آپ کے ہاتھوں کو خون آلود کر دے گا “۔
میں نے دل میں کہا ” اچھا ہے کہ درواز کی ناشپاتیوں سے دنبے کے گلے جتنا خون نہیں نکلتا ۔ ورنہ ناک خوروں کے ہاتھ منہ ، پگڑیاں اور کپڑے سب خون آلود ہو جاتے “۔
مجھے گمان ہوا کہ اصلی نسخہ میں لفظ ” ناک“ نہیں ہو گا بلکہ ” تاک“ ہو گا ۔ ملّا بہرام کے مناظرے سے مجھ میں بھی ہمت پیدا ہوئی اور میں نے اپنی یہ رائے اس ”بیدل شناس “ ملّا کے سامنے ظاہر کر دی ۔ اس نے کوئی بحث نہیں کی ۔ اور کہا :
”ہوسکتا ہے کہ اصل لفظ ” تاک“ ہو اور کاتبِ بے سواد نے ”ناک “ لکھ کر ہمیں غلطی میں ڈال دیا ہو “۔
بہر ام نے اس مطالعہ سے بھی اتفا ق نہ

کیا اورکہا کہ ” انگور کابھی خون نہیں ہوتا“۔ پھر ملا نے اپنی ادبیات شناسی سے مثا لیں دے دے کر اسے یقین دلا یاکہ:
”شا عروں کی اصطلا ح میں تاک کاخون شراب ہے “
ہرچند کہ مسودہ کے بری حالت میں ہونے اور ملّا کے غیر محتا ط پڑھنے کی وجہ سے کچھ غلط فہمیاں پیداہوئیں ۔مگر پھر بھی ان اسباق سے مجھے بہت مسرت ہوئی ۔ میں نے اس طرح کی شاعری اپنے گاﺅں میں توکیا بخاراکے میرعرب مدرسہ میں بھی نہیں پڑھی تھی ۔
*****
انگورپکنے کاموسم آگیا ۔ میں اپنے بھائی کے ساتھ محلہِ بالا کے علاقے میں نانا کے گھر لوٹا۔ وہاں ہم ان کے با غ میں چند روز انگورخوری کرتے رہے ۔ جونہی اوائل ستمبرمیں بخاراکے مدرسوںمیں تعلیمی سرگرمیوں کے آغاز کاوقت نزدیک ہوا، توہم نے شہر جا نے کی تیاریاں شروع کیں ۔ اور ماموں قربا ن نیا ز نے مجھے اور بھا ئی کوشہر لے جانے کا فیصلہ کیا۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *