Home » پوھوزانت » کہیں واہ ۔۔۔۔ کہیں آہ ۔۔۔ محمد نواز کھوسہ

کہیں واہ ۔۔۔۔ کہیں آہ ۔۔۔ محمد نواز کھوسہ

سرمایہ دارانہ نظام اور توہمات کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔سرمایہ دارانہ نظام کی بچاو¿ کے لئے توہمات کو بطور سہارا ہمیشہ استعمال کیا جاتا رہا ہے۔جب انگریز برصغیر سے اپنا بوریا بستر لپیٹنے لگے تو اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے زرخرید جاگیرداروں اور نوابوں کو صاحبِ اقتدار بنایا۔ملک کو دو سال کے اندر قرار دادِمقاصد کی جال میں جکڑ کر سویت یونین کی راہ روکنے کی بنیاد رکھی گئی۔جاگیر دار لیاقت علی خان نے قرار دادِ مقاصد کے متن پر مہر لگا کر جہاں مذہبی ٹھیکداروں کو اسپانسر کیا وہاں امریکہ جو سرمایہ داروں کا امام ہے کا کام بھی آسان کیا۔
جب امریکہ نے سویت یونین کو اپنے اوپر حاوی ہوتے ہوئے دیکھا تو اس نے پیروں، ملاﺅں، ملنگوں کو عقیدہ خطرے میں ہے کا سگنل دیا۔پھر کیا تھا دیکھتے ہی دیکھتے سب اہلِ کتاب ہونے کے ناطے یہودی ،مسلم عیسائی مذہب کے نام پر سرمایہ داروں کے حمایت میں ایک ہو گئے۔جس طرح ہندوستانی فلم ”او مائے گاڈ “میں ملا،پنڈت ،پادری ایک ہو جاتے ہیں۔مردِ حق کمانڈر ضیاءالحق پہلے سے موجود تھا۔ڈالر کی چمک نے اثر دکھایا حکمت یار،ربانی،مجددی،محقق،سیاف مسعود ، راتوں رات کابل یونیورسٹی سے اپنے ابابیلوں کے ساتھ میدان میں آگئے۔
طالبعلموں کے ہاتھوں سے قلم چھین کر بندوق تھما دی گئی۔پنڈی ،پشاور اور کوئٹہ سے سرحدی محافظوں کے قافلے طورخم و چمن سے جلال آباد ،اسپن بولدک میں داخل ہونے لگے۔کابل یونیورسٹی کوچھاو¿نی میں بدل دیا گیا۔دینی بھائیوں کے لئے سرحدوں کی تمیز ختم کردی گئی۔مالِ غنیمت کی صورت میں دین دشمن سے چھینی گئی کلاشنکوف اور ساتھ تحفے میں ہیروئین بھی گلیوں محلوں میں بکنے لگی۔بقول بریگیڈئیر محمد یوسف مردِ حق نے خاموش مجاہد کو عملاً افغانستان کا وائسرائے بنا کر بھیجا اور جب بہاولپور میں C130 ہر کولیس تابوت میں مردِ مومن خاموش مجاہد کے ساتھ اپنے خمیر میں واپس چلے گئے تو پرائی جنگ کا معاوضہ اعجازی زمینوں اور ہمایوں اختری فیکٹریوں میں نظر آنے لگی۔اور ایک جھلک خیبر تا کراچی اچانک پھیلے مدارس میںبھی نمایاں تھی۔کہتے ہیں جب بھوک سے زیادہ کھایا جائے تو بد ہضمی ہو جاتی ہے۔یہی حال مجاہد ین و محافظین کا تھا استاد و نگران بہاولپور کی فضاو¿ں میں انجام کو پہنچ چکے تھے ریوڑ بے قابو ہو چکا تھا ہر کمانڈر وار لارڈ بن چکا تھا۔کابل ،پنج شیر اور پشاور میں متوازی حکومتیں بن چکی تھیں۔
سپانسرز کی کان پکڑ ہوئی تو بھائی چارے کے لئے خانہ کعبہ میں بیٹھ کر معاہدہ کیا گیا۔کثرتِ زر اور حوسِ اقتدار میں مجاہد خانہ خدا میں کئے گئے معاہدہ سے مکر گئے اور پھر سے باہم دستِ گریبان ہوگئے۔جب بات نہ بنی تو سرمایہ دار اور صاحبِ قباءدستار سر جوڑ کر بیٹھے مجاہدین کے مقابلے میں طالبان ایجاد ہونے کا فیصلہ ہوا اور افرادی قوت کا بندوبست بھی یہیں سے کیا گیا اکوڑہ خٹک کے حقانیہ دارلعلوم سے ہزاروں طالب سر حد پار کر گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے قندھار سے کابل پہنچ گئے۔ہم یہاں ضربِ طالبان کانفرنسیں کرتے رہے ادھر افغان بچوں کا لہوبہتا رہا 1971کے جنگی مجرموں کو ڈھاکہ میں پھانسی دینے پر چیخنے والے نجیب اللہ کو تختہ دار پر لٹکانے پرمٹھائی بانٹتے رہے۔تاریخ نے پلٹا کھایا پرائی دولت پھر رنگ دکھانے لگی اور طالبان بھی بدمست ہاتھی بن گئے۔ دنیا نے جنرل محمود کے قیادت میں منت میڑھ قافلہ بھی پنڈی سے قندھار جاتے ہوئے دیکھا جب کوئی صورت نہ بنی تو پورے افغانستان کو تورا بورا بنانے کا واشنگٹنی فیصلہ ہوا۔اسپانسرز اپنے پیاروں کو قبائلی پناہ گاہ میں لے آئے کیونکہ اپنا تو اپنا ہوتا ہے۔دوغلی پالیسی یہاں کا رواج ہو جیسے دنیا کے انتہائی مطلوبہ شخص کو 8 سال تک اپنے جی میں جگہ دئیے رکھا اور اسکی تلاش کے لئے ڈالر بھی بٹورتے رہے۔کچھ بے کار لوگوں کو بیچ کر گو انتا نامو کو بھی آباد کراتے رہے۔ یہاں فارن پالیسی نہیں فوراً پالیسی ہے کوئی مستقل مزاجی نہیں بس طلبِ زر ہے۔بم مزارِ شریف میں گرتا تو ہمارے طالب اس کا بدلہ ہم سے پنڈی اور کراچی میں لیتے۔مسلمان ،مسلمان کو مارنے لگا ۔کسی نے بھی منہ کھولنے کی کوشش کی انجام سلمان تاثیر والا ہوا۔کشمیر ،فلسطین کے بچوں کادرد محسوس کرنے والے بیسلان بالی اور افغانستان کے بچوں کے درد کو بھلا بیٹھے۔ آنکھیں تب کھلیں جب پشاور میں قیامت بر پا کیا گیا۔کوئٹہ میں ہزارہ بچوں کے قتل عام پر ہم خس کم جہاں پاک کہتے رہے۔ہمیں تو بلوچستان کے بچیوں کے تعلیم میں بھی عقیدہ خطرے میں نظر آیا۔ کل تک بھی اچھے بر ے طالبان کا ورد جاری تھا اور آج بھی طالبان کانام لینے سے کترا رہے ہیں۔1971میں بنگالی بچوں کا درد محسوس کی ہوتا تو پشاور کے سانحہ سے بچا جا سکتا تھا۔کہیں واہ واہ اور کہیں آہ آہ کی پالیسی جاری رہی تو ایسے سانحات ہوتے رہیں گے۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *