Home » پوھوزانت » ملتانی لکڑ ہارے کا بچپن ۔۔۔ انوار احمد

ملتانی لکڑ ہارے کا بچپن ۔۔۔ انوار احمد

آپ نے براہوی زبان کی وہ لوک کہانی تو سنی ہوگی،جس میں الحمرا جیسی عمارت میں رہنے والی ایک شہزادی کو کہانیاں سننے کا شوق ہوتا ہے، چنانچہ ایک مرتبہ ملتان کے جنگل سے ایک بوڑھے لکڑ ہارے کو پکڑ کر اس کے سامنے لایا جاتا ہے،جو شہزادی کے معصوم شوق کی رونمائی کرنے والے ایک ہی سوال پر آنکھیں جھپک جھپک کر بولتا ہے’پیاری شہزادی! ہم بیچارے تو جنگل میں پیدا ہوئے،وہیں پروان چڑھے،کچھ شاخیں کاٹیں،کچھ کو تراشا اور پھر وہیں جنگل میں دفن ہو گئے،ہماری زندگی میں بھلا کہانی کا گذر کہاں؟ کہانی تو محلات میں ہوتی ہے، آپ جیسے خوبصورت اور خوش حال لوگوں پر گذرتی ہے‘،سو عرض یہ ہے کہ میَں جنوبی پنجاب کا ایک لکڑ ہارا ہوں،جہاں بیشتر بچوں کو بچپن بھی نصیب نہیں ہوتا ،پھر وہ ستم ظریف جوبیتے ہوئے دنوں کو سنہری دن تک کہہ دیتے ہیں، نہیں جانتے کہ میرا شہر ملتان بھی کبھی سونے کا شہر کہلاتا تھا،[بیت الذھب] گذشتہ بارہ سو سالوں کے حملہ آوروں کی وجہ سے اس کا سونا بہتر مسلمانوں اور ان کے عالی مرتبت شہروں تک پہنچ چکا ہے،تاہم ابھی بھی بہت ساسنہری رنگ بعض مقدس عمارتوں، متبرک نشانیوں، ہر قسم کے مخدوموں کی پگڑیوں اور وڈیروں کی تِلّے والی جوتیوں پر دکھائی دے جاتاہے۔
اگر بیتے ہوئے دنوں کی بازیابی کچھ لوگوں،یادوں اور عمارتوں کے دھندلائے سایوں کی مدد سے ممکن ہے تو بتاﺅں کہ چوک نواں شہر کے قریب ایک گلی میں ایک پرائمری سکول ہے،جس پر اس کا سالِ تاسیس۲۵۹۱ لکھا ہے،اس زمانے کے بڑوں میں بھی کچھ شرم و حیا موجود تھی،اس لئے وہ ایسی تختیاں نہیں لکھواتے تھے،جن پر ان کے فرائضِ منصبی قوم کی آئندہ نسلوں پر احسانات کی صورت میں درج ہوں،ہم بستی باغبان میں رہتے تھے،بیچ میں ایک مختصر ندی تھی اور پھر وہ اصلی نواں شہر تھا،جس میں ہجرت کے بعد آنے والے مہاجرین یا ان کے کرایہ دار تھے۔ہماری کلاس میں بھی اکثریت ان بچوں کی تھی،جو کئی بار پِٹ کر بھی جہاز کو جاج اور علم اور حسن کو ایلم اور حوسن کہتے تھے،شاید عادتوں اور رسموں کا بھی کچھ فرق تھا مگر میری ماں سرائیکی محاورے میں کہا کرتی تھی کہ پاکستان آتے ہوئے راستے میں ان کے ساتھ بڑاظلم’کمایا‘ گیا ہے ،تب مجھے پہلا سبق ملا کہ دنیا میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں،ایک وہ جن کے ساتھ ظلم کمائے جاتے ہیں اور دوسرے وہ جن کاحریص جی ایسی کمائی سے کبھی نہیں بھرتا اور یہ کہ جو بھی چاہے کہ وہ راہ خوبصورت ہو جائے،جو خوشحال،خوددار اور جمہوری پاکستان کو جاتی ہو،اس پر ضرور ظلم کمایا جائے گا۔
جیسے برسوں بعد پتا چلا کہ گھر، اسے کہتے ہیں،جس میں ماں رہتی ہو اور ماں اور گھر کا ذکر جب بھی آئے گا، تو ذکر کرنے والا خود بخود بچہ بن جائے گا۔ سو، میَں چوتھی جماعت کا طالب علم تھا،جب میرے چھوٹے سے سر پر بڑی سی پگڑی باندھی گئی،جو مجھے میرے بچپن سے محروم کر گئی،میرے والدِ مرحوم کی ملازمت کو ابھی دس برس نہیں ہوئے تھے اس لئے ان کی برائے نام پنشن آٹھ روپے ماہانہ میری ماں کو کچھ برس کے لئے ملتی رہی، بعد میں بند ہونے سے پہلے تیرہ روپے ہو گئی تھی،اس پنشن کے لئے میَں نے اپنی ماں کو اپنی طرف سے دستخط کرنا سکھائے تھے،مگر وہ ہمیشہ بیگم بی بی کا میم،گ کے نیچے نہیں، میرے رونے دھونے کے باوجوداس کے برابر جا کے بناتی تھیں،یہی نہیںبعض اوقات چٹھی رسان کی فرمائش ہوتی تھی کہ نام کے ساتھ بقلم خود بھی لکھیں،تب دوسرے میم کی وجہ سے کافی پٹّس مچتی،تب پتا چلا کہ بیگم کا ’م ‘اتنا مشکل نہیں،جتنا قلم کا’ م‘ مشکل ہوتا ہے۔کافی برسوں کے بعد جب میرے بہت سے شاگرد ،ان کے سامنے عزت اور محبت سے میرا نام لیتے تو میری ماں کہا کرتی، یہ تم لوگوں کا استادمیرے میم کو تو ٹھیک نہ کرا سکا،تم لوگوں کو کیا پڑھاتا ہو گا؟۔پھر جب میَں نواں شہر پرائمری سکول سے مسلم ہائی سکول میں پڑھنے اور شاید بہت کچھ سیکھنے کو گیا، تب اس سکول کے قریب ہی گل ٹیکس کا کارخانہ تھا،جہاں سے ہم چادریں اور تکیے کے غلاف لا کر اس کے پلو کاڑھتے تھے،یوں اب میری ماں میری استاد تھیں،انہوں نے سوئی میں دھاگہ ڈالنا اور کڑھائی کے کام کی تربیت دی،میَں اب تک ہر کام جلدی جلدی کرتا ہوں،اس لئے وہ کہا کرتی تھیں،تم ’دھڑانگے بھرتے‘ ہو،نفاست کبھی تمہارے کام میں نہیں آسکے گی‘۔ اگرچہ آخر آخر وہ اپنے بیٹے کو اپنی بہو کا تابع مہمل بنتے دیکھ کر وہ انسانوں سے مایوس ہو کر ’اللہ والی‘ بن گئی تھیں، تب میَں ان کے مکاشفوں اور کرامتوں پر کوئی نہ کوئی تبصرہ کربیٹھتا تھا تو وہ کہتی تھیں کہ میرا اللہ بس میری وجہ سے تمہیں معاف کر دے گا،اب کہیں جا کے مجھے ان کے دل اور اپنے دل کا فرق سمجھ میں آیا ہے کہ میَں زندگی بھر جو ،ان سے جھوٹی،سچی باتیں کرتا رہا،کمزور وعدے کرتا رہا،وہ سب پر یقین کرتی تھیں،اور اگر میری کوئی بہن یا بھائی کہہ دیتا تھا کہ بھابھی،یہ کام بھی بھائی جان کو نہیں کرنے دیں گی،تو وہ کہتی تھیں کہ اس کی باتوں سے مجھے سُکھ ملتا ہے،اچھی نیند آتی ہے،تم لوگ میرے چین کے دشمن کیوں ہو،؟ ہاں چھوٹی عمر سے گل ٹیکس کی چادروں کے پلو سینے کی بدولت مجھے پاکستان میں پائی جانے والی ہر قسم کی چادروں بلکہ ان میں ٹانگیں پھیلانے والوں کی اوقات بھی سمجھ میں آنے لگ گئی۔ بہر طور چھوٹی عمر سے ہی قبروں،قبرستانوں اور مولویوں سے واسطہ پڑا۔کئی جمعراتوں تک کے لئے میری ماں نے ہماری روٹی گھٹا کے ایک’پہنچے ہوئے‘ مولوی صاحب کو بلانا اپنا معمول بنا لیا۔غالباً سترھویں جمعرات پر ہمارے گھر میں روٹی کو چپڑنے کے لئے گھی اور پانی کو میٹھا بنانے کے لئے چینی نہیں تھی،اس لئے سادہ پانی اور سادہ روٹی بھی عقیدت سے مولوی صاحب کو دی گئی تو انہوں نے غضبناک لہجے میں مجھے کہا’آج تمہارے باپ کی روح کو بھوک کے مارے آسمان پر نیند نہیں آئے گی‘۔ اور میَں ساری رات اپنے مرحوم ابا جی کی بے آرامی اور بھوک کو یاد کر کے روتا رہا ۔اسی طرح ہمارے محلے میں ایک جماعتِ اسلامی کے ایک متفق رہتے تھے، ایک مرتبہ انہوں نے از رہِ شفقت کہا’تمہارے والد مرحوم کومیرے والد رحمة اللہ علیہ کافی پسند کرتے تھے‘،سو مجھے ایک اور سبق یہ ملا کہ سارے مراتب صاحبِ حیثیت اور بارسوخ لوگوں کے لئے ہوتے ہیں،غریب غربا کے ابا جی زیادہ سے زیادہ مرحوم ہو سکتے ہیں۔ جی چاہ رہا ہے کہ ماں باپ کے ساتھ اپنے چند استادوں کا احوال بھی سنا دوں مگر کس کس مہربان کا ذکر کروں،پروفیسر خلیل صدیقی کا ذکر کروں جو پروفیسر کرار حسین کے ساتھی اور ہم مشرب تھے،جنہیںایک طاقت ورکرسی نشیں نے دورِ ریا یا دورِ ضیا میںجب مشورہ دیا کہ وہ پاکستان سٹڈیز سنٹر کے ڈائرکٹر کے طور پر ریسرچ بھی کرائیں تو انہوں نے کہا تھا کہ اس مضمون کا بھرم اس وقت تک ہے،جب تک اس میں ریسرچ نہ ہو،یا انگریزی کے استاد ظفر اقبال فاروقی کا ذکر کروں جن کی نمازِ جنازہ کے موقع پر مولوی صاحب نے کہا تھا کہ برادرانِ اسلام میَں نے پروفیسر صاحب کو بارہا کہا تھا کہ وہ نیکی کاراستہ اختیار کریں،مگر وہ جواب میں ہر مرتبہ کافرانہ انداز میں مسکرایا کرتے تھے۔ یا پھر اپنے اردو کے استاد سید ریاض حسین زیدی کا ذکر کروں جنہوں نے ۷۶۹۱ میں ایم۔اے اردو میں میرے داخلے کے موقع پر ایمرسن کالج ملتان کے پرنسپل کو لکھ کر دیا تھا کہ اگر اسے وظیفہ نہ مل سکا تو میں اپنی تنخواہ سے اس کے دو برس کے واجبات ادا کروں گا ،سو مجھے محض ایک روپیہ کی ادائیگی سے داخلہ مل گیا۔ اب جب کہ اس بات کوپچاس برس گذر نے کوہیں، اپنے شاگردوں کے لئے کی جانے والی میری ان گنت کاوشوں کے باوجود اس ایک روپے کا قرض کا بوجھ میرے دل پر سے نہیں اترتا۔
اپنی طرف سے تومیَں چاہتا ہوں کہ اپنی یادوں میں سے کوئی خوش گوار،امید بھرا ورق بھی ہاتھ آئے جو آپ کو پڑھ کے سنایا جائے۔ میرے پاس ایک سنہری صبح کا خواب ضرور تھا، جس کا آغاز ایک طرف پریم چند،کرشن چندر اور احمد ندیم قاسمی کے افسانوں اور فیض،جالب اور ساحر کی شاعری کے مطالعے سے ہوا اور پھر ایف اے کے طالب علم کے طور پر فاطمہ جناح کے جلسوں میں شریک ہوا تو آمریت کے خلاف جدو جہد کرنے کا نشہ سوار ہونے لگا ہو،یہ نشہ ضیا الحق کے ریا پرور دور میں اپنے عروج پر جا پہنچا ،مگرآپس کی بات ہے کہ اپنے مفروضہ نجات دہندہ کی ناطاقتی کے بارے میںشک تو مجھے بے نظیر کی پہلی حکومت کے دوران ہی ہو گیا تھا اور یہ خیال بھی کہ’جلاوطنوں‘ سے کسی انقلاب کی توقع نہ رکھیں تو اچھا ہے کہ یہ مہاجروں کی طرح ’یادش بخیریا‘ جیسی مملکت کے مستقل باشندے ہو جاتے ہیں،مگر پیپلز پارٹی کے موجودہ قائدین یا مہذب گورکنوں کے ظہور کے بعد تواپنے ملنے والوں میں مجھے زیادہ ندامت ملتان یونیورسٹی کے بیلداروں،مالیوں،چوکیداروں اور نائب قاصدوں سے ہے،یا پھران شاگردوں سے جنہیں میَں اپنے معاشرے کے محروم لوگوں تک فیض کا یہ مصرعہ پہنچانے کو کہتا’لمبی ہے،غم کی شام مگر شام ہی ہی تو ہے‘ تاکہ یہ لوگ کوڑے مارنے والے ڈکٹیٹروں کے پیدا کردہ موت اور نفرت کے سوداگروں سے خوف زدہ ہو کر جمہوریت کے ذریعے سماجی عدل پر مبنی معاشرے کے خواب سے دست بردار نہ ہو جائیں،مگرہر الیکشن کے بعدان کے دکھ اور محرومیاں بڑھیں اور اقتدار کے مراکز سے دور علاقوں میں بے روزگاروں کی لاچار قطار میں اضافہ ہی ہوا۔ اپنے دل پر کندہ اپنے خطے کی کس کس نشانی کا ذکر کروں،نواب پور کے برہنہ جلوس کا ذکر کروں،مختاراں مائی کی صورت میں بے وسیلہ لوگوں کی اجتماعی آبرو ریزی کا،راشد رحمن کے قتل کا، یا پروفیسر جمیل عمر کے تعزیتی ریفرنس میں اس کی اشک بہاتی معصوم بیٹی کی سسکیوں کا، وہی جمیل عمر ،جسے اب قائدِ اعظم یونیورسٹی کے سبھی استاد بھی نہیں جانتے ہوں گے کہ ضیاءالحق دور میں اس پروفیسر کو برس ہا برس جیل میں رکھنے کے موجب پمفلٹ پر پاکستان کے کس آئین کو بحال کرنے کا مطالبہ درج تھا؟ یہ بات تو ہمارے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھانے والے تمام اداروں کے معزز ارکان کو معلوم نہیں ہوگی،البتہ جمیل عمر کی معصوم بیٹی کے آنسوﺅں کی کسک کو وہ سب بچے توجانتے ہوں گے،جن کے ننھے سروں پر درد کی بڑی پگڑیاںرکھ کے ان کے بچپن کو چھین لیا جاتا ہے۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *