Home » پوھوزانت » عالم گیریت اوراردو ادب ۔۔۔ نجیبہ عارف

عالم گیریت اوراردو ادب ۔۔۔ نجیبہ عارف

1988 میں جرمن زبان میں ایک کتاب شائع ہوئی تھی، جس کے مصنف جرمن زبان وادب کے استاد،نقاد،ناول نگار اور بین الاقوامی سطح پر معروف ماہر لسانیات Uwe Poerksenہیں۔ اس کتاب نے بہت جلد علمی و ادبی حلقوں میں شہرت حاصل کر لی اور ۵۹۹۱ءمیں اس کا انگریزی ترجمہ ، پنسلوینیا سٹیٹ یونیورسٹی سے شائع ہوا، جس کاپیش لفظ مصنف نے خود لکھاتھا۔اس کتاب کا نام ہے Plastic Words- The Tyranny of a Modular Language۔ یہ کتاب جدید سیاسی و معاشرتی تناظر میںبیک وقت زبان کی اہمیت اور بے معنویت کو اجاگر کرتی ہے بلکہ یو ںکہیے کہ زبان کے ناجائز استعمال، اس کی بے حرمتی اور اس سے ہونے والی زیادتی بالجبر کی ایف آئی آر ہے۔مصنف جن دنوں اس کتاب کے مضامین تحریر کر رہے تھے، ان دنوں ابھی سوویت یونین کی تقسیم (26دسمبر، 1991) اور ہماری زبان میں اس کا ٹکڑے ٹکڑے ہونا عمل میں نہ آیاتھا، نہ ابھی دیوار برلن ٹوٹی تھی (9 نومبر، 1989ئ)۔ یہاں تک کہ مصنف یہ سمجھتے تھے کہ دیوار برلن اگر کبھی ٹوٹی بھی تو کم از کم ان کی زندگی میں نہیں ٹوٹے گی۔ لیکن انگریزی ایڈیشن کے پیش لفظ میں وہ اعتراف کرتے ہیں کہ دیوار ٹوٹ گئی۔ اور دیوار کا ٹوٹنا،سب اہل علم و ادب جانتے ہیں، محض دیوار کا ٹوٹنا نہیں ہوتا۔ یہ ایک علامتی عمل ہے۔ دیوار جب اٹھتی ہے تو محض دوری ہی نہیں پیدا کرتی، احساسِ تحفظ بھی عطا کرتی ہے اور جب ٹوٹتی ہے تو صرف جوڑتی ہی نہیں، موسم، ہمسائے اور جنگل کے شدائد کا شکار بھی بنا دیتی ہے۔
میں نے برلن کی مرکزی فوجی چیک پوسٹ پراس ٹوٹی ہوئی دیوار کے یادگاری ٹکڑو ںکو دیکھا ہے، اس پر لکھے ہوئے دید اور درشن کو ترستے لفظوں کو پڑھا ہے، ٹوٹے ہوئے دلوں کی مدھم پڑتی دھڑکن اور ان میں کھبے ہوئے تیروں سے ٹپکتے سرخ لہو کے قطروں کو اپنی جان پر سہا ہے۔ یہ سب شعر، جملے، خط اور تصویریں دیوارتوڑڈالنے کی آرزو سے لبریز ہیں، دیوار کے پار جانے کی خواہش مند۔ اور پھر دیوار ٹوٹ گئی۔اس واقعے کو چند ہی برس گزرے تھے کہ مجھے مغربی جرمنی کی ایک نوجوان لڑکی سے ملنے کا اتفاق ہوا۔مشرقی جرمنی کے ایک چھوٹے سے شہر کی انیس سالہ انڈر گریجویٹ سٹوڈنٹ، جو اپنے کتے کے ساتھ تنہا رہتی تھی اور مشرقی جرمنی کے ایک بے آباد ویران گاو¿ں میں اس کی ماں اپنی بوڑھی بہن کے ساتھ تنہا تھی۔ کیٹرین ایک روز مجھے اپنے شہر کا میوزیم دکھانے لے گئی اور واپسی پرسڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر بےٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
میں آپ سب سے معافی مانگنا چاہتی ہوں، میں پوری دنیا سے، پوری مہذب دنیا سے معافی مانگتی ہوں، کیوں کہ میرا تعلق اس قوم سے سے ہے جس نے ہٹلر کو پیدا کیا۔ میں اس دنیا میں خود کو شودر سمجھنے لگی ہوں۔ میں اس نئی دنیا میں گھل مل جانا چاہتی ہوں، مگر ایسا کر نہیں سکتی۔
میں حیرت سے اس کی شکل دیکھتی رہی اور اس کے مسئلے کو بالکل نہ سمجھ سکی۔دل ہی دل میں میں اسے کوئی سائیکو کیس سمجھ بےٹھی تھی چنانچہ میں نے خود کو باقاعدہ مبارک باددی کہ میں ایک ایسے معاشرے سے تعلق رکھتی ہوں، جو اگرچہ ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے ہے لیکن جہاں فیملی سسٹم ابھی مضبوط ہے، اچھا چلو، منافقانہ ہی سہی ، مگر معاشرے میں فرد کو خاندان کا ساتھ اور سہارا تو میسر ہے۔
لیکن کچھ دن بعدکیٹرین کے کرب و الم کا راز کھل گیا جب اسی شہر کی ایک یونیورسٹی میں ایک سیمی نار ہوا اور اس سیمی نار میں اعداد و شمار کی مدد سے یہ بتایا گیا کہ مشرقی اور مغربی جرمنی کے ادغام، یعنی دیوار برلن ٹوٹنے کے بعد سے مغربی جرمنی، یعنی ترقی یافتہ دنیا کی معیشت پر کتنا بوجھ پڑا ہے اور یہ کہ مشرقی جرمنی سے آنے والے نوجوانوں کا تعلیمی معیار مغربی جرمنی کی درس گاہوں سے فارغ التحصیل ہونے والے نوجوانوں سے کتنا پست ہے اور یہ کہ کھلے مقابلے کی فضا میں مشرقی جرمنی والے ہمیشہ ہار جاتے ہیں اور ان میں ردعمل اور مزاحمت اور شاید کوئی دبی دبی سی بغاوت پیدا ہوتی ہے، لیکن -اور یہ ایک بہت بڑا لیکن ہے – ان سب باتوں کے باوجود، مشرقی جرمنی والے واپس اپنے دیہاتوں میں نہیں جانا چاہتے، ان کے گاو¿ں کی حویلیاںڈھنڈار پڑی ہیں، وہاں صرف وہ بوڑھے رہ گئے ہیں جو شہروں میں قطعاً بے کار ہیں۔ وہ مائیں جن کے بیٹے پچھلی جنگ میںشہید ہوگئے تھے۔
یہ ہے عالم گیریت کا اصل چہرہ۔ جہاں بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو کھا جانا اپنا جائز اور قانونی حق سمجھتی ہیں۔لیکن چھوٹی مچھلیاں اس کے باوجود بڑے سمندروں سے نکل کر واپس اپنے دریاو¿ں میں نہیں جانا چاہتیں کیوں کہ پانی ہمیشہ نشیب کی طرف بہتا ہے اور اس بہتے ہوئے دھارے کے مخالف رخ پر تیرنے کے لیے طاقت ور انجن بھی درکار ہے اور اس انجن کو چلانے کے لیے تیل بھی۔ اور تیل کی قیمت ہر ایک ادا نہیںکر سکتا۔
لیکن اوواہ پورکسن کی کتاب کی بات تو بیچ ہی میں رہ گئی۔ اس کتاب میں جو 1985 میں لکھی گئی تھی، مصنف نے ایسے لفظوں پر بحث کی ہے ، جن کی کل تعداد توچالیس پچاس سے زیادہ نہیں لیکن وہ اپنے زمانے کی سیاست، معیشت، معاشرت اور طاقت و قوت پرتسلط جمائے ہوئے ہیں۔یہ الفاظ اپنے اندر کچھ معانی نہیں رکھتے۔ یہ اپنے سیاق و سباق اور تناظر کے ساتھ ایک ایسے سیال طریقے سے جڑے ہوئے ہیں کہ انھیں بیک وقت متضاد مفاہیم میں استعمال کیا جا سکتا ہے ،۔ ایک مبصر کے الفاظ میں:
At first, they seem marvellously versatile, but in reality, they are slippery and elusive, making it impossible to pin down their meaning and therefore, Poerksen suggests, they are dangerous.
Development, problem, project, strategy, sexuality, جیسے الفاظ ان پلاسٹک ورڈز کی چند مثالیں ہیں جن کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ they say everything and mean nothing. اور جن دنوں اوواہ پورکسن وہ کتاب لکھ رہے تھے، انھی دنوں دنیا میں عالمگیریت، یعنی گلوبلائزیشن کے غلغلے کا احیا ہوا۔
عالمگیریت۲ ۔۔۔ کیسی روح پرور اصطلاح ہے۔ کسی خوش کن خواب کی طرح ۔ ایک ایسی دنیا کا خواب جو بنی نوع انسان کی وحدت پر بنیاد رکھتی ہو۔ پوری انسانیت کا ایک ہی قبیلہ ہو، ایک ہی دنیاہو، جس میں کوئی سرحد ، کوئی لائن اوف کنٹرول نہ ہو، ویزا نہ ہو، پاسپورٹ نہ ہو۔ ہوا ، دھوپ اور چاندنی کی طرح تیل گیس اور معدنیات بھی سب کے ہوں۔ سب انسان ایک جیسی سہولتیں حاصل کر سکیں، ایک جیسے برانڈ کے کپڑے پہن سکیں، ایک جیسی کاروں میں سفر کر سکیں، ایک جیسے موبائل فون، کمپیوٹر اور فریج استعمال کر سکیں۔
لیکن اصل میں اس کا یہ مطلب نہیں۔اس اصطلاح کا اصل مطلب یہ ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے تاجروں اور صنعت کاروں کو یہ آزادی ملے کہ وہ جہاں چاہیں اپنی دکان کھول سکیں، پھر اسے چمکانے کے لیے، اشتہارسازی کی صنعت کو فروغ دیں، اس صنعت کے فروغ کے لیے میڈیا کو خرید لیں یا خود اپنا میڈیا تخلیق کر لیں۔ اگر وہ اسلحہ بیچنا چاہتے ہیں تو سیاست دانوں اور حکمرانوں کو خریدیں اور ان کے ذریعے دنیا کو جنگوں میں جھونک دیں، اگر وہ دوائیں بنا رہے ہیں تو پہلے ان بیماریوں کا ہوا کھڑا کریں اور پھر ان کی ویکسین بنا کر بیچیں،اس مقصد کے لیے صرف ڈاکٹر کافی نہیں، انھیں اپنے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بنانے پڑیں گے جو بتائیں گے کہ فلاں جگہ کا پانی پینے سے یرقان اور فلاں علاقے کی سبزی کھانے سے خلجان ہو جاتا ہے۔اگر انھیں ڈائپر بیچنا ہیں تو ماو¿ں کی ممتا کا استحصال کریں، موبائل فون کے نائٹ پیکیج بیچنے کے لیے عزت و ناموس کی روایات کا قلع قمع کریں۔ ان کے لیے ہر شے فروختنی ہے۔ وہ زبان ہو یا ادب، فن ہو یا دانش، قلم ہو یا علم، سائنس ہو یا ٹیکنولوجی۔یونی ورسٹیاں صرف وہ شعبے قائم کریں گی جو ان کے مفاد میں ہوں گے۔ سائنس صرف وہ ایجادات کرنے کی پابند ہے جن سے وہ فائدہ اٹھا سکیں۔تاریخ کے جس لمحے میں انھیں جس شے کی ضرورت پڑے گی اس کی مانگ منڈی میںیکا یک بڑھ جائے گی۔ آپ کو معلوم بھی نہ ہو گا کہ کل کا دوست آج دشمن کیسے بن گیا۔ وہ جسے چاہیں راتوں رات مقبول بنا دیں جسے چاہیں مردود و معتوب قرار دے دیں،ان کے ارادوں اور فیصلوں کے جواز ڈھونڈنااور ان پہ مہر تصدیق ثبت کرنا تیسری دنیا کے کم نصیب لکھاریوں، صحافیوں اور تجزیہ کاروں کا کام ہے اور وہ یہ کام ذوق و شوق سے کرتے ہیں۔یہ ہے گلوبلائزیشن کا اصل مطلب۔جس کی لاٹھی، اس کا بھینس۔ اور لاٹھی صرف ایک ہے، کرنسی۔یہی لاٹھی دنیا بھر کی ثقافت، اقدار، روایات، عقائد ، علم اور ادب کی سمت متعین کرتی ہے۔ یہ ایک عالمی زنداں ہے جس میں ہر قیدی کی ایک سی وردی ہے۔یونی فارم۔اس بھیڑ بھاڑ میں موضوعات سے لے کر تکنیک اور اسلوب تک سب givenہیں لیکن انھیں acquired کہاجاتا ہے۔
جب ہم اردو زبان و ادب میں عالمی جہت کی بات کرتے ہیں تو خدشہ ہوتا ہے کہ اس سے مراد کہیں وہی پچھل پیری تو نہیں جوگلوبلائزیشن، کوسمو پولیٹن ازم اور عالمگیریت جیسی اصطلاحو ں کی بین المتنیت(intertextuality) سے جنم لیتی ہے اور ادب اور ادیب کوجھوٹے دردِ زہ میں مبتلا کر دیتی ہے۔ ایسا جھوٹا درد ، جس کی ٹیس بھی مصنوعی ہوتی ہے اور چیخ بھی اور جس کے اظہار کے لیے منھ سے کراہ نہیں نکلتی،باقاعدہ ادب خارج ہوتا ہے۔ایسا ادب جو مانگے کے دردوں، مستعار خیالوں اور چوری شدہ خوابوں کو ٹھونک بجا کر تیار کیا جاتا ہے۔ خیال اور موضوع سے لے کر تکنیک اور اسلوب تک، سب کچھ ”عالمی “ ہوتا ہے۔زندگی کے حقیقی لمس اور ذائقے سے ناآشنا، کرب و الم اور لذت و مسرت سے بے گانہ۔ ایسا ادب ان موضوعات کو چنتا ہے جن کا تجربہ ادیب نے خود کبھی نہیں کیا، ان اسالیب کو ذریعہ اظہار بناتا ہے جن میں نئے پن کے سوا کوئی خوبی نہیں ہوتی، اس تکنیک کو منتخب کرتا ہے جو صرف چونکا سکتی ہے۔چونکا دینے ، حیران کر دینے اور ہو سکے تو پریشان کر دینے کی صلا حیت ہی اس ادب کی واحد منزل ہے۔ یعنی توجہ طلبی۔ دنیا بھر کے ساتھ قدم ملا کر چلنے کے شوق میں کبھی کبھی ہم خود اپنے آپ کو بھی پیچھے ہی کہیں چھوڑ آتے ہیں۔ خود اپنے سچ سے گریزاں، اپنی ذات سے بے تعلق ، اپنی حقیقت سے ناآشنا۔کبھی پارٹی لائن کی پابندی تو کبھی جدیدیت کے تقاضے، کبھی مذہبی فرض فریضے، تو کبھی حب وطن کی پکار، ایجنسیوں کی فرمائشیں اور سرکار دربار کے مطالبے۔ ایسے میں ادب کی حیثیت اس اینٹی ڈینڈرف شیمپو کے اشتہار کی سی ہو جاتی ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ جس لڑکی کے بالوںمیں خشکی ہو، اس کا رشتہ ٹوٹ جائے گا اور جس لڑکے کے بالوں میں خشکی ہوگی، اسے نہ نوکری ملے گی نہ سچا پیار۔
ایسے ادب کی عالمی جہت ہوتی نہیں، اس میں عالمی جہت ڈالی جاتی ہے۔ایسا ادب قاری کے لیے نہیں نقاد کے لیے لکھا جاتا ہے۔ اور ایسے نقاد بھی کم نہیں جومنھ پکا کر کے ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ فہمیدہ ریاض کے ناول گوداوری میں تانیثیت کی دوسری لہر کا تیسرا ماڈل نافذ ہوتا ہے۔جو شخص فیمینزم کی دوسری لہر کے تیسرے ماڈل سے واقف نہیں وہ نہ تو اس ناول کی تفہیم کر سکتا ہے، نہ تحسین۔سچ تو یہ ہے کہ اگر نوبل انعام کے مستحق ہونے کی شرائط کو سامنے رکھ کر نمبر وار ان پر پورا اترنے کی کوشش کی جائے، تو شایدنوبل انعام تو مل جائے مگر عظیم ادب تخلیق نہیں ہو سکتا۔ عظیم ادب خود اپنی ذات کے بالمقابل آنے، اپنے باطن کے عمیق ترین گوشوں میں جھانکنے اور خود اپنی سچائیاں دریافت کرنے سے ہی وجود میں آ سکتا ہے۔اورجب تخلیقی سطح پراپنی ذات کی کوئی سچائی دریافت ہوتی ہے تو وہ اپنا اسلوب اور تکنیک ساتھ لے کر آتی ہے۔
لیکن یہاں دو باتیں واضح کرنا ضروری ہے،پہلی تو یہ کہ اپنی ذات کے حوالے سے ایسی داخلیت پسندی مراد نہیں جو معروض سے دوری یا اجنبیت کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے اور جس کی ایک شکل Absurdityیعنی لایعنیت اورمغائرت کے رجحانات اور وجودیت کے فلسفے کی صورت میں ہم پچھلی صدی کے اوائل سے دیکھتے رہے ہیں۔ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ انسانی ذات، محض جینز کی ترتیب یاکیمیاوی مادوں کے نئے combinations سے ہی نہیں بنتی، بلکہ اپنے عصر کے تمام تر وقوعوں، ماحولیاتی آلودگیوں ، فکری تنازعوں، تخیلاتی منصوبوں اور سیاسی ، اقتصادی، سماجی اور روحانی بیانیوں کے انجذاب کے بعد صورت پذیر ہوتی ہے۔
اس سے یہ بھی مراد نہیں کہ چیچو کی ملیاں کا ادیب صرف چیچو کی ملیاں کے تجربے ہی کو اپنی تحریر کا موضوع بنا سکتا ہے۔ اگر وہ کبھی ویانا یا استنبول یا لاس ویگاس نہیں گیا تو اسے کوئی حق نہیں کہ ان شہروں کے باسیوں سے تہذیبی و ثقافتی، سیاسی و معاشی یا جذباتی و روحانی اشتراک و ہم آہنگی پیدا کرنے کی جسارت کرے۔اس کے برعکس میرا تو یہ خیال ہے کہ ادیب ہی نہیں ایک عام قاری بھی، خواہ ادب کے ذریعے، خواہ سائیں گوگل سرکار کے باطنی تصرفات کی مدد سے ، اگر چاہے تو تخیل کی شدت اور اڑان کی مدد سے اس کرہ¿ ارض سے باہر کی فضا کو بھی جی سکتا ہے۔ ہر ہونی اور ان ہونی ، ممکن اور غیر ممکن کا تجربہ کر سکتا ہے ۔ بلکہ میرا تو ایمان ہے کہ خیال بھی ایک حقیقت ہے اور جسے ہم حقیقت کہتے ہیں، اس سے کہیں زیادہ وسیع، گہری اور ہمہ گیر حقیقت ہے۔
اسی حقیقت کا اظہار اردو ادب میں ہر سطح پر ہوا ہے۔ اس مختصر مضمون میں پورے جدید ادب کا محاکمہ تو ممکن نہیں، صرف کراچی سے نکلنے والے دو جریدوں کو، جنھیں وہ خودکتابی سلسلے کہتے ہیں، دیکھ لیجیے: میری مراد دنیا زاد۳ اور آج ۴ سے ہے۔ایک اگر تراجم کے ذریعے اردو دنیا کو نئے تجربات، موضوعات، تکنیک ، اسالیب اور اصناف سے آشنا کر رہا ہے تو دوسراکرہ ارض کے ہر خطے کے زخموں کی کتھا بیان کرنے پر تلا ہوا ہے۔ عاشق من الفلسطین اور میں بغداد ہوں جیسے شمارے ، اور ہر شمارے میں ایسے ادب پارے جو معاصر دنیا کی مجموعی صورت حال پرقلم کی گواہی ہیں۔ کشور ناہید کی وحشت اور بارود میں ڈوبی ہوئی نظمیں، اردو افسانے میں گیارہ ستمبر کے بعد رونما ہونے والا مزاحمتی رجحان، شاعری کے مضامین ہی نہیں، اسلوب، استعاروں اور پیکروں کی تراش خراش میںبھی زندہ لہو کا ذائقہ اوراردو ادیب کا معاصر صورت حال سے جڑ کر جینے کا تجربہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جدید اردو ادب کسی ایک خطے یا علاقے کے محدود تجربے تک محدود نہیں۔یہاں صرف دو نظمیں پیش خدمت ہیں جو اردو نظم کے عالمی تناظرمیں بدلتی ہوئی صورت حال کا عکس ہیں۔ پہلی نظم ذیشان ساحل کی ہے :
زندگی کے کونے پر
جارج بش کی برکت سے
روگ اہل بابل کے
دور ہونے والے ہیں
سورما محبت سے
چور ہونے والے ہیں
مورچوں میںچھپ چھپ کے
مور سونے والے ہیں
دیر تک اندھیرے میں
ٹینک اور طیّارے
لوریاں سناتے ہیں
گولیوں کی بارش میں
پھول لہلہاتے ہیں
ان گنت ٹریسر بھی
چاند اور ستاروں کا
حوصلہ بڑھاتے ہیں
ساری صف شکن توپیں
اہل دل کی خواہش پر
گیت گنگناتی ہیں
جارج بش کی جنت میں
جا پہنچتی ہیں روحیں
جسم و جاں کے بندھن سے
جب رہائی پاتی ہیں
خوش نما کلسٹر بم
اہلِ فن کا سرمایہ
اور کروز میزائل
امن کی ضمانت ہیں
جارج بش کی برکت سے
زندگی کے کونے پر
ہم ابھی سلامت ہیں
دوسری نظم آفتاب اقبال شمیم کی ہے:
گیارہ ستمبر
سنا ہے
شہر اول کی جبیں پر آگ کی
اک کنکری آکر گری ہے
وہ زور آور
اچانک چوٹ لگنے پر بہت برہم ہوا ہے
شکوہ کج کلاہی کم ہوا ہے
زر مشہور ناقدری سے گہنایا گیا ہے
ہمیشہ کے جریدے میں یہی لکھا ہو ا
پا یا گیا ہے
کہیں داو¿د نے جالوت پر حملہ کیا ہے
فقیر تکیہ¿ دل ہوں
بہت رویا ہوں ان کے واسطے
جو مفت میں مارے گئے ہیں
سکندر کی تمناے جہاں گیری پہ جو وارے گئے ہیں
شاعر نے اس نظم کا عنوان ”گیارہ ستمبر“ رکھا ہے مگر آپ چاہیں تو اس کا عنوان عالمگیریت بھی رکھ سکتے ہیں ۔ گیارہ ستمبر کے حوالے سے ایک تحقیقی کام کرتے ہوئے مجھے واضح طور پر محسوس ہوا کہ امریکی فکشن میں اس تجربے کو مقامی سطح پر سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اس موضوع پر لکھے جانے والے اکثر ناول، جن کی تفصیل مذکورہ مقالے میں موجود ہے، افراد کی نجی زندگیوں پر اس واقعے کے اثرات بیان کر کے رہ جاتے ہیں ۔ جب کہ اردو فکشن میں اس واقعے کو اس کے پورے سیاسی، بین الاقوامی اور سماجی مضمرات سمیت بیان کیا گیا ہے ۔ لیکن یہ ادب ادیب کی ذات کے ناگزیر تقاضے کے نتیجے میں تخلیق ہوتا ہے، کسی شعوری منصوبہ بندی یا تحریکی ایجنڈے کے طور پر نہیں۔اور منصوبہ بندی اور ایجنڈے کی بات نکلی ہے تو یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ جب عالم گیریت یا گلوبلائزیشن کا غوغا بہت بڑھ گیا تو رد عمل میں مقامیت یا لوکلائزیشن کا شور برپا ہوا اور مقامی زبانوں، ثقافتوں اور لوک ادب کے احیا کا بیڑہ اٹھایاگیا۔ منقسم مقامی اور علاقائی شناخت کی بحالی اورعالمی بے چہرگی کے بالمقابل انفرادیت کا علم بلند کرنے کی ٹھانی گئی۔چناں چہ غیر سرکاری تنظیموں کی فنڈریزنگ ایکٹویٹیز کو ایک اور پلیٹ فارم مل گیا۔ ادب اور ثقافت کے بھی وارے نیارے ہو گئے۔ غریبوں ، کچلے ہوﺅں، پس ماندہ اور غیر اہم افراد کی تجلیل و تعظیم کا مقصد اپنی جگہ بہت عظیم اور قابلِ قدر ہے لیکن جلد ہی معلوم ہو گیا کہ ایسی سیدھی سادی نیک آشاو¿ں کے پس پشت بھی وہی حیلے ہیں پرویزی۔انسان کو بحیثیت فرد اپنے منصب پر بحال کرنے کی یہ بے ساختہ اور بے ریا آرزو بھی جب عالمی ایجنڈابن کر رہ گئی تو اس کی تازگی، خلوص اور تقدیس پامال ہوتی چلی گئی۔ معلوم ہوا کہ حریف مکتبہ ¿ فکر نے اسے اپنا بچہ جمورا بنا لیا ہے اور اب یہ ان ریاستوں کو مقامیت، زبان، ثقافت اور جغرافیائی شناخت کی بنا پر تقسیم کر کے کمزور کرنے اور ان پر بالواسطہ تسلط حاصل کرنے کی سازش کا مہرہ بن چکی ہے جن کی کوکھ میں تیل، گیس اور معدنیات کے بے بہا جوہراپنے جنم کے منتظر ہیں۔
اکیسویںصدی کی اس جدید پیچیدہ زندگی میں گلوبلائزیشن، گلوکلائزیشن اور کوسموپولیٹن ازم جیسی یہ پلاسٹک اصطلاحات، کالے شاپنگ بیگ سے زیادہ بڑا عِفریت بن چکی ہیں اور مسلسل انسان کی ذہنی و فکری آبرو دری میں مصروف ہیں۔ اس پہ مستزاد یہ کہ کثرت ِ استعمال سے ان الفاظ کے معنی گھس گئے ہیں اور اب ان کا صرف چھلکا باقی رہ گیا ہے۔یہ چھلکا کانوں میں چبھتا ہے اور آنکھوں میں رڑکتا ہے۔
کیا ایسا نہیں ہو سکتاکہ ہم اپنے خیالات کو ان پلاسٹک اصطلاحات کی پھٹی پرانی ، بوسیدہ اور کھردری جینزسے نکا ل کر انھیں اپنے سچے اور نئے نکورخوابوں کے حریر و پرنیاں میں ملبوس کر دیں، انھیں نئے معنی کا پیراہن عطا کریں۔ایساپیراہن، جو اختلافات کو معدوم ، مردود اور معتوب کیے بغیر انھیں اپنے اندرسمیٹ لے۔جوگی کے چوغے اور سندھی رلّی کی طرح جس میں ہر رنگ کا پیوند ہو اورہر پیوند کی اپنی اہمیت ہو۔آخر ہر زمانے میں ادیب ہی تو یوٹوپیا تعمیر کرتے رہے ہیں۔ ایک ایسا خواب کدہ جس میں نہ کوئی سرحد ہو نہ لائن اوف کنٹرول، نہ ویزا ہو نہ پاسپورٹ۔ جہاں سب انسان، پھول، پرندے اور مچھلیاں، دھوپ، ہوا اور چاندنی میں مل جل کر رہنا سیکھ لیں۔

حواشی و حوالہ جات

۱۔    پال کلی (Paul Klee)، فلیپ، Plastic Words، مترجمہ جوٹا میسن اور ڈیوڈ کیلی (Jutta Mason and David Cayley) (پنسلوینیا: پنسلوینیا سٹیٹ یونی ورسٹی،۵۹۹۱ئ)۔
۲۔    بعض لوگوں کا خیال ہے کہ گلوبلائزیشن کی اصطلاح کا ترجمہ عالم گیریت کی بجائے عالم کاری ہونا چاہیے کیوں کہ عالمگیریت کا لفظ مثبت تلازمات کا حامل ہے۔ میرے خیال میں عالم گیریت ہی اس کا بہترین ترجمہ ہے کیوں کہ     اس سے اصطلاح کے اصل معنی اور اس کے استعمال کے محل میں جو تضاد ہے، وہ کھل کر سامنے آجاتا ہے۔ یہی عالمگیریت کا اصل اصول ہے۔؛ یعنی گھناو¿نے پن کو خوب صورتی اور منفیت کو اثبات کے پردے میں لپیٹ کر پیش کرنا۔
۳۔     مدیر آصف فرخی، کراچی۔
۴۔    مدیر اجمل کمال، کراچی۔
۵۔    پاکستانی ادب (2003 ):173۔
۶۔    فنون 119،(لاہور): 110۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *