Home » پوھوزانت » میں اور میری جدوجہد ۔۔۔ سوبھوگیانچندانی ننگر چنا

میں اور میری جدوجہد ۔۔۔ سوبھوگیانچندانی ننگر چنا

میں نے کبھی یہ نہ سوچا تھا کہ میں اتنے طویل عرصہ تک جیﺅں گا۔ میں شانتی نکیتن میں اپنی تعلیم پوری کرکے 1941 میں وطن لوٹ آیا تو میری شادی ہوگئی اور بعد ازیں میں نے لا ءکالج میں داخلہ لے لیا، جہاں سال کے آخری ایام تک پڑھنے کے بعد گاﺅں لوٹ آیا۔ گاﺅں ( بنڈی) پہنچ کر میں نے کسرت و ورزش کرکے ، ڈنڈ پیل کر، دودھ مکھن کھا کر یہ ارادہ کیا کہ فوج میں بھرتی ہوجاﺅں کیونکہ روس پرحملہ ہوچکا تھا اور کمیونسٹ نقطہ¿ نگاہ کے حساب سے برطانوی سلطنت کے لےے جنگ اب عوامی جنگ میں تبدیل ہوچکی تھی، جس کے لےے ہزاروں نوجوان برصغیر سے بھرتی ہورہے تھے، میں نے بھی ان کے ساتھ بھرتی ہونا چاہا۔
دوسری طرف کانگریس، گاندھی اور انگریزوںکے درمیان کشمکش اتنازور پکڑ چکی تھی کہ گاندھی کو ” انگریزو! ہندوستان چھوڑو“ کا نعرہ لگانا پڑا۔
جواہر لال نہرو اس سوچ کے حامی تھے کہ ” انگریزوںکو اتنا بھی گھیرنا نہ چاہےے کہ وہ بھاگ کھڑے ہوں یا پھر پاگل پن کی حد تک جوابی کاروائی پر اُتر آئیں“۔
گاندھی کی یہ تحریک 1942 میں شروع ہوئی تو مجھ پر طلبا کی طرف سے دباﺅ ڈالا گیا کہ میں ان کی رہبری کروں اور مذکورہ تحریک کا حصہ بنوں۔ اس صورتحال میں ، میں نے اپنے آپ کو چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پایا۔ ایک طرف یہ تھا کہ میں طلباءکی رہنمائی کرتا ہوا جیل چلا جاﺅں اور دوسری طرف کمیونسٹ پارٹی کا حکم تھا کہ باہر رہ کر محنت کشوں اور دیگر مظلوم طبقات کی تنظیم سازی کروں۔ اس ذہنی الجھن کے دور میں، میں نے بالآخر یہ فیصلہ کیا کہ کچھ دنوں کے لےے روپوشی اختیار کی جائے ۔ پھر میں روپوش ہوگیا اور کبھی یہاں تو کبھی وہاں رہ کر مزدوروں اور طالب علموں کے منتشر جتھوں کو منظم کرنے کی کوششوں میں مشغول ہوگیا۔
یہ وہی دور تھا ، جب کچھ نوجوان پر چو و دیار تھی کی رہنمائی میںبم بنانے لگے تھے اور کچھ نے تو انگریز آرمی کے گولے کہیں سے لے کر مجھے دےے کہ میں نے انہیں انگریز فوجیوں کے خلاف استعمال کروں۔
وہ بم میں نے رکھ دےے اور ” ہندوستان چھوڑ دو“ تحریک میں سرگرم ہوگیا اور بالآخر 26جنوری1943 کو گرفتار ہوا۔ مجھے بولٹن مارکیٹ تھا نہ میں رکھا گیا ، وہاں مجھ سے را ت کے وقت ایس پی رینک کے ایک افسر نے پوچھا، ” تم آخر ہو کون ؟ گاندھی وادی یا دہشت گرد ؟“۔
میں نے کہا ، ” میں گاندھی کا پیروکار ہوں نا کہ بم بنانے والی پارٹی کا “۔
اس نے مجھ سے مزید کچھ بھی نہ پوچھا اور پندرہ ایام تک تھانہ میں رکھنے کے بعد جیل بھیج دیا۔ یوں میں کبھی جیلوں میں تو کبھی ریلوں( ریل گاڑیوں) میں رہا، زندگی گزرتی رہی اور عمر کے ساٹھ برس مکمل ہونے کو آئے۔
بعد ازیں لاڑکانہ میں وکالت کی ڈگری لینے اور سیاہ کوٹ پہننے، سیاہ ٹائی باندھنے کا وقت آیا تو زندگی نے مجھے ایک نئے موڑ پر لاکھڑا کیا۔ اسی عرصہ میں، میں بال بچوں کے قریب ہوا تو غریبوں اور مسکینوں کے مقدمات لڑنے کی خاطر عدالتوں کے کٹہروں میں لڑنے لگا۔ میں مقدمات کے سلسلہ میں سخت محنت کیا کرتا اور جب تیار ہوکر ججوں کے سامنے جاتا تو وہ میری ایمانداری سے پیشتر ازیں واقف ہوتے اور دوسری بات یہ مقدمہ کی پیروی کرنے کے میرے انداز سے بھی اس حد تک متاثر ہوتے تھے کہ اکثر فیصلے میرے حق ہوتے تھے۔
سیاسی سرگرمیوں کے دوران میں پاکستان کے بڑے بڑے زعما ، مولانا بھاشانی ، میاں افتخار الدین، جی ایم سید ، ذوالفقار علی بھٹو وغیرہ سے ملا ۔ ایام وکالت میں میرا سابقہ اکثر و بیشتر غریب کسانوں اورمحنت کشوں سے پڑتا، اس لےے میں نے اس پیشہ میں پیسہ نہیں کمایا کہ کوئی مقدمہ لیتے وقت میرے ذہن میں یہ خیال نہیں ہوتا تھا کہ دوسرے وکلاءکی طرح میں بھی اپنا بینک بیلنس بڑھاﺅں۔ ان دنوں میری سوچ اور جذبہ یہی تھا کہ غریبوں کو انصاف دلاﺅں۔ میں نے اپنا وکالت کا عرصہ بڑی مصروفیت میں گزارا اور یہ سلسلہ 1998 تک جاری رہا۔ اس کے بعد میں امریکہ اور لندن کا بھی چکر لگا آیا اور اپنے داماد ڈاکٹر نند اور بیٹی نرملا کو لے کے ہندوستان بھی ہو آیا۔
ہندوستان دورے میں میری ملاقات تقسیم ہند کے بعد نقل مکانی کر گئے اپنے پرانے ساتھی کیرت بابانی سے ہوئی۔ اس کے علاوہ میں اپنے پرا نے کامریڈ ساتھیوں آئی کے گجرال ، اے، کے ہنگل، پربھو چُھگانی اور کرشن کھٹوانی سے بھی ملا گوبند مالھی چونکہ دیہانت کر گئے ، اس لےے اس کی بیٹی شوبھا سے ملا، وہ مجھے گوبند مالھی کی برسی کی تقریب میں احمد آباد لے کر گئی ، جہاں مجھے گوبند مالھی ایوارڈ دیا گیا۔
92 برسوں کی اس زندگی کے اس سفر میں مجھے یہ احساس بڑی شدت کے ساتھ ہوتا ہے کہ میں نے گنوایا کم اور حاصل زیادہ کیا ہے ۔ لوگوں نے مجھے ہر جگہ، ہر وقت بہت زیادہ عزت دی ہے، بہت پیار دیا ہے اور میں بھی کسی کو کبھی ناراض کرنا نہیں چاہتا ہوں ، سب کا بھلا، سب کی خیر چاہنے والا ہوں۔
زندگی کے اس موڑ پر میرا بڑے سے بڑا خواب ہے کہ سندھ اپنی منزلِ مقصود کو پالے اور اس کی خوشحالی کے سبب ہم سندھی لوگ خوشحال ہوں۔ یہ جرگے، کاروکاری ، ڈاکے ، لوٹ کھسوٹ، جاگیردار وڈیرے اور پتھاری دار ( چور ڈاکو پالنے والے) کبھی بھی ہمارے سندھ کا تعارف نہیں رہے ہےں۔ ہمارا موہن جو دڑو اس کا ثبوت ہے ۔ ہم کبھی ملک گیری کی ہوس میں کسی پر حملہ آور نہیں ہوئے ہیں۔ ہم اگر لڑے بھی ہیں تو اپنے وجود کے تحفظ کے لےے اور ہماری یہ لڑائی بھی اکثر دریائے سندھ کے ساتھ رہی ہے جو ہمیں غرقِ آب کرتا رہا ہے تو کبھی سرسبز و شاداب کرتا رہا ہے۔
( کامریڈ سوبھو گیانچندانی نے یہ تحریر اپنے 92 ویں جنم دن کے موقع پر تحریر کی تھی، جو اپریل2012 کو شائع ہوئی تھی)۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *