Home » شیرانی رلی » نظم ۔۔۔ غالب عرفان

نظم ۔۔۔ غالب عرفان

ہم آج اپنے ہی خون میں
تر بہ تر کھڑے،
اک قبیح منظر کے سامنے ہیں
ندامتوں کا پہاڑ سر پر اٹھائے
اب تک نہیں تھکے ہیں
ہوس کے دلدل میں دھنس رہے ہےں
دلوں میںنفرت کی شعلگی سے
ہماری صورت پگھل رہی ہے
یہ کیسی آتش ہے؟
کیسا لاوا ؟؟
کہ ہر تعصب کی شکل،
سیل رواں میں ڈھل کے
ہماری را ہوں کے
نقش، سارے مٹارہی ہے
یہ کیسی وحشت ہے!
کیا جنوں ہے!!
جو دہشتوں کو فروغ دے کر
ہمارے مابین
فاصلوںکو بڑھا رہا ہے
ہمارے چہروں کو نوچتا ہے
کھروچتا ہے!
ہماری پہچان مٹ رہی ہے!

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *