Home » قصہ » شہر کی آگ اور ایک مجذوب کا خواب ۔۔۔۔ فصیح الدّین

شہر کی آگ اور ایک مجذوب کا خواب ۔۔۔۔ فصیح الدّین

ابھی صبح کی اذان میں کچھ دیر باقی تھی ۔ چولہے ابھی ٹھنڈے ہی تھے۔ انسان نیند کی سرحدوں سے غنودگی کے پھاٹک تک آچکے تھے ۔ بس ایک ذان کی آواز سے نیند کی کنڈلی تڑاخ سے لٹک جاتی۔ مو¿ذن شاید ابھی مسجدوں میں گرم پانی کے غرارے کر رہے ہوں گے۔ یہ وقت مسلمانوں کے جاگنے اور عاشق نا مرادوں کے سونے کا ہوتا ہے۔ سگریٹ ، چائے، مے نوشی اور وقت کی بے عزّتی پر تُلے شاعروں کے بھی گھر جانے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ البتہ طائرانِ خوش الحان کی سُریلی اور مرغیوں کی کُکڑ کوں آوازیں آج سننے میں نہیں آئیں جو اذان سے قبل اپنا وظیفہ پورا کرنے میں کبھی کوتاہی نہیں کرتے۔ مرغِ عیسیٰ کی موسیقی بھی آج نہیں سُنی۔ ماحول میں آج تازگی اور شگفتگی کے آثار نہیں تھے۔ بے کلی اور ناقابلِ بیان صورت سیماب مضطرب کی سی حالت تھی۔ صوفیا اس کو انقباض کہتے ہیں۔ خوشی اور راحت کا فقدان۔ طبیعت میں ہشاشت بشاشت کی کمی۔ بے چینی کے اس عالم میں میں گھر سے باہر چلا آیا۔کیا دیکھتا ہوں کہ ایک مجذوب عبدالصمد نامی لگا کے آگ شہر کو یہ بادشاہ نے کہا، کا مشہور قطعہ گنگنا رہا تھا بلکہ باہر قطعاً اندھیرا نہیں تھا۔ ہر طرف آگ لگی ہوئی تھی۔ مجذوب بابا جیسے ہی اپنی چھڑی گھماتا یکے بعد دیگرے گھروں میں آگ کے شعلے بھڑک اُٹھتے ۔ روشنی مجھے ضرور پسند ہے مگر آگ کی روشنی میں میں نہیں چل سکتا۔ عوام کی چیخیں، بچوں کی سسکیاں اور عورتوں کے نعرے، ہا ئے میرا لال۔ یا اللہ!یہ سب کچھ کیسے ہو رہا ہے؟پٹرول چھڑکا گیا ہے نہ مٹی کے تیل کا ڈپو پھٹ پڑا ہے۔پھر کیسے ؟ شعلے پر شعلہ بلند ہو رہا ہے۔ ایک صاحب نے دوڑ کر مجھ سے کہا”سُنو ،سُنو،نلکوں میں پانی کی جگہ آتش گیر مادہ آرہا ہے۔پانی پانی نہیں رہا ہے۔ فاسفورس بن چکا ہے۔جیسے ہی نلکا کھولو اور پانی پلاسٹک کے لوٹے یا بالٹی میں گرے تو زندہ چونے کی طرح اُبلنا شروع ہو جاتا ہے اور فوراً آگ پکڑتا ہے ۔ سب کو بتا دو کہ پانی نہ کھولےں“۔ میں نے کہا ، یہ کیا غضب ہو ا؟ لوگ آگ بجھانے کے لیے نلکوں سے پانی لینے جائیں اور آگ لے آئیں ۔بابا عبدالصمد نے آواز دی او ڈئیر !(یہ مجذوب کبھی کبھی انگریزی میں بھی ایک آدھ لفظ کہہ جاتے ہیں جیسے کہ مولانا شبلی ؒ اور مولانا حالیؒ رواںاُردو میں ایک آدھ لفظ انگریزی کا گھسیڑ ہی دیتے تھے)اُو بردر! یہ آگ تم لوگوں نے ہی لگائی ہے۔ میں تو صرف چھڑی گھماتا ہوں ۔میں تو صرف بٹن آن کرتا ہوں۔ یہ پانی تو تم لوگوں نے لوگوں کا خون چوس کر جمع کیا تھا۔ اب اسے پیﺅ، اس لیے کہ تم تو بڑے بہادر اور معزّز ہو (ذُق±ءاِنّکَ اَن±ت َ ال±عَزِی±زِ ال±کَرِی±م)۔ میں نے کہا، بابا! بلکہ غصے میں عبدالصمد بھی کہا، عبدالصمد! یہ چھڑی گھمانا نہیں ڈنڈی مارنا ہے۔ خُدا کے لیے اسے بند کرو۔ اپنے ہاتھ روک لو۔ بابا نے پھر سے چھڑی گھمائی اور ایک دوسرے گھر سے آگ کے شعلے بلند ہوئے۔ روشنی اور بھی تیز ہوئی۔ مخلوقِ خُدا کے زندہ بھسم ہونے کا منظر۔ یا اللہ کیا قیامت ہے؟ کیا قیامت اسی کا نام ہے؟ کیا قیامت واقعی نزدیک آگئی ہے؟ بابا نے میری درخواست پرتضحیک آمیز ہنسی مگر ترنّم سے کہا، تم آگ لگا نا سیکھ گئے، تم آگ بجھانا کیا جانو۔ یہ آگ ا ور یہ آہ و بکا۔یہ نا قابلِ برداشت تھا۔
میں نے چاہا کہ واپس پلٹوں کہ کہیں غلطی سے کوئی پانی کا نلکا نہ کھول دے۔ موسیؑ آگ لینے گیا اور روشنی لے آیا۔ ہم پانی لینے جائیں اورا ٓگ لے آئیں۔ کیا ذلّت و خواری کا اس سے بھی بڑھ کر امتحان اور مقام ہو سکتا تھا؟ آگ کہاں تھی ، خُدا کا قہر برس رہا تھا۔ جیسے ہی پلٹا تو گیٹ پر مولوی عبدالقاہر بعض مظلوموں ، سہمے ، خوفزدہ، سراسیمہ خواتین و حضرات کو لیے کھڑا تھا۔ معصوم بچے بھی ایسے کھڑے تھے جیسے آگ کے شعلوں نے ان کے دل اندر ہی اندر کباب کباب کر دئیے ہوں۔ میں مجذوب عبدالقاہر کو جانتا ہوں جو تھوڑا بہت مولوی بھی ہے اور عام مجذوبوں کی طرح بہت زیادہ آزاد منش اور رندانہ کیفیّت بھی نہیں رکھتا۔ کہا، بادشاہ! سنبھالو، آج عبدالصمد واقعی عبدالصمد نہیں رہا ہے، عبد سے نکل چکا ہے، میں نے کہا، غضب خُدا کا۔ وہ عبدالصمد اور تم عبدالقاہر۔ وہ جلانے پر اُتر آیا ہے اور تم بچانے پر ۔ کہا، کائنات پوری کی پوری جو بن پرہے، پلٹا کھا رہی ہے، کل بھی ایک کہکشاں نے انگڑائی لی اور لاکھوں ڈگری سینٹی گریڈ کی نیلی آگ بلند ہوئی۔ بس عبدالصمد کو وہ آگ زمین پر دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی ہے۔ لاکھ روکا کہ یہ آسمانوں کی باتیں ہیں۔ افلاک پر کس کا بس چلتا ہے۔ نہیں مانا۔ جو ہوا سو ہوا۔ انہونی کو ہونی نہیں۔ اب تم ان زخمیوں اور خوف کے ماروں کو سنبھا لو۔ میں نے کہا، چھوڑو ان کو یہاں۔ دوڑو مولوی اور عبدالصمد سے چھڑی لے لو۔ ہمیں اس شہر میں یہ بادشاہ منظور نہیں ہے۔ اگر نہیں مانتا تو میں جمعہ کی رات غوث الزمان کی اسمبلی میں اس ”مجذوبانہ دہشت گردی“ کے خلاف قرار داد پیش کروں گا۔ ہمیں ایسا بادشاہ ہر گز نہیں قبول جس کے دل میں آگ لگانے کا شوق اُٹھتا ہے۔ یہ سن کر کہ کہیں اسمبلی میں عبدالقاہر اپنے ایک ساتھی کے ووٹ سے محروم نہ ہو جائے، سرپٹ دوڑنے لگا اورلپک کر عبدالصمد کے ہاتھوں سے آگ کی چھڑی کھینچ لی۔ پتہ نہیں عبدالصمد نے ہیری پوٹر فلم کی جادوئی اور آگ بر ساتی چھڑی کو کہیں دیکھا تھا یا واقعی کہکشانی انگڑائی سے وجد میں آیا تھا۔ فلم وہ کہا ں دیکھتا؟ اس کے آنے کے بعد تو شہر میں سارے سینما ہال بھی بند ہو چکے ہیں۔
عبدالصمد کا ہاتھ خالی ہوتے ہی آگ کے شعلے بیٹھ گئے ۔ کمال ہے کہیں بھی دھواں نہ تھا۔ صرف ایک ہی گھر محفوظ رہا تھا جہاں عبدالقاہر نے لوگوں کو جمع کیا تھا۔ کسی نے پوچھا۔ جنگل کی آگ ہے جنگل کی آگ مگر دھواں کہیں بھی نہیں ہے۔ عبدالصمد جو ابھی تک جلال میں تھا، مگر چھڑی اس کے ہاتھ سے نکل چکی تھی، نہایت کر ختگی سے بولا، یہ دلوں کی آگ ہے دلوں کی آگ۔ میں یہ شہر اسی آگ میں جلا کر راکھ کر دوں گا۔ ایسا جلاﺅں گا کہ دھواں بھی نہیں نکلے گا۔ میں نے کہا، عبدالصمد، سُن لو! نبی کا فرمان ہے جس کا مفہوم ہے” اور تم لوگ پتنگوں کی طرح لپک لپک کر آگ میں گرتے جا رہے ہو اور میں آپ کو ہلکا تا رہتا ہوں کہ بچو اس آگ سے“۔ مولوی عبدالقاہر نے اپنے مخصوص ناصحانہ انداز میں کہا ”کہ ہاں! قرآن نے بھی یہی کہا ہے کہ بے شک تم آگ کے گڑھے کے کنارے ہو اور اس میں گراہی چاہتے تھے مگر ہم نے آپ کو بچا لیا“۔ عبدالصمد نے کہا، مگر مولوی! تُو بھی سُن ! تم ان کو مجھ سے نہیں بچا سکتے۔ یہ آگ سے بچ کے بھی جائیں تو میں ان کو گولیوں سے بُھون دوں گا۔ یہ کہنا تھا کہ مجذوب عبدالصمد نے فائر بریگیڈ کی حفاظت پر کھڑے ایک سپاہی کے ہاتھ سے کلاشنکوف چھین لی اور اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔۔ ہر خالی ہاتھ میں اسلحہ خود بخود آتا رہا کہ مجذوب کا عمل تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پورے شہرِ نابینا کو اپنے سامنے والا گولی کا نشانہ نظر آیا۔ہر طرف گولیوں کی بارش ہونے لگی۔پوچھے سنے بتائے بغیرسڑکوں پر خون کی نہریں بہنے لگیں۔ اُف !یا اللہ! بے نیازی کی حد ہو گئی ہے۔ اب تو یہ آگ جلانے کے بعد قتل بھی کرنے لگا ہے۔ ہاتھی کے پاﺅں میں سب کا پاﺅں۔ بادشاہِ شہر عبدالصمد ایسی قتل و غارت پر اُتر آئے گا،کبھی سو چا نہ تھا۔ یقین نہ آیا۔ پاس کھڑے ایک سر فروش نوجوان نے عبدالقاہر سے کہا، مولانا صاحب!آپ کچھ کر سکتے ہیں یا میں کر لوں۔ میں فوراًسمجھ گیا۔مولوی عبدالقاہر نے میر ی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھیں اجازت کی طلبگار تھیں۔میں نے سرہلایا۔ نوجوان کی طرف منہ کر کے کہا، یااللہ! اسے میرا مددگار بنا اور خود تو ہی اس کا حامی و ناصر ہو۔میری آنکھوں کے سامنے وہ نقشہ کِھچ گیا جب بابا تاج الدین ناگوریؒ نے اُ س دور کے عبدالصمد کو معطل(suspend) کیا تھا۔گو اے ھیڈ کا اشارہ پاتے ہی نوجوان نے اپنا امریکی پستول نکا لا اور مجذوب عبدالصمد کی کنپٹی پر رکھ کر کہا، بس، بادشاہ !بہت ہو چکا یہ تماشا۔ ایک دو اور تین، پہلی گولی عبدالصمد کے سر اور باقی دو سینے میں پیوست ہوئیں۔ خون کی ہولی بند ہو گئی۔ آگ بُجھ گئی۔ زَردتشت کے پُجاری سجدہ ریز ہو گئے۔ لاشیں اُٹھا دی گئیں۔ ایمبولینسوں کی آوازیں اور ہٹو بچو کے نعرے سُنائی دے رہے تھے کہ میں واپس اپنے گھر آیا۔ گھڑی پر نظر پڑی تو رات کے بارہ بج رہے تھے۔ ارے یہ کیا؟، ابھی تو چار بج رہے تھے، اذان ہونے والی تھی۔ یہ وقت کیسے تبدیل ہو گیا؟ آواز آئی بالکل ایسے جیسے بادشاہِ شہر تبدیل ہو گیا۔ کیا یہ عالمِ مثال تھا۔ ندا آئی، سیف الدین سیف کی نظم ”انتباہ“ یا د کرو اور سو جاﺅ۔ یہ سننا تھا کہ رضائی میں گھس گیا اور صبح کی اُس سحر کا انتظار کرنے لگا جس کے بارے میں اقبال کہاہے۔
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود
ہوئی ہے بندہ مومن کی اذاں سے پیدا۔
رہے نام اللہ کا

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *